موجودہ معاشرے اور معیشت نے عوام کی اکثریت کو کیا دیا؟

موجودہ معاشرے اور معیشت نے عوام کی اکثریت کو کیا دیا؟
موجودہ معاشرے اور معیشت نے عوام کی اکثریت کو کیا دیا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پہلے ہم کچھ معاشرتی اور معاشی فیچرز کو بیان کریں گے، جو مروجہ نظام نے ہمیں دیئے۔ یہ فیچرز مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان کی آبادی 19 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ 45 فیصدی آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے۔ زراعت سے مراد کاشتکاری، مویشی بانی، ڈیری فارمنگ، فش فارمنگ وغیرہ ہے۔ زراعت کا قومی پیداوار میں حصہ 20 اور 22 فیصد کے درمیان رہتا ہے۔ زراعت پیشہ لوگوں کی بڑی اکثریت غربت کا شکار ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جبکہ زرعی زمین میں اضافہ نہیں ہوتا۔ آبادی میں اضافہ کی بڑی وجہ بھی تعلیم کی کمی ہے۔ تعلیم کی کمی غربت کی وجہ سے ہے۔ فیوڈل علاقوں میں تعلیم کی سہولیات بہت کم ہیں۔
زرعی زمین کی ناہموار تقسیم
ہر صوبے میں (5 ایکڑ سے کم اراضی رکھنے والے) چھوٹے مالکان کی تعداد کل مالکان کے حوالے سے بہت زیادہ ہے۔ چھوٹے مالکان کی شرح کل مالکان کی نسبت مندرجہ ذیل ہے:
خیبر پختونخوا 82 فیصد
پنجاب 68 فیصد
سندھ 52 فیصد
بلوچستان 39 فیصد
اس کے برعکس50ایکڑ سے زائد رقبے کے مالکان کی تعداد کم مگر رقبہ زیادہ ہے۔ یہ بات درج ذیل گوشوارے سے ثابت ہے:
(حوالہ: زرعی شماریات 2010ء، گوشوارہ 13.1)
زرعی زمین کے بڑے مالکان سماجی اور سیاسی طور پر طاقت ور ہیں اور وہ اپنی زرعی آمدن پر صوبوں کو معمول کی شرح کا ٹیکس عاید کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لینڈ ریفارم کی ضرورت معاشی سے زیادہ سماجی ہے۔ بڑے زمینداروں کی بالادستی کی موجودگی میں دیہی آبادی کی سماجی آزادی اور ارتقا مشکل ہے، جب تک انہیں بالادستوں سے نجات نہیں ملے گی وہ غربت، بھوک، بیماری اور تعلیم سے محرومی کے چکر میں پھنسے رہیں گے۔
پاکستان میں 92 فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار
پاکستان کے غذائیت سے متعلق قومی سروے برائے 2011ء کے مطابق:
(الف) 5 سال سے کم عمر کے 44 فیصد بچوں کی جسمانی نشوونما غیرمعیاری اور پست ہے۔
(ب) پاکستان کے دیہی علاقوں میں چار میں سے ایک بچے کی جسمانی قد و قامت خصوصی پست ہوتی جا رہی ہے۔
(ج) دیہی سندھ میں چار میں سے تقریباً تین خاندانوں اور بلوچستان میں 64 فیصد خاندانوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔
پنجاب ایگریکلچر ریسرچ بورڈکے ایک اہلکار نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں تحقیق پر زراعت کے جی ڈی پی کا 0.29 فیصد خرچ ہوتا ہے جبکہ انڈیا میں یہ شرح 38 فیصد زائد، چین میں 100 فیصد زائد، اور جاپان میں 800 فیصد زائد ہے۔
غذائیت سے متعلق قومی سروے کے مطابق صرف 8 فیصد بچوں کو کم سے کم قابل قبول خوراک میسر ہے۔ جبکہ 92 فیصد بچے کم سے کم قابل قبول خوراک سے محروم ہیں۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت
2010ء میں پاکستان کی 60 فیصد آبادی یومیہ 2ڈالر سے کم خرچ کر رہی تھی۔ یومیہ 2 ڈالر غربت کی بین الاقوامی لکیر ہے جو کہ غربت کا زیادہ جامع بیانیہ (version) ہے۔ پاکستان میں 2010ء میں یومیہ 1.25 امریکی ڈالر خرچ کرنے والی شدید غربت کی شکار آبادی کی شرح 21فیصد تھی۔(عالمی ترقیاتی اعدادوشمار، 2013ء)
