خوابیدہ جمہوریت
میری طرح آپ کو بھی وہ دور یاد ہوگا جب ارکان اسمبلی کے ڈیروں پر بڑی رونق ہوتی تھی۔لوگ صبح و شام وہاں اپنے مسائل حل کرانے پہنچتے اور رکن اسمبلی بھی پوری تندہی کے ساتھ کسی کو فون کرتا، کسی کے نام رقعہ لکھتا اور کسی کو خود ملنے چلا جاتا کہ کسی طرح لوگوں کو ریلیف مل سکے۔ یہ کبھی جمہوریت کا ایک مثبت پہلو تھا، عوام کو اس کا فائدہ بھی ہوتا، خاص طور پر سرکاری دفتروں کے جبر سے انہیں کسی حد تک نجات بھی مل جاتی تھی۔ آج کل سیاستدانوں کے ڈیرے اور عوامی نمائندوں کے ٹھکانے بڑی حد تک ویران ہو چکے ہیں۔ اول تو ارکان اسمبلی عوام کو ملتے نہیں، کسی طرح مل جائیں تو چھوٹا موٹا کام کرانے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے، کبھی اپنی بے بسی بتاتے ہیں اورکبھی کسی حکومتی پالیسی کا حوالہ دے کر سائلین کو ٹال دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ تھانے کی سطح کے معاملات بھی کہ جن میں کوئی زیادتی ہوئی ہوتی ہے یا ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی ہوتی،بے بسی کا اظہار کرکے جان چھڑا لیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کسی علاقے کی سڑک ٹوٹ جاتی یا سیوریج کا مسئلہ ہوتا، پانی کی عدم دستیابی ہوتی تو لوگ اپنے ایم پی اے یا ایم این اے کے پاس جاتے اور وہ ان کامسئلہ حل کرانے کیلئے کوشاں نظر آتے۔ اب وہ عوام کو خود نظرنہیں آتے، عوام کے مسائل کیا حل کریں گے۔ دوسری طرف جمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے بلدیاتی ادارے قائم نہیں ہونے دیئے۔ دنیا بھر میں بنیادی جمہوریت کا نظام سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کبھی ایسا نہیں ہوتا پارلیمنٹ تو کام کررہی ہو لیکن نچلی سطح پر بلدیاتی نظام موجود نہ ہو۔ یہاں بلدیاتی اداروں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ انتخابات ہی نہیں کرائے جاتے۔کئی برس ہوگئے بلدیاتی نظام کا ڈرافٹ ہی نہیں بن رہا۔ جمہوریت کی سب سے اہم کڑی مس ہے جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں، انہیں اپنے گلی محلے کے مسائل حل کرانے کابھی کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ اپنے کونسلر کو تو ہر کوئی آسانی سے پکڑ لیتا تھا، اب افسروں سے کون ملے اور افسر ان کی کیوں سنیں۔ اس حوالے سے ہم نے ترقی کی بجائے تنزلی کا سفر کیا ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے بلدیاتی نظام برسہا برس سے معطل ہے۔ یہ صوبہ جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے کئی بڑے ملکوں سے بھی بڑا ہے، ایک ایسے نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے جس میں عوام کی شمولیت نہیں۔ ارکان اسمبلی صرف اپنی گرانٹوں کے چکر میں رہتے ہیں اور بڑے منصوبوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ وہ مسائل جو نچلی سطح پر درپیش ہیں اور جنہیں حل کرنے میں بلدیاتی نظام اہم کردار ادا کرتا ہے، بڑھتے بڑھتے پہاڑ بن جاتے ہیں۔پنجاب حکومت صوبے میں صفائی ستھرائی کے حوالے سے احکامات تو جاری کر دیتی ہے مگر اس کے پاس وہ نطام اور میکنزم تو ہے نہیں جس کے ذریعے ان احکامات پر عمل کراسکے۔ گھوم پھر کے بات ضلع کے ڈی سی یا تحصیل کے اے سی پر آجاتی ہے۔ وہ کہاں جا سکتے اور کتنی نگرانی کر سکتے ہیں۔ ارکان اسمبلی ویسے ہی ان کاموں میں نہیں پڑتے،بلدیاتی نظام ہو تو ہر یونین کونسل کے نمائندے اس کام کو یقینی بنائیں، صبح اٹھ کر نگرانی کریں۔ بڑے شہروں میں سالڈ ویسٹ کے ادارے تو کام کررہے ہیں مگر نگرانی کا کوئی موثر نظام موجود نہیں جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں نکلتے۔
