پٹرولیم ایجنسیاں یا موت کی سوداگر

پٹرولیم ایجنسیاں یا موت کی سوداگر
پٹرولیم ایجنسیاں یا موت کی سوداگر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 

روزنامہ پاکستان لاہور مورخہ28اگست 2024ء کی یہ خبر نظر سے گزری:”پٹرول ایجنسی میں آتشزدگی، 17سالہ نوجوان جان بحق“۔ تفصیلات کے مطابق تحصیل رائیونڈ کے علاقہ کچی کوٹھی سٹاپ کے قریب پٹرول ایجنسی میں آگ لگ گئی، جس کے باعث واجد اختر نامی ۱۷ سالہ نوجوان ہلاک ہو گیا۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک اور مصدقہ خبر کے مطابق مورخہ27اگست 2024ء کو ضلع قصور کے قصبہ کھڈیاں خاص کے مرالی چوک میں بھی ایک پٹرول ایجنسی کی ناکارہ مشین سے پٹرول ڈلواتے ہوئے محمد سجاد ولد محمد حنیف سکنہ بستی باغبانپورہ، کرنٹ لگنے سے موت کی وادی میں چلا گیا۔شنید یہ ہے کہ گذشتہ سال بھی اسی پٹرول ایجنسی پر آتشزدگی کا واقعہ ہوا تھا۔ایک اطلاع کے مطابق صرف کھڈیاں خاص کے گردو نواح میں اس طرح کی بیسیوں ناجائز پٹرولیم ایجنسیاں قائم ہیں جو گردو نواح کے باسیوں کی جان و  مال کو ہمہ وقت خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں لیکن اہل اختیار کا اس طرف کوئی دھیان نہیں ہے۔

صوبہ پنجاب میں پچھلے چند سالوں سے غیر قانونی پٹرولیم ایجنسیوں کا ایک سیلاب سا آیا ہوا ہے۔ نہ تو ان کے پیمانے درست ہوتے ہیں اور نہ ان کے پاس رکھی جانے پٹرولیم مصنوعات کا معیار صحیح ہوتا ہے۔ مزید برآں ایسے لوگ گراں فروشی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں،انہیں پٹرول اور ڈیزل سٹور کرنے اور بیچنے کی قطعا اجازت نہیں ہوتی،کیونکہ یہ مصنوعات بہت جلدی آگ پکڑتی ہیں، جس سے لوگوں کے جان و مال کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ ایسی ایجنسیاں عام طور پر نہایت گنجان آبادعلاقوں میں قائم ہیں۔ اب تویہ لوگ بلا خوف وخطر فلنگ مشینیں لگا کر دھڑلے کے ساتھ بر لب سڑک خطرناک پٹرولیم فروخت کر رہی ہیں، جس سے آئے روز حادثات رو نما ہوتے ہیں اور انسانی جانوں کا ضیاع ایک معمول بن چکا ہے۔عام طور پر سرکاری ملازمین ان کے پاس آتے ہیں۔ اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔بغیر قانونی کارروائی کیے واپس چلے جاتے ہیں۔اگر زیادہ تیر ماریں تو انہیں جرمانہ کر کے خانہ پری کر لیتے ہیں،حالانکہ ان کے پاس جرمانہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔یہ معاملہ بھی توجہ طلب ہے۔ اب تو دی پنجاب نگرانی برائے اشیائے ضروریہ ایکٹ2024ء کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کو اس کے شیڈول سے ہی حذف کر دیا گیا ہے۔

پاکستان پٹرولیم ایکٹ۔1934ء کی دفعہ3 اور پٹرولیم رولز 1937ء کی دفعہ90کے مطابق پٹرولیم مصنوعات لائسنس حاصل کیے بغیر نہ تو سٹور کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی انہیں فروخت کیا جا سکتا ہے۔لائسنس جاری کرنے کا اختیار ڈسٹرکٹ اتھارٹی یعنی ڈپٹی کمشنر ضلع کے پاس ہے اور و ہی اپنے ضلع میں انسپکٹرز کے اختیارات دیگر افسروں کو تفویض کر سکتا ہے، جو ان دنوں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو تفویض شدہ ہیں۔ کچھ اضلاع میں یہ اختیارات سول ڈیفنس افسروں کو بھی دیئے گئے ہیں۔پاکستان پٹرولیم (ریفائننگ، بلینڈنگ اینڈ مارکیٹنگ) رولز1971ء ترمیم شدہ۔2006ء کے رول نمبر:44کے مطابق بغیر لائسنس کے پٹرولیم مصنوعات کو سٹور کرنے اور بیچنے والا ناقابل دست اندازی جرم کا مرتکب ہو گا، اسے تین سال تک قید اور کم ازکم15ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دی جا سکے گی۔ یہ جرم مجموعہ ضابطہ فوجداری کے دوسرے شیڈول کے مطابق ناقابل ضمانت ہو گا۔ ان جرائم کی سماعت کا اختیار جوڈیشل مجسٹریٹ کے پاس ہو گا۔ یعنی ان قوانین کے تحت مقرر کردہ انسپکٹرز صاحبان ملزمان کے خلاف صرف اور صرف مقدمہ درج کرو ا سکتے ہیں۔ اور کاروبار کو سر بمہر کر سکتے ہیں۔ان کے پاس جرمانے کرنے کا کوئی اختیار نہ ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنے وسیع اختیارات ہونے کے با وجود ہمارے افسران بالا ایسے قانون شکنوں کے خلاف کاروائی کرنے سے گریزاں کیوں ہیں؟ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری ملازمین کے اندر شاید احساس ذ مہ داری کا جذبہ مفقود ہو چکا ہے۔ یا ہمارے افسروں کاکام صرف اچھی پوسٹنگ لینا اور اسے بچاناہی رہ گیا ہے۔ انہیں سیا ستدانوں کے پروٹوکول سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ شاید انہیں یہ خوف بھی ہر وقت دامن گیر رہتا ہے کہ اگر وہ اس طرح کے مافیا ز پر ہاتھ ڈالیں گے تو مقامی سیاستدان ناراض ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی سیٹ سے محروم ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ غیر قانونی اور غیر انسانی کام کرنے والوں کے پیچھے آپ کو کوئی نہ کوئی سیاستدان کھڑا نظر آئے گا،جس کی صرف دو عملی مثالیں قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

