فیملی پلاننگ : ایک ثقافتی و معاشرتی مسئلہ
خواتین و حضرات ہم ایک طویل عرصے سے سنتے اور دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ فیملی پلاننگ کو صحت کے ایک مسئلے کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اسے ماں بچے کی صحت و سلامتی سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ دوسری جانب اسے معاشی اور بڑے کنبے کے مالی مسائل سے بھی منسلک کیا جاتا ہے، لیکن ہماری دانست میں یہ خالصتاً معاشرتی اور ثقافتی مسئلہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں چھوٹے کنبے کی روایت کو بالخصوص گاؤں کی سطح پر زیر بحث نہیں لایا جاتا، اسی طرح فیملی پلاننگ کے طریقوں پر بھی کھل کر بات نہیں کی جاتی، لوگ ثقافتی طور پر ابھی اس طرف نہیں آئے، وہ شاید اسے صحت سے متعلق خطرہ یا مجبوری کے طور پرخاندانی منصوبہ بندی اختیار کریں،مگرروائتی، معاشرتی، ثقافتی اور خاندانی سطح پر اس کے قائل نہیں ہوتے اور اسے دیگر معاشرتی اقدار کے طور پر یا ثقافتی محرکات کے ضمن میں تسلیم نہیں کرتے، جس کی ایک بڑی مثال یہ ہے چونکہ ہمارا معاشرہ اب بھی بنیادی طور پر مردوں کا معاشرہ ہے۔
گھر،کنبہ رشتہ داری برادری اور محلے داری کی سطح پر فیصلے مردوں کے ہی چلتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اگر کنبے کے مرد حضرات کسی وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی کے قائل ہو بھی جاتے ہیں۔اس مقصد کے لئے اپنی بیوی کوقائل کرتے ہیں کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی کا طریقہ اپنائے ،خود ایک طرف ہو جاتے ہیں ۔
فیملی پلاننگ کے طریقوں کو صرف میڈیکل ایشوز کے ساتھ جوڑنا اور محضHealth Rational کے عوامل میں شامل کرنا غلط ہے۔ جب تک ہم فیملی پلاننگ کو اپنے دیگر گھریلو، معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی مسائل سے نہیں جوڑیں گے، محض صحت کے حوالے سے پیش کی جانے والی خدمات میں نمایاں کامیابی نہیں ہو گی۔
ایک عورت یا ایک مرد اگر یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ زیادہ بچے، بچوں کی پیدائش میں بہت کم وقفہ ہے، کم عمری یا زیادہ عمر میں ماں بننا عورت کی صحت اور زندگی کے لئے شدید خطرہ ہے تو پھر کسی دوسری وضاحت، دلائل، تاکید اور توجہیہ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
اپنی جان کسے پیاری نہیں۔ آج پاکستان میں ہر سال15 ہزار سے زیادہ مائیں حمل اور بچے کی پیدائش سے متعلق پیچیدگیوں کی بنا پر مر جاتی ہیں۔ذرا غور فرمائیں کہ اگر کسی عورت یا اُس کے شوہر کو پتا چلے کہ مزید بچہ پیدا کرنا اُس کی بیوی کی جان کو اور بچے کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے، تو وہ مزید بچہ پیدا کروانے پر کیوں بضد ہو گا۔ایک بیٹے کی خواہش میں چھ چھ سات سات لڑکیاں پیدا کر لی جاتی ہیں۔
ظاہر ہے یہ بھی معاشرتی اور ثقافتی مسئلہ ہے،طبی یا میڈیکل ایشو نہیں۔یہ محض غربت کا شاخسانہ ہے کہ بیٹا وارث بھی ہے اور کمائی بھی کرے گا۔اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ برائے آبادی UNFPA، ہر سال آبادی کا عالمی دن مناتا ہے، جو11جولائی کو منایا جاتا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد آبادی سے متعلق مسائل، چھوٹے کنبے کی افادیت اور بڑھتی آبادی کے ہنگامی اثرات پر اقوام عالم کی توجہ دلائی جاتی ہے۔اس دن کے لئے ہر سال ایک موضوع بھی مختص کیا جاتا ہے، جس پر خصوصی توجہ مرکوز کی جاتی ہے اور اُس سال آبادی کے مسائل میں اُس خاص موضوع کو زیادہ زیر بحث لایا جاتا ہے۔