2010ء سے قیمتوں اور بالخصوص اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کے باعث غربت کے دونوں درجات میں غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں غربت کے شکار 80 فیصد لوگ دیہات میں رہتے ہیں۔ اوپر ہم نے بیان کیا کہ زراعت پر منحصر آبادی 45 فیصد ہے، جبکہ کل آبادی کا 15 فیصد حصہ جو دوسرے پیشوں پر انحصار کرتا ہے بھی دیہی علاقوں میں رہتا ہے۔
امیر ترین افراد کل آبادی کا 0.001 فیصد ہیں
پاکستان 1980ء کی دہائی کے وسط سے Neoliberal پالیسی پر کاربند رہا ہے۔ حکومت نے معاشی مداخلت کم سے کم کر دی۔ حکمران طبقہ اس پالیسی کی وجہ سے غیرمنصفانہ تقسیم سے مستفید ہو رہا تھا۔
2010ء میں پاکستان کے18ہزار امیر ترین افراد کی مجموعی آمدنی ایک ارب31کروڑ ڈالر، یعنی 72,000 ڈالرفی کس تھی۔
مذکورہ 18,000 امیر ترین افراد کل آبادی کا 0.001 فیصد ہیں، ان کی مجموعی آمدنی ایک کروڑ 80 لاکھ غریب ترین افراد کی مجموعی آمدنی سے 180گنا زیادہ ہے۔
ملک کے امیر ترین40 ہزار افراد کی مجموعی آمدنی ایک کروڑ 80لاکھ غریب ترین افراد کی مجموعی آمدنی کے برابر ہے۔
(16مئی، 2011ء کے شاہد جاوید برکی کے ایکسپریس ٹریبون میں چھپنے والے مضمون ’’پاکستان کے امیر افراد کتنے امیر ہیں؟‘‘ سے ماخوذ)
شاہد برکی کے مضمون میں پیش کردہ سرکاری اعداد و شمار ’’انکم گروپس‘‘ کے مابین آمدن کی تقسیم کو ظاہر کرتے ہیں۔ افراد یا خاندانوں کی آمدن سے متعلق اعدادوشمار موجود نہیں۔ سرکاری طور پر ایسے اعداد وشمار دانستہ پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔
تعلیم اور تحقیقی کاموں کا قومی پیداوار میں حصہ
2010ء میں پاکستان میں بالغ مردوں کی شرح خواندگی 69 فیصد تھی۔ خواتین میں یہ شرح 76 فیصد تھی۔ میٹرک پاس افراد صرف 10 فیصد ہیں۔
2010ء میں پاکستان میں تعلیم کے لئے خرچ ہونے والی کل رقم جی ڈی پی کا 2.4 فیصد تھی۔ (2010ء کے بعد تعلیم کے لئے یہ شرح مزید کم ہوگئی۔) ترقی پذیر ممالک میں تعلیم کے لئے مختص اوسط بجٹ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد تھا۔
پاکستان میں 2007 ء سے 2009ء کے دوران تحقیقی کاموں پر خرچ ہونے والی رقم جی ڈی پی کا 0.46 فیصد تھی، جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح 1.07 فیصد تھی۔
(Human Development in South Asia, 2013)
صحت کے لئے جی ڈی پی کا صرف 0.8 فیصد
2010ء میں صحت پر خرچ ہونے والی سرکاری رقم جی ڈی پی کے 0.8 فیصد کے برابر تھی جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح اوسطاً 2.9 فیصد تھی۔
پاکستان کی صرف 48 فیصد آبادی کو حفظان صحت کی سہولیات میسر تھیں جبکہ دیگرترقی پذیرممالک میں یہ شرح اوسطاً 56 فیصد تھی۔
(Human Development in South Asia, 2013)
پاکستانی خواتین بنگلہ دیشی خواتین سے زیادہ پسماندہ ہیں
2010ء میں 15سال سے زائد عمر کی 27 فیصد خواتین معاشی سرگرمیوں میں مصروف تھیں، جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں یہ شرح 67 فیصد تھی۔
2008ء میں پاکستان میں 3.6 فیصد خواتین انتظامی سطح کے عہدوں پر کام کر رہی تھیں۔ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں یہ شرح 8.3 فیصد تھی۔
2008ء میں پاکستان میں قانون سازوں، سینئر افسروں اورمنیجروں کے طور پر خدمات انجام دینے والی خواتین کی شرح محض 3فیصد تھی، جبکہ بنگلہ دیش میں یہ شرح 10فیصد تھی۔
(Human Development in South Asia, 2013)