راقم جب 2001ء میں ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں اسسٹنٹ کمشنر (ڈی ڈی او۔آر) تھا۔اس وقت اس تحصیل میں کل16 پٹرول پمپ تھے۔شکایت تھی کہ وہ ملاوٹ شدہ پٹرولیم فروخت کرتے ہیں۔ اس لئے تمام پٹرول پمپس سے سیمپلز اٹھائے گئے۔ لیبارٹری بھیجے گئے۔ قارئین!آپ حیران ہوں گے کہ ان میں صرف ایک پٹرول پمپ کے سیمپلز معیاری قرار پائے۔ باقی سب کے غیر معیاری تھے۔ ان  پمپ مالکان کے خلاف مقدمات درج کروا دیے گئے۔بیسیوں غیر قانونی پٹرولیم ایجنسیوں کو بھی سیل کر دیا گیا۔ مافیا حرکت میں آیا۔ ایک یونین کونسل کے ناظم صاحب کا بھی پٹرول پمپ تھا۔ ان کے خلاف بھی دو مقدمات درج ہوچکے تھے۔ ان کی دو عدد غیر قانونی پٹرلیم ایجنسیوں کو بھی سیل کر دیا گیا۔ موصوف میرے دفتر میں تشریف لائے۔ بڑے سیخ پا تھے۔مجھ سے الجھنے کی کوشش کی۔ جب انھیں گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا تو معافی مانگنے لگے۔ معافی تلافی ہو گئی۔ یونین ناظم صاحب نے تحصیل ناظم صاحب کو ساتھ لیا۔ ضلع ناظم صاحب کے پاس گئے۔ میری شکایت کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں پر صرف پانچ ماہ کا عرصہ گزارنے کے بعد مجھے ٹرانسفر کر کے او ایس ڈی لگا دیا گیا۔دوسرا واقعہ سن 2009ء کا ہے۔میں ضلع منڈی بہاوالدین کی تحصیل ملکوال میں اسسٹنٹ کمشنر(ڈی ڈی او۔آر) تھا۔ ناجائز پٹرولیم ایجنسیوں کی مسلسل شکایات آرہی تھیں۔ ریڈ کی گئی۔ سات ایجنسی مالکان کو گرفتار کر لیا گیا۔انہیں تھانہ کی حوالات میں بند کروا دیا گیا اور ان کے خلاف استغاثہ جات مرتب کر کے تھانہ بھجوا دیے گئے۔ مقامی ایم پی اے صاحب سخت ناراض ہوئے۔مجھ پر پریشر ڈالا کہ ملزمان کو چھوڑ دوں کیونکہ وہ ان کے ووٹر اور سپورٹر تھے۔ایسا کرنے سے انکار پر اس وقوعہ کے صرف دو دن بعد مجھے وہاں سے ٹرانسفر کروا کر پنجاب کی آخری تحصیل روجھان ضلع راجن پور بھجوا دیا گیا،حالانکہ مجھے اس تحصیل میں صرف پونے تین ماہ کا عرصہ گزرا تھا۔

اس مافیا پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت ایسے واقعات کا سیریس نوٹس لے۔ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ ہلاک شدگان کے لواحقین کی داد رسی کی جائے۔تمام ڈپٹی کمشنر صاحبان کو چاہئے کہ ریونیو سٹاف سے تمام غیر قانونی پٹرولیم ایجنسیوں کی فہرستیں تیار کرائیں۔ان کے مالکان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرتے ہوئے مقدمات درج کروائیں۔ تمام غیر قانونی ایجنسیوں کو سر بمہر کر دیں۔ عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کروا کر ان ملزمان کو سزا دلوائیں۔حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنرز،ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو ان قوانین کے تحت درج شدہ مقدمات کی سماعت کے اختیارات تفویض کریں، کیونکہ موجودہ نظام میں یہ اختیارات جوڈیشل مجسٹریٹ صاحبان کے پاس ہیں۔ ان کے پاس کام کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔ وہ ایسے مقدمات کو سرے سے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ مقدمات سالہا سال تک التوا کا شکار رہتے ہیں۔ بہت ہی کم ملزمان کو سزا ملتی ہے یا معمولی سا جرمانہ کر کے اتنے بڑے جرم کے ملزم کو چھوڑ دیا جاتا ہے، جس سے ایسے جرائم کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مزید :

رائے -کالم -