2018ء کے آبادی کے عالمی دن کا موضوع’’خاندانی منصوبہ ایک انسانی حق ہے‘‘۔ اب یہ موضوع صحت کی سہولت کا حق، معاشرتی و ثقافتی حق،خواتین کا حق،قانونی حق اور دیگر حقوق بالخصوص زندگی کے حق کا احاطہ کرتا ہے۔ اسی حق کو استعمال کر کے غربت اور بے روزگاری میں کمی بھی لائی جا سکتی ہے۔۔۔’’انسانی حق‘‘ میں معاشرتی، ثقافتی اور معاشی حقوق بھی شامل ہیں:
شوق سے نورِ نظر لختِ جگر پیدا کرو
ظالموں تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے آبادی کی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ دُنیا بھر میں آبادی میں30فیصد اضافہ محض غیرمطلوبہ اور حادثاتی حمل کی وجہ سے ہے، جس کی وجوہات میں فیملی پلاننگ کی خدمات کی عدم دستیابی، مشکل اور دور فاصلے پر دستیابی، مطلوبہ معلومات اور آگاہی سے محرومی،خواتین میں تعلیم کی کمی، گھر کے مردوں کی مخالفت اور دیگر معاشرتی رکاوٹیں شامل ہیں۔
پاکستان کا ادارہ برائے تعلیم و تحقیق آبادی (NIPS)National Institute of Population Studies کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو خواتین زیادہ پڑھی لکھی ہیں اُن کے ہاں بچوں کی تعداد کم اور بچوں کی پیدائش میں وقفہ زیادہ دیکھا گیا ہے۔فیملی پلاننگ کو اختیار کرنا ایک حق کے طور پرتسلیم کئے جانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگوں، بالخصوص مردوں کو اس کی افادیت،خدمات کی دستیابی، ماں بچے کی صحت کی ضمانت، خوشحال کنبے کی بنیاد اور ملکی ترقی کا پیشہ خیمہ ہونے پر بھی معلومات اور آگاہی تک رسائی ہو۔
اب یہاں پھر ایک ثقافتی مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ذرائع ابلاغ پر ان موضوعات بالخصوص فیملی پلاننگ کے طریقوں پر کھل کر بات نہیں کر سکتے۔ عام محفلوں میں بھی ہر مسئلے پر بات کر لیتے ہیں،مگر یہ فیملی پلاننگ والا مسئلہ اب بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔
1994ء میں عالمی سطح پر ہونے والی قاہرہ ’’کانفرنس برائے آبادی و ترقی میں‘‘ تولیدی صحت Reproductive Health کا تصور پیش کیا گیا،جس سے مراد ایک پیکیج متعارف کرایا گیا، جس میں فیملی پلاننگ یہ ہے کہ زچگی کے مسائل کا حق، قبل از اور بعد از پیدائش ماں اور بچے کی صحت کا تحفظ، حفاظتی ٹیکے،(دونوں ماں اور نومولود کو)، ماں کے دودھ کی اہمیت،جنسی امراض کی روک تھام ایڈز اور ایچ آئی وی کا تدارک، معلومات تک رسائی، چھاتی کا سرطان اور تولیدی معاملات سے متعلق سرطان کا پھیلنا اور بانجھ پن کا علاج شامل ہیں،تاکہ ماں اور بچے کی مکمل صحت اور جملہ بیماریوں کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے جو مُلک کے معاشرتی اور ثقافتی اقدار کے مطابق بھی ہوں۔
الغرض زیادہ لوگوں سے مراد زیادہ خوراک، بہتر اور سستی تعلیم، زیادہ روزگار کی فراہمی اور تحفظ، زیادہ توانائی کی فراہمی کی تکمیل، معاشرتی خدمات کی زیادہ دستیابی اور ضروریاتِ زندگی کا انتظام کرنا ہے۔کیا پاکستان اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