توانائی کی دیرینہ کمی
2010ء میں پاکستان میں توانائی کا فی کس استعمال (کلوگرام تیل کے مساوی) 487 جبکہ ترقی پذیر ممالک میں 1,210 تھا۔
(Human Development in South Asia, 2013)
غربت زدہ طبقات کی نشاندہی
پاکستان میں غریب طبقات کی نشاندہی کچھ یوں ہے:
(i)چھوٹے زمیندار
(ii)بے زمین مزارع، بالخصوص جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے۔
(iii)بلوچستان کی اثاثوں سے محروم قبائلی عوام۔
(iv)شہری محنت کش، چھوٹے دکاندار اور خوانچہ فروش۔
(v)صنعتی مزدور اوردیگر فکسڈ قلیل آمدن والے گروہ۔
(vi)مختلف بیماریوں میں مبتلا اثاثوں سے محروم افراد جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
غربت، جرائم، جہالت، بدعنوانی، اونچی شرح پیدائش اور عدم استحکام کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
صرف شرح ترقی میں اضافہ اور تعلیم غربت کو کم کرنے کے لئے کافی نہیں
بلند شرح نمو غربت کو کسی حد تک کم کرتی ہے۔ شرح ترقی میں اضافے کی بہت سی پیشگی شرائط ہیں۔ جیسا کہ امن عامہ کی مستحکم صورت حال، ہیومن ڈویلپمنٹ، انفراسٹرکچر، بچت اور سرمایہ کاری کی بلند شرح، موثر اور شفاف نظم و نسق، اور علاقائی تجارت اور تعاون۔ غیر منصفانہ معاشرے میں بلندشرح نمو دولت کی ناہموار تقسیم میں اضافہ کرتی ہے، طبقاتی طور پر بھی اور علاقائی طور پر بھی۔
قائدین جو اپنی توجہ محض بلند شرح نمو اور تعلیم پر مرکوز رکھتے ہیں، وہ عوام کی توجہ کا رخ غیر منصفانہ سماجی و معاشی نظام سے ہٹا دیتے ہیں۔
سیاسی زبان میں انسانی ترقی سے مراد تعلیم ہے۔ یقیناًتعلیم لوگوں کو نشوونما پاتی ہوئی معیشت میں غربت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے قابل بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن ایک ایسا معاشرہ جہاں ترقی کے لئے دوسری لازمی شرائط موجود نہ ہوں وہاں ہمہ گیر خواندگی اور عام تعلیم کے باوجود معاشی نمو وقوع پذیر نہیں ہوتی۔
ٹیکس محصولات: شرفاء بنام عام لوگ
حکمران امیر طبقہ اپنی آمدنی اور جائیداد پر ٹیکس ادا کرکے اپنے ہم وطنوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتا۔ پاکستان میں عوام زیادہ تر ٹیکس ان اشیاء اور خدمات پر ادا کرتے ہیں جو وہ استعمال کرتے ہیں۔ ڈائریکٹ ٹیکس (انکم ٹیکس) بنک، مواصلاتی کمپنیاں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ادا کرتی ہیں یا پھر منافع بخش ریاستی کارپوریشنیں۔ پاکستان میں ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کا 9فیصد ہے جو کہ دنیا کی کم ترین شرح میں سے ایک ہے۔ اسی لئے ریاست تعلیم، صحت اور لوگوں کی فلاح کے لئے رقم مختص کرنے سے قاصر ہے۔
استطاعت سے زیادہ اخراجات
ہماری اشرافیہ روایتی طور پر اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرتی ہے۔ قوم کی معاشی زندگی میں اس رجحان کا اظہاربجٹ کے خساروں اور ادائیگیوں کے عدم توازن کی صورت میں ہوتا ہے۔ بجٹ پر قرضوں اور سود کی واپسی کا بوجھ بہت بڑھ چکا ہے اور حکومت اب اس قابل نہیں کہ مزید قرض اُٹھائے بغیر Debt-Servicing کر سکے۔ یعنی ہم قرضوں کے جال میں پھنس رہے ہیں۔
قیادت نے قوم کو دوسروں کا دست نگر بنا دیا
بھاری آلات بنانے والے صنعتی یونٹوں کو قومیانے والی قیادت نے قوم کو ٹیکنالوجی یا بیرونی سرمایہ کاری کے میدان میں بڑی حد تک دیگر ممالک کا دست نگر بنا دیا۔ پھر مشینری کے آلات بنانے میں مہارت رکھنے والے افراد نے چینی، مرغی کے گوشت اور دودھ کی پیداوار شروع کر دی۔ اس سے قوم کی ٹیکنالوجی کی ترقی میں کوئی مدد نہیں ملی۔
