مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔.. قسط نمبر 8

مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔.. قسط نمبر 8
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔.. قسط نمبر 8

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ نہیں کہ محمد رفیع کو پھیکو یا فیکو کے نام سے مشہور کردیا گیاتھا ۔اسکے پیچھے نفرت یا لاعلمی ہوسکتی ہے ۔انکے بھائی محمد صدیق رفیع کی نظر میں یہ لا علمی ہی ہوسکتی ہے لیکن اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتاکہ بعض لوگ ان کے حاسد تھے ۔ ان کا تعلق گویوں کے خاندان سے نہیں تھا اور جوقدردان خاندانی استاد یہ سمجھتے کہ نوجوان محمد رفیع پورے دنوں اور دموں کا سنگیت کار ہے تو ڈھاڑی ناک بھوں چڑھاتے تھے ۔پاکستان میں ڈھاڑیوں کا فن موسیقی پر راج رہا ہے ۔یہ لوگ نسلاً گانے کے پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں ،عام طور پر انہیں میراثی کہا جاتا ہے جو گانے بجانے کو اپنی وراثت سمجھتے ہیں ۔شام چوراسی اور گوالیار گھرانے والے خود کو ڈھاڑی کہلوانا پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کے آباء درباروں سے منسلک تھے۔ڈھاڑی کبھی نہیں چاہے گا کہ فن موسیقی اسکے گھر کی دہلیز پار کرجائے ۔کسی بھی نووارد کو یہ کم ہی قبول کرتے ہیں۔اب آکے کچھ سوچ بدلی ہے ۔بہت سے ڈھاڑی فن و رموز کو سینے میں چھپائے رکھ کر قبر میں لے کر خاک ہوگئے ،اپنے بچوں میں سے کوئی سیکھ نہ پایا تو کسی کو رموز سکھانے پر مائل نہ ہوئے بلکہ اپنے ساتھ اسکو قبر میں لے گئے جس سے فن موسیقی زوال پذیر ہوا ۔

مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔.. قسط نمبر 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
محمد رفیع کو بھی پرانے ڈھاڑیوں نے طنزاً اور نفرتاً فیکو کہہ کر پکاراہوتو پکارا ہوگا ۔وہ بھی انکی عدم موجودی میں۔عام لوگ انہیں رفیع ہی کہا کرتے تھے ۔فیروز نظامی نے ایک آدھ بار ہی انہیں کوئی بات سمجھائی ہوگی لیکن باقاعدہ انکی فنی تربیت نہیں کی تھی ۔فلم جگنو مین وہ رفیع بھائی کے گانوں کا کریڈٹ لیتے تھے ۔ظاہر ہے وہ ’’جگنو‘‘ کے موسیقار تھے تو رفیع صاحب کے ساتھ وہ میڈم نورجہاں کو بھی ریہرسل کرایاکرتے تھے ۔اس حد تک ان کا ادب تو قابل لائق تھا ۔ یہ محمد صدیق رفیع کا کہنا ہے جو ابھی بقید حیات ہیں۔ماسٹر فیروز نظامی رفیع صاحب سے کیوں بے زار تھے ،اسکی ایک وجہ تو یہ تھی کہ کسی زمانے میں انہوں نے محمد رفیع سے اس زمانے میں دس ہزار روپے ادھار مانگے تھے ۔محمد رفیع پر اللہ کی رحمت تھی ،انہوں نے ماسٹر فیروز نظامی کو انتہائی معقول رقم ادھار دی ۔سوچئیے پچاس کی دہائی میں دس ہزار کتنی بڑی رقم ہوں گے ۔اب تو یہ دس لاکھ کے برابر ہوں گے۔
ماسٹر فیروز نظام نے انہیں دس ہزار دیکر ان کا ممنون ہونے کی بجائے ان سے چھپنا شروع کردیا تھا۔اکتاہٹ اور بے زاری سے انکے خلاف کوئی جملہ بھی ادا کردیتے ۔میڈم نورجہاں جو محمد رفیع کی بے حد عزت کرتی تھیں ایک بار انہوں نے ماسٹر فیروز نظامی سے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ فلاں فلم کادوگانا وہ محمد صدیق رفیع کے ساتھ گائیں ۔


