قرطبہ: اے مسجدِ قرطبہ
کسی بھی کتاب کا حسن یہ ہے کہ قاری اس کو پڑھنا شروع کرے اور پھر اس میں کھو جائے۔ ایسا کھوئے اس کو دیکھنے والا ’’وَوَجَدَکَ ضَالًّا‘‘ کی کیفیت میں مبتلا ہو ۔ ایسا کھوئے کہ اس کو اپنے ماحول کا بھی علم نہ رہے حتیٰ کہ وہ اپنی ذات کے ادراک سے غافل ہو، جب مطالعہ تکمیل کو پہنچے تو اسے احساس ہو کہ یہ کیا ہوا ۔ اور وہ مزید کی جستجو میں خود کو مزید کھو دے اور افسوس کے کف اس کو اس احساس میں اضافہ کرتے چلے جائیں۔
ممکن ہے یہ کیفیت بہت سی کتابوں میں ہو، لیکن کتاب ’’قرطبہ۔ اے مسجدِ قرطبہ‘‘ اس کیفیت کی مثال آپ ہے۔ اس کے مصنف ڈاکٹر اکرام الحق یسین ہیں جو عہدے کے لحاظ سے اسلامی نظریاتی کونسل کے سیکرٹری ہیں۔ طبیعت میں عجز و تواضع رکھتے ہیں۔ یہ عجز و تواضع ان کی ذات کا مستقل حصہ ہے۔ عہدے کے لحاظ سے بیوروکریٹ ہیں، لیکن بیوروکریٹ سا کروفر طمطراق نہیں رکھتے۔گویا بیوروکریٹ ہوتے ہوئے بھی بیوروکریٹ نہیں ہیں۔
ہماری ملاقات ان کے ساتھ ان کے دفتر میں ہوئی۔ ہم نے ان کے ظاہر سے ان کو سیکرٹری صاحب کا سیکرٹری خیال کیااور ان ہی سے سیکرٹری نظریاتی کونسل سے ملاقات کی خواہش ظاہر کر دی۔ انہوں نے تجسس آمیز نگاہوں سے ہم پر نگاہ ڈالی ہمارے سراپے کا جائزہ لیا۔
ہم نے اپنے عالی مرتبت ہونے کا احساس دلاتے ہوئے کہا، میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہوا ہوں۔ بیس سال گورنمنٹ کالج میں پڑھایا ہے۔ دو برس سعودی عرب۔ ہم خود ستائی میں کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے، لیکن وہ یہی دو جملے سن کر اپنی کرسی سے کھڑے ہو گئے اور سامنے رکھے صوفے پر ہمارے سامنے آ کر بغل گیر ہو گئے۔ معانقہ و مصادرہ کر کے انتہائی اپنائیت دی اور چپکے سے ہمارا دل چرا کر لے گئے۔
درد دل دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
ہم اسی گھر میں رہیں گے جسے برباد کیا
’’قرطبہ۔ اے مسجدِ قرطبہ‘‘ ہدیہ کی۔ تقریباً دو سو صفحات کی کتاب ہے جو موصوف ڈاکٹر اکرام الحق یسین ہی کے قلم کا نتیجہ ہے۔ ساری کتاب میں اچھی تحریریں بھی ہیں اور تصویریں بھی جسے دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔کاغذ انتہائی خوبصورت اور طباعت بھی انتہائی جاذب نظر ہے۔ نگاہ اولین ہی میں کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا است کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر کسی مکتب پر دیکھتے تو خریدے بغیر نہ رہتے۔ کسی کے ہاتھ میں دیکھے تو چرانے کو دل چاہے اور دیکھے اور پڑھے بغیر دل کا چین برباد ہی رہتا۔
آغاز میں آٹھ صفحات پر مشتمل پیش لفظ ہے۔
پیش لفظ سے قبل مسجدِ قرطبہ کے عنوان سے علامہ اقبال کا منظوم کلام دل کی چٹکیاں لیتا ہے۔ یہ نظم آپ نے ہسپانیہ کی سرزمین بالخصوص قرطبہ میں لکھی تھی۔تاریخ بتلاتی ہے کہ مسلمان جہاں بھی گئے وہاں خوبصورت مساجد اور علمی ذوق کے پیش نظر انتہائی گراں قدر کتب سے مزین لائبریریاں قائم کیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب یورپ ابھی اس معاملے میں گہری نیند میں تھا کہ مسلمانوں نے علمی میدان میں ان مٹ نقوش ثبت کیے۔ دنیا حیران ہے کہ یورپ نے بہت سی نئی چیزیں دریافت کیں۔ وہ یہ بھلا بیٹھے کہ سائنسی و علمی ورثہ مسلمانوں کا پس انداز ذخیرہ ہی ہے۔ اس بات کا ثبوت کتاب ’’قرطبہ۔ اے مسجد قرطبہ‘‘ کے مطالعے سے بخوبی ہوتا ہے۔
شروع میں علاقے کا مختصر تعارف ہے۔ ہسپانیہ کہاں ہے۔ کیسا ہے۔ اس کی تزئین و تعمیر میں مسلمانوں کا کیا حصہ ہے۔