اگر ملک میں سب کچھ سرکاری افسروں نے ہی کرنا ہے تو پھر حالات میں کسی تبدیلی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ عوام اور سرکاری مشینری کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ جسے بڑے دریا کے دو کنارے۔ اپنے اختیارات کے ساتھ بند کمرے اور پروٹوکول کے حصار میں رہنے والا افسر ان مسائل کو سمجھنا تو درکنار دیکھ بھی نہیں سکتا، جو عوام کو درپیش ہیں۔ عوام اور بیورو کریسی کو ملانے والی کڑی درمیان سے مس ہو گئی ہے۔ یہ کڑی عوامی نمائندے ہوتے تھے۔ اب عوامی نمائندے بھی صرف اپنے ذاتی کاموں کے لئے افسروں سے ملتے ہیں اور کونسلر تو موجود ہی نہیں، جو عوام کے لئے آواز اٹھاتے اور شور مچاتے تھے۔ اب یہ ضلع کے ڈی سی یا تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کی صوابدید ہے وہ کسی مسئلے پر توجہ دے یا نہ دے۔ یہ وہ طبقہ ہے جوکسی حاکم اعلیٰ کے آنے پر ان راستوں کو راتوں رات چمکادیتا ہے، جہاں سے شاہانہ سواری نے گزرنا ہو۔ باقی شہر کس حال میں ہے اس کی اسے قطعاً پروا نہیں ہوتی۔ ابھی چند روز پہلے کا ہی واقعہ ہے وزیراعلیٰ مریم نواز بہاء الدین زکریایونیورسٹی ملتان کی تقریب میں شرکت کیلئے آئیں، پہلی بار یہ دیکھا گیا کہ انتظامیہ نے چونگی نمبر9سے یونیورسٹی تک پوری بوسن روڈ کو بند کرا دیا۔ بند بھی اس طرح کرایاکہ میڈیکل ہال اور فارمیسی شاپ تک بند کرا دی گئیں۔ حالانکہ اسی بوسن روڈ سے گزر کر نواز شریف اور شہبازشریف بھی زکریا یونیورسٹی جاتے رہے ہیں، یہ سڑک جس پر عام دنوں میں تجاوزات اور گندگی کے ڈھیر ہوتے ہیں، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے عملے نے چمکا دی تھی۔ باقی سارا شہر اسی طرح گندگی سے اٹا ہوا تھا۔ ہمیشہ سے جعلی کارروائیوں کے ذریعے حکمرانوں کی آنکھیں خیرہ کرنے والے اس لئے باقی دنوں میں بے فکر ہوتے ہیں کہ ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔ کبھی کبھار ڈی سی یا کمشنر کا موڈبنے اور وہ شہر کا دورہ کرنے کی زحمت کریں تو وہ علاقے بھی صاف ستھرے کر دیئے جاتے ہیں، جہاں انہوں نے جانا ہوتا ہے۔ کیا اس طرح کے لولے لنگڑے نظام سے کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟
جب تک ہم جمہوریت کو اس انداز کی نہیں بنائیں گے جیسی ترقی یافتہ ممالک میں نظر آتی ہے، اس وقت تک ملک کا ایک وزیراعظم اور صوبے کا ایک وزیراعلیٰ کیا تبدیلی لا سکے گا۔ ہم نے ماضی میں ارکان اسمبلی پر بہت تنقید کی، افسروں کے اختیارات میں ان کی مداخلت پر بڑی آواز اٹھائی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومتوں نے بھی اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے افسروں سے امیدیں باندھ لیں اور ارکان اسمبلی نے بھی یہ سوچ کر اب افسران کی سنتے تو ہیں نہیں اپنے آپ کو اس کردار سے دور کرلیا جو وہ عوامی مسائل حل کرانے کے لئے آگے بڑھ کر ادا کرتے تھے اور کوئی افسر بات نہ سنتا تو اس کے خلاف اسمبلی میں تحریک استحقاق پیش کرتے۔ اب ان کی ترجیحات بھی بدل چکی ہیں۔ بلدیاتی نمائندے بھی نہیں ہیں، ایک سرکاری ریاستی اختیارات کا ڈھانچہ ہے جسے حکمرانوں کو مصنوعی اقدامات کے ذریعے مطمئن کرنے کا طریقہ آتا ہے۔ میں آئے روز پڑھتا ہوں کہ وزیراعلیٰ مریم نواز نت نئے منصوبے دے رہی ہیں۔ صحت،تعلیم اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے بڑے اقدامات کر رہی ہیں۔ایوان وزیراعلیٰ میں اجلاس کرکے وہ کسی معاملے میں ایک دو ہفتوں کی ڈیڈ لائن بھی دے دیتی ہیں۔ مثلاً انہوں نے تجاوزات کے خاتمے کی ڈیڈ لائن بھی دے رکھی ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ اہم ہیں، مگر سوال یہ ہے ان پر عملدرآمد کے لئے وزیراعلیٰ نے نگرانی کا کوئی نظام بھی بنایا ہے۔اگر افسروں کے ذمے کام لگا کر انہی سے نگرانی بھی کرانی ہے تو یہ دودھ کی رکھوالی پر بلی کو بٹھانے والی بات ہوگی۔ جوہر دور میں رہی ہے اور نتائج صفر سے آگے نہیں بڑھ سکے۔