بڑھتی آبادی اور بے روزگاری
پاکستان میں لیبر فورس کی تعداد میں اضافے کی شرح 3 فیصد ہے جبکہ انڈیا میں یہ شرح 1.2 فیصد ہے۔ البتہ انڈیا کے جی ڈی پی کی شرح نموپاکستان سے دوگنی یا اس سے بھی زیادہ ہے۔
(Human Development in South Asia, 2013)
اگرچہ انڈیا کی معیشت کی شرح نمو پاکستان سے زیادہ ہے تاہم یہ اپنی بڑھتی ہوئی لیبر فورس کے لیے روزگار فراہم نہیں کر سکا، اس کے باوجود کہ وہاں لیبر فورس میں اضافہ پاکستان سے کہیں کم ہے۔
غربت اور دولت کی ناہموار تقسیم کا خاتمہ ضروری ہے
19کروڑ آبادی ہونے کے باوجود پاکستان کی منڈی محدود ہے۔ لوگوں کی بڑی اکثریت غریب ہے اور اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ یہ خوراک کے علاوہ دیگر اشیاء خرید سکے۔ امیر اور نسبتاً خوشحال متوسط طبقات ، جن کے پاس وسائل موجود ہیں، وہ غیر ملکی اشیاء خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان کے مینوفیکچرنگ شعبے کی تیز ترقی اس صورت میں ممکن ہے کہ اشیاء اور خدمات کی طلب کو فروغ دینے کے لئے تنگ دست افراد کی آمدن میں اضافہ کیا جائے۔
پاکستان میں علاقائی اور لسانی عدم مساوات موجود ہے۔ عدم مساوات کے باعث سماجی اور سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ترقیاتی حکمت عملی کا مقصد عدم مساوات میں کمی ہونا چاہئے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے منصوبہ بندی علاقائی سطح پر ہونی چاہئے اور اسے صوبائی اور قومی سطح پر مربوط کیا جانا چاہئے۔ بہتر ہے کہ منصوبہ بندی نچلی سطح سے اوپر کی جانب ہو۔
کیا ہمیں پیداواری اثاثوں کی تقسیم نو کی ضرورت ہے
پاکستان میں غربت کو کم کرنے کے لیے ایک اہم شرط اثاثوں سے محروم افراد میں پیداواری اثاثوں کی تقسیم نو ہے۔
تقسیم نو صرف ان پیداواری اثاثوں کی کی جاسکتی ہے جن کی بدولت پیداوار میں اضافہ ہو۔ بڑے زرعی کھیتوں کی تقسیم نو سے فی ایکڑ اورفی کارکن پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔
بڑے مینوفیکچرنگ یونٹوں کی چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم غیر دانشمندانہ عمل ہے۔اس سے یونٹ کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے جس کے باعث پیداوار رک جاتی ہے۔ ایک ایسا سیاسی و معاشی نظام جس میں بدعنوان اشرافیہ کو غلبہ حاصل ہو اس کے فریم ورک کے اندر صنعتی یونٹوں کو قومیانا بھی ایک غیر دانشمندانہ عمل ہے۔ مصنف معاشی و سیاسی نظام میں، جسے سماجی سیاستدانوں کی رہنمائی حاصل ہو، سرکاری شعبے میں بنکوں اور مالی اداروں کی ملکیت کا حامی ہے۔ مزید برآں چنیدہ معاشی پیداوار کے دوسرے شعبوں میں بھی سرکاری ملکیت کی حمایت کرتا ہے۔ اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ سماجی طور پر سرگرم سیاست دانوں کو ایک ایسے سماجی و معاشی نظام کے قیام کے لئے تحریک کا آغاز کرنا چاہئے جو لوگوں کی فلاح و بہبود کو فروغ دے اوران اسباب کا خاتمہ کرے،جو غربت کو جنم دیتے ہیں اور دولت کی تقسیم میں ناہمواری میں اضافہ کا باعث ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قلیل مدت میں ایسا کرنا ممکن نہیں۔ اس کے لئے وسط مدتی اور طویل مدتی پروگرام اور پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ موضوع الگ بحث طلب کرتا ہے۔

مزید :

کالم -