دوسرے باب میں مسجد کی عمارت اور سہولیات کا تذکرہ ہے جس میں مسجد کی تعمیر اور تعمیراتی حسن کی تصاویر ہیں جو صدیاں گزر جانے کے باوجود مسلمانوں کے ذوق تعمیر اور آرائش جمالیاتی حسن ذوق جمالیات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آٹھ صدیاں گزرنے کے باوجود تعمیراتی حسن کا غازہ ماند نہیں پڑا۔
یہ بات مسلم ہے کہ تصویری حسن تحریری حسن سے کہیں زیادہ ابلاغ کا ذریعہ ہوتا ہے اور ذہنی نقش کے اعتبار سے کہیں زیادہ مؤثر اور دیر پا نقوش چھوڑتا ہے۔
اگلے باب کا عنوان مسجد کی تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیاں ہیں جن میں کتب خانوں کا تذکرہ، سائنسی تجربہ گاہوں کا تذکرہ، مسلمانوں کی علمی سائنسی دلچسپیوں کا مظہر ہیں۔
اگلے باب میں مسجد پر عیسائیوں کے دلخراش قبضہ کا ذکر ہے اور قبضہ کے بعد عیسائیوں کی علم دشمنی۔ لائبریریوں کے تاراج کی داستانیں خون کے آنسو رلاتی ہیں۔
تصاویر میں بعض ایسے دلخراش آلاتِ عقوبیت بھی دکھائے گئے ہیں جو عیسائیوں کی سفاکی انسان دشمنی اور علم دشمنی کا ثبوت بھی مہیا کرتے ہیں۔
کتاب کے آخری حصہ میں ان چند مسلمانوں کی تصاویر ہیں جن کو عیسائی قبضہ کے بعد مسجد قرطبہ میں پابندی کے باوجود کسی نہ کسی طریقہ سے نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان میں پاکستان کے علامہ اقبال بھی ہیں جنہوں نے چھ صدیوں کے بعد مسجد میں پورے زور سے اذان کا آوازہ بلند کیا۔
کتاب ’’قرطبہ۔ اے مسجدِ قرطبہ‘‘سپین میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی داستان ہے جس میں عبرت بھی ہے، درد بھی ہے، سوز بھی ہے اور مسلمانوں کے لئے بیداری کا پیغام بھی ہے۔
کتاب کے مطالعے کے دوران اپنے اسلاف کی عظمت پر رشک کے جذبات بھی ابھرتے ہیں اور پھر اس کی پامالی پر ندامت کے اشک بھی رخساروں پر بہہ پڑتے ہیں اور اس عظمت رفتہ کو واپس لینے کا داعیہ بھی ابھرتا ہے۔
علامہ اقبال کا یہ پیغام دل کے مضراب پر دھنیں چھیڑتا محسوس ہوتا ہے:
رو لے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی
بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی
زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے
بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے
اک جہانِ تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور
کھا گئی عصرِ کہن کو جن کی تیغِ ناصبور
مردہ عالم زندہ جن کی شورشِ قم سے ہوا
آدمی آزاد زنجیرِ توہم سے ہوا
غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہے؟
آہ اے سسلی! سمندر کی ہے تجھ سے آبرو
رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو
زیب تیرے خال سے رخسارِ دریا کو رہے
تیری شمعوں سے تسلی بحر پیما کو رہے
ہو سبک چشم مسافر پر ترا منظر مدام
موج رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام
تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا
حسنِ عالم سوز جس کا آتشِ نظارہ تھا
نالہ کش شیرا ز کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر
آسماں نے دولتِ غرناطہ جب برباد کی
ابن بدروں کے دلِ ناشاد نے فریاد کی
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں
تیرے ساحل کی خموشی میں ہے اندازِ بیاں
درد اپنا مجھ سے کہہ، میں بھی سراپا درد ہوں
جس کی تو منزل تھا، میں اس کارواں کی گرد ہوں
رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے
قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے
میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا
خود یہاں روتا ہوں، اوروں کو وہاں رلواؤں گا