غزہ کی مسلسل بگڑتی صورتحال
غزہ کے علاقے شجاعیہ میں ایک گھر اور دیگر جگہوں پر کئے گئے اسرائیلی فضائی حملوں میں بچوں سمیت کم از کم 38 فلسطینی شہید جبکہ درجنوں لاپتہ ہوگئے، گھر پر حملے میں 29 جبکہ علاقے کے دیگر حصوں میں نو فلسطینی شہید ہوئے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ میں موجود طبی عملے کا کہنا تھا کہ غزہ کے مشرقی مضافات میں ایک کثیر المنزلہ رہائشی عمارت پرحملہ کیا گیا،شہید ہونے کے علاوہ قریباً 80 افراد لاپتہ ہیں جن بارے میں امکان ہے کہ وہ عمارت کے کھنڈرات کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں۔ اِس حملے سے آس پاس کے کئی دیگر مکانات کو بھی نقصان پہنچا۔ گھر پر حملے سے متعلق اسرائیلی فوج کا دعویٰ تھا کہ اُس نے حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو نشانہ بنایا تھا جو شمالی غزہ میں شجاعیہ سے حملوں کی منصوبہ بندی اور اُن پر عملدرآمد کا ذمہ دار تھا، اِس حملے سے قبل شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لئے متعدد اقدامات کیے گئے تھے تاہم اسرائیلی فوج کے دعوؤں کے برعکس کسی حماس رہنماء کی شہادت کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔ اسرائیل نے لگ بھگ دو ماہ کی جنگ بندی کے بعد 18مارچ کو غزہ پر بمباری دوبارہ شروع کر دی تھی۔ حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں میں قریباً 1500 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جبکہ اکتوبر 2023ء سے اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینی اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جبکہ ایک لاکھ 15 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے،اِس جنگ کے دوران 211 فلسطینی صحافی بھی شہید ہو چکے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں دو مارچ کو امداد کی ترسیل روکے جانے کی وجہ سے خوراک کی قلت پیدا گئی ہے، کم از کم 60 ہزار بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں اور ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ غزہ کی وزارتِ صحت نے خبردار کیا تھا کہ مناسب غذائیت اور پینے کے پانی کی کمی بچوں کی صحت کے مسائل کو مزید بڑھا دے گی خاص طور پر جب اِن کی پولیو ویکسینیشن پر بھی مسلسل پابندی ہے۔ یہ بیان اقوامِ متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کی جانب سے غزہ میں امداد کی ترسیل کو کنٹرول کرنے کی اسرائیل کی نئی تجویز کو مسترد کرنے کے ایک دن بعد سامنے آیا۔ واضح رہے کہ دو مارچ سے اِس 23 لاکھ آبادی والے محصور علاقے میں کوئی امداد نہیں پہنچائی جا سکی کیونکہ اسرائیل نے اہم سرحدی گزر گاہوں کو بدستور سیل کر رکھا ہے، خوراک سے لے کر طبی سامان اور ایندھن تک ہر چیز کی آمد بند ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس صورتحال کے باعث 21 مراکز خوراک بند ہو گئے ہیں جس سے پہلے سے شدید غذائی قلت کا شکار سینکڑوں بچوں کی دیکھ بھال متاثر ہوئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے بھی گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اور فوڈ سکیورٹی سیکٹر کے دیگر شراکت دار تین ہفتوں سے زائد عرصے سے غزہ میں خوراک کی نئی ترسیل نہیں پہنچا سکے، اُن کے پاس موجودہ غذائی ذخائر زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں تک چل سکیں گے۔ دو ہفتے گذرے بھی اب کئی دن گزر چکے ہیں۔اسرائیل خوراک اور بین الاقوامی انسانی امداد روکنے کو بار بار فلسطینی عوام کے خلاف دباؤ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے گزشتہ ہفتے غزہ کی پٹی تک پانی کی فراہمی بھی روک دی تھی جس سے فلسطینی علاقے کو پانی کی فراہمی میں 70 فیصد کمی ہو گئی تھی۔
یاد رہے کہ تین روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ اوول آفس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر غزہ کی تعمیر نو کا امریکی منصوبہ دہرایا تھا۔ دونوں رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ میں حماس کی قید سے مزید یرغمالیوں کی رہائی کے لئے نئے مذاکرات جاری ہیں۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ ایک نئے معاہدے پر کام کر رہے ہیں جس کے بارے میں اُنہیں اُمید ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے گا، اسرائیل تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لئے پُرعزم ہے، وہ تکلیف میں ہیں۔اُنہیں یرغمالیوں کی تکلیف کا احساس ہے لیکن معصوم فلسطینیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ کی الیکشن مہم کے دوران کیے گئے جنگ بندی کے وعدے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا وہ چاہتے ہیں کہ غزہ میں تنازعہ رک جائے اور یہ دور کی بات نہیں کہ جنگ رُک جائے گی، وہ جانتے ہیں کہ یرغمالیوں کی رہائی ایک طویل عمل ہے تاہم وہ حماس کے زیرحراست یرغمالیوں کی رہائی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ امریکی صدر کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے اتحادی ممالک نے بھی مخالفت کی تھی تاہم اِس کے باوجود وہ اپنے منصوبے پر عمل کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل بھی اِس معاملے پر امریکہ کو اُکسا رہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کسی طرح بھی اپنے ارادے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں حالانکہ انہیں امریکہ پہنچنے کے لئے سینکڑوں کلومیٹر کا اضافی فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے کیونکہ بعض ممالک نے عالمی عدالت ِ انصاف کی طرف سے ان کے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کا اعلان کر رکھا ہے،اُن کے اپنے ملک میں اُن کے خلاف مسلسل مظاہرے ہو رہے ہیں، جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں نے دوبارہ جنگ مسلط کر دی، تمام یرغمالی رہا کرانے میں وہ تاحال ناکام رہے ہیں اِس کے باوجود وہ اور امریکی صدر غزہ پر قبضے کے خواہش مند ہیں۔ یہی نہیں بلکہ امریکی حکومت وہاں زیر تعلیم طلبا کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کر رہی ہے،بے شمار طلبا کے سٹوڈنٹ ویزے منسوخ کر دئیے گئے ہیں، فلسطین کی حمایت وہاں جرم بن چکا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے خطاب میں امریکہ کو پُرامن ملک کے طور پر پیش کیا تھا اور اس کو دوبارہ سے ”گریٹ“ بنانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن حقیقت اِس کے برعکس نظر آ رہی ہے۔فلسطین کے عوام کو بھی اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے، اسرائیل تمام تر اصول بالائے طاق رکھ کر فلسطینیوں پر حملے کر رہا ہے، جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے،درجنوں ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، چند ماہ قبل آئرلینڈ، ناروے اور سپین نے بھی اسرائیلی بربریت کے بعد فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کر لیا تھا، بعض جلد ایسا کرنے جا رہے ہیں، فرانس کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی جلد فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر لے گا۔ مصر میں ایمانوئل میکرون نے صدر عبدالفتاح السیسی اور اُردن کے شاہ عبد اللہ دوم سے ملاقات کے بعد واضح کیا تھا کہ غزہ کی پٹی ”رئیل اسٹیٹ پراجیکٹ“ نہیں ہے، ذمہ داری زندگیاں بچانا، اَمن بحال کرنا اور سیاسی فریم ورک پر بات چیت کرنا ہے،امریکہ اور اسرائیل پر بھی یہ بات سمجھنا لازم ہے کہ آج کے اِس جدید دور میں طاقت کے بل پر کوئی ریاست بنائی جا سکتی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، جو آج بوئیں گے کل کو وہی کاٹیں گے۔