پرائیویٹ حج سکیم کے77ہزار عازمین کی روانگی بے یقینی کا شکار؟

حج2025ء کے لئے پاکستان کو ایک لاکھ 89 ہزار 210افراد کا کوٹہ ملا۔ وزارت مذہبی امور نے اس کو گزشتہ سال کی طرح سرکاری سکیم اور پرائیویٹ سکیم میں ففٹی ففٹی کے حساب سے تقسیم کیا،سعودی حکومت کی طرف سے وقت سے بہت پہلے ایم او یو سائن کیے جانے کی وجہ سے وزارت مذہبی امور نے حج پالیسی کا اعلان بھی کئی ماہ پہلے کر لیا اور سرکاری سکیم کے تحت جانے والوں کی بکنگ کے لئے پہلی دفعہ حج پیکیج کی رقم تین اقساط میں لینے کا فیصلہ کیا۔ پہلے پیکیج10لاکھ75ہزار اور11لاکھ75 ہزار رکھا گیا۔ بعدازاں تیسری دفعہ توسیع کے باوجود ٹارگٹ پورا نہ ہونے پر سرکاری سکیم کا حج پیکیج مزید کم کر دیا گیا، پہلی دفعہ سندھ، پنجاب میں حج پیکیج کی رقم میں فرق بھی ختم کر دیا گیا اور پورے ملک کے لئے40 روزہ اور20سے25 افراد کا پیکیج،جہاز کا کرایہ اور پیکیج بھی یکساں رکھے گئے اِس کے باوجود بکنگ مشکل سے پوری کر پائے ہیں۔سپانسر شپ سکیم گزشتہ سال کی طرح اِس سال بھی بری طرح فلاپ رہی تھی۔حج پالیسی دینے کا اعزاز وفاقی وزیر چودھری سالک حسین کو ملا۔انہوں نے حج پالیسی کے مطابق حج آپریشن 2025ء کو کامیاب بنانے کا عزم کیا تھا۔اِس حوالے سے سعودیہ کے متعدد دورے بھی کئے اِس سے پہلے آگے بڑھا جائے گزشتہ حج آپریشن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ حج 2024ء میں سعودی حکومت نے نیا نظام متعارف کرایا، جس کے تحت مختلف کمپنیوں کے ادغام اور ایک کلسٹر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ہوا اور حج 2024ء میں 80سے زائد کلسٹر بنے اور نئے نظام کی وجہ سے سرکاری سکیم اور پرائیویٹ حج سکیم دونوں کو منیٰ عرفات میں جگہ کی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔عازمین حج کے ساتھ وزارت سے جانے والے افسروں اور اہلکاروں، خدام تک کو جگہ نہ ملنے کی گونج حکام بالا تک پہنچی تو تحقیقات کا آغاز ہوا اس کے نتیجے میں ڈائریکٹر حج مکہ جو تین سالہ فارن سروس کے لئے ذمہ داری ادا کر رہے تھے، کا تبادلہ کر دیا گیا۔ آج کی نشست میں یہ کہانی پیش نہیں کرنی البتہ گزشتہ حج میں سرکاری اور پرائیویٹ حج سکیم دونوں کے لئے مشکلات رہیں،ان کا جائزہ لیا گیا؟ وزارت اور ہوپ سر جوڑ کر بیٹھے؟ حج 2025ء میں ان مشکلات سے کیسے بچا جائے؟ لائحہ عمل تشکیل دیا گیا؟ میری ذاتی معلومات کے مطابق ایسا نہیں ہوا۔گزشتہ سالوں میں حج کے فوری بعد ورکشاپس کا اہتمام کیا جاتا تھا اس میں حاجی خود آپ بیتی سناتے اور تجاویز دیتے تھے اس کو بھی کمپیوٹر کی نظر کر کے ڈنگ ٹپاؤ کام کیا گیا،اتنا ضرور سنا کہ آن لائن شکایات وصول کی گئیں عملاً کچھ نہ ہوا پھر سعودی حکومت نے نئی تعلیمات جاری کرتے ہوئے ہر کام کے لئے ٹائم لائن دے دی۔سعودی حکومت کی طرف سے تعلیمات آنے کے بعد وزارت مذہبی امور کی بالعموم اور پاکستان حج مشن کی بالخصوص ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ پاکستان کا سارا کوٹہ، سرکاری ہو یا پرائیویٹ،کی یکساں بنیادوں پر منصوبہ بندی کرے،کیونکہ گزشتہ سال بننے والے کلسٹر کی آزمائش سے بڑا عذاب پاکستان حج مشن کے ویب اکاؤنٹ میں رقوم کی منتقلی کا تھا اور اس سے بڑھ کر ویب اکاؤنٹ سے رقوم کی زونز اور طوافہ کمپنیوں کو ادائیگی میں ترجیحات کا مسئلہ تھا۔ریکارڈ پر ہے گزشتہ سال جیسے تیسے کام مکمل ہوئے اللہ اللہ کر کے ادائیگیاں مکمل ہوئیں عملاً ملک بھر سے 904 آرگنائزر میں سے 80 فیصد کی بھاری رقوم ویب اکاؤنٹ میں ادائیگیوں کے باوجود باقی موجود رہیں۔ 2023ء والے 2024ء میں اپنی رقوم کی واپسی کا انتظار کرتے رہے اور 2025ء میں 2024ء کی بچ جانے والی رقوم کا انتظار رہا۔ دوسری طرف ٹائم لائن جو دی گئی اس میں گزشتہ سال بھی کچھ آرگنائزر انوسٹر کے طور پر میدان میں آئے اور حج مشن میں مناپلی قائم کر کے مرضی کے زونز حاصل کر لئے۔ افسوس کہ حج 2025ء کے حوالے سے ملک بھر کے بڑی تعداد میں حج آرگنائزر بالعموم اور کلسٹر بالخصوص لاعلم رہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور چودھری سالک حسین، سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری اور ان کی ٹیم نے گزشتہ سال کی طرح اس سال ساری توجہ سرکاری سکیم پر مرکوز رکھی، بکنگ وقت پر مکمل کی، حج مشن نے بھی بھرپور انداز میں سرکاری سکیم کو پہلے رکھا اور جمع شدہ رقم کے ساتھ مزید رقم منگوا کر ادائیگیاں بروقت کر لیں اور حج پالیسی کے اعلان کے وقت سرکاری سکیم اور پرائیویٹ سکیم کی بکنگ ایک ساتھ ہو گی کے اعلان کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔سرکاری اور پرائیویٹ حج سکیم کے لئے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی یکساں لائحہ عمل تشکیل نہ پا سکا۔ پرائیویٹ حج سکیم کو بکنگ کی اجازت سے پہلے سروس پرووائیڈر سائن کرنے، پیکیجز ترتیب دینے کے چکر میں الجھائے رکھا اور بکنگ کی اجازت نہیں دی۔اگر سرکاری سکیم کے ساتھ بکنگ کی اجازت اور آر ایل لیٹر دے دیا جاتا تو یقینا حاجیوں سے رقم وصول کر کے حج آرگنائزر اور منتظمین ٹائم لائن کے مطابق ادائیگیاں کرنے کے قابل ہو جاتے، ایسا نہیں ہو گا۔ ذاتی طور پر کہوں گا اتنا نقصان کلسٹر سے نہیں ہوا جتنا اویپ اکاؤنٹ سے ہوا اور اس سے بڑھ کر اکاؤنٹ کے اختیارات ہوپ کو دینے کی بجائے پاکستان حج مشن کے پاس رہنے کی وجہ سے مسائل نے جنم لیا۔اس وقت جب 77ہزار عازمین عدم ادائیگیوں کی وجہ سے دوراہے پر ہیں۔علامہ طاہر محمود اشرفی کی درخواست پر وزیراعظم، سیکرٹری کیبنٹ کی قیادت میں تین رکنی کمیٹی بنا چکے ہیں اور کمیٹی اپنی رپورٹ جمع کرا کر سفارشات دے چکی ہے۔ مجھے اللہ کے گھر اُمید ہے 77 ہزار عازمین جائیں گے۔ وزیراعظم، نائب وزیراعظم، وفاقی وزیر مذہبی امور، مولانا فضل الرحمن اور ہوپ قیادت کی کوششیں اور سعودی سفیر نواف سعید المالکی کی یقین دہانی کے بعد اُمید ہے کسی وقت بھی خوشخبری آ جائے گی۔مصر کے لئے سسٹم پانچ دن کے لئے اوپن ہو چکا ہے سعودی وزارت الحج سے منتظمین کی میٹنگ ہو چکی ہے افسوس اس بات کا ہو رہا ہے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے ابہام بڑھ رہا ہے تاثر دیا جا رہا ہے نجی ٹورز آپریٹر بکنگ نہیں کر سکے، حالانکہ ایسا نہیں ہوا، بکنگ کا عمل جاری ہے۔ زونز اور طوافہ کمپنیوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے جس کے حل کے لئے کمیٹی کی سفارشات پر ذمہ داروں کا تعین ہو رہا ہے مل کر مسائل کے عملی حل کی طرف آنا چاہئے،77ہزار عازمین کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحران کی وجوہات کا ضرور جائزہ لینا چاہئے۔وزارت پاکستان حج مشن ہوپ کو ضد چھوڑ کر یکسوئی سے لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا۔ مٹی پاؤ پالیسی نہیں ہونا چاہئے حقیقی بنیادوں پر سفارشات کی روشنی میں یقین ہونے کے بعد سزا جزا ہونی چاہئے۔میری ذاتی تحقیقات کے مطابق وزارت اور ہوپ کے درمیان دوریاں کیوں پیدا ہوئیں، اَنا اور ضد کو کس نے اور کیوں بنایا؟ اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ دوسری بات جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جمہوری عمل جاری رہنا چاہئے، منتخب قیادت کو کام کرنے اور با اختیار بنانے کی ضرورت ہے کسی بھی سطح پر غیر منتخب افراد کو پسند نہ پسند کی بنیاد پر نامزد نہیں کیا جانا چاہئے۔ وفاقی سیکرٹری ان کی ٹیم، ڈی جی حج اور ان کی ٹیم کے ساتھ بیٹھنا اور وفاقی وزیر سردار محمد یوسف کی سرپرستی میں بیٹھنا وقت کی ضرورت ہے۔حج2025ء اور حج 2026ء کی پالیسی کے لئے ابھی سے کام کا آغاز کرنا ضروری ہے۔ حج 2024ء میں تربیتی نظام سرکاری عازمین تک محدود رہا، حج 2025ء میں بھی یہی روایت برقرار ہے اس کا ازسر نو جائزہ لینے اور زونز،طوافہ کمپنیوں،ہوٹلز، ٹرانسپورٹ کے معاہدوں کے لئے سسٹم اوپن ہونے پر وزارت اور ہوپ کا ایک موقف ہونا ضروری ہے ہوپ کی دھڑے بندی کا خاتمہ نہ کیا گیا تو حج 2024ء کی طرح 2025ء میں خواری جاری ہے اگلے سال بھی جاری رہے گی خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