محمد صدیق رفیع کا نام سے سنتے ہی ماسٹر جی کو کچھ بے زاری سی ہوئی لیکن انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ لازمی اس تجویز پر عمل کریں گے ۔محمد صدیق رفیع بتارہے تھے ’’ میڈم رفیع بھائی سے بڑی متاثر تھیں اور چاہتی تھیں کہ ایک بھائی انڈیا میں اور دوسرا پاکستان میں سنگیتوں کا تاجور بن جائے ۔وہ مجھ سے گانا سنا کرتی تھیں ،میں اونچے سُر میں گاتا تو ہوبہو لگتا محمد رفیع گا رہے ہیں۔ ماسٹر جی نے مجھے سٹوڈیو بلایا ۔ان دنوں انکے کرکٹر بھائی نذر محمد بھی آیا کرتے تھے ۔ماسٹر جی مجھ سے ریہرسل کراتے اور خوش ہوتے ۔لیکن میڈم کو رپورٹ دیتے ہوئے کسر رکھ چھوڑتے اور کہتے کہ صدیق کا سکیل پورا نہیں ،اس پر میڈم نے کہا کہ ماسٹر جی میں یہ دوگانا گاوں گی تو صرف صدیق کے ساتھ ،ماسٹر جی نہیں چاہتے تھے کہ میڈم کے ساتھ دوگانا گا کر میں یکدم بڑا ہوجاوں ۔ان کو تو ہمارا مشکور ہونا چاہئے تھا کہ رفیع بھائی نے ان کی عزت کی اور انہیں بھاری رقم دی لیکن وہ مجھ سے بھی خار ہی رکھے ہوئے تھے ۔اسیطرح ایک اور گانے کا موقع آیا تو پھر یہی عناد سامنے آیا ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان میں بھی رفیع رفیع ہوجائے ۔میں دلبرداشتہ ہوکر دوبئی چلا گیا ۔ایک بار میڈم دوبئی آئیں تو مجھ سے مل کر کہنے لگیں کہ صدیق بھائی میں نے آپ کے بغیر وہ دوگانا نہیں گایا تھا ۔میڈم بڑی خوبیوں کی مالک تھیں ۔رفیع بھائی کا نام تو بڑے ادب سے لیاکرتیں اور کہتیں کہ رفیع جی تو درویش انسان ہیں ۔مجھے اس وقت بھی بہن کہہ کر پکارتے تھے جب کوئی کسی ایکٹرس کو بہن کہنا گناہ سمجھتا تھا ۔ان کی آنکھوں میں حیا تھی ۔جگنو فلم کے گانوں کی ریکارڈنگ سے پہلے وہ مجھ سے کہتے کہ بہن جی آئیں ریہرسل کرلیں ۔میڈم رفیع بھائی کا نام لیکر کہتیں کہ کئی بار انہیں تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی لیکن رفیع بھائی خاموشی سے ایک جانب ہوجاتے اور کسی کی شرارت میں شامل نہیں ہوتے تھے۔‘‘
ستر کی دہائی کے شروع میں صدیق رفیع دلبرداشتہ ہوکر دوبئی چلے گئے تھے ۔وہاں بھی انہوں نے گائیکی کا شوق جاری رکھا۔ان کا ایک ا نڈین دوست تھا،اسے بھی گانے کا شوق تھا ۔ان کے ساتھ وہ دوبئی کے سمندر پر جاتے اور ساحل پر رفیع کے گانے گاتے تو لوگ اکٹھے ہوجاتے اور انکی خدمت کرتے۔محمد صدیق رفیع ہر چھٹی کے دن یہ سائیڈ بزنس بھی کرتے رہے لیکن کسی پاکستانی فلم کے لئے باقاعدہ نہیں گایا حالانکہ وہ باقاعدگی سے بھارت جاتے اور اپنے بھائی کے پاس کئی دن رہتے تو نامور میوزک دائریکٹراوپی نئیرکی کوشش ہوتی کہ میری آواز کو بھی استعمال کیا جائے لیکن میں خود ہی انکار کردیتا ۔میں محفلوں میں تو گا لیتا تھا لیکن فلموں میں گانا نہیں چاہتا تھا ۔‘‘
محمد رفیع صاحب کے بارے یہ قصہ مشہور تھا کہ بچپن میں وہ اپنے بھائی صدیق کے ساتھ گلی میں کھیل رہے تھے کہ ایک سفید پوش فقیر اک تارہ بجاتا ہوا آیا تو محمد رفیع کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا تو انہوں نے فقیر کو اسی کا گانا سنایا ۔ فقیر نے انہیں دعا دی اوریہ د عا انکے لئے برکت اور فیض کا ذریعہ بن گئی ۔روایت ہے کہ وہ فقیر انہیں کوٹلہ سلطان میں ملا تھا لیکن محمد صدیق رفیع نے اس کو یکسر رد کردیا اور ہاتھ کا اشارہ کرکے بولے’’ یہ فلٹر کیلنک جو دیکھ رہے ہیں یہاں دوردور تک کھیت ہوا کرتے تھے ۔ہمارا یہ گھر جہاں آپ بیٹھے ہیں یہ واقعہ اسی جگہ رونما ہوا تھا ۔باہر جو سڑک ہے یہ اس زمانے میں کچی گلی ہوا کرتی تھی۔ہمارے گھر سے آگے دور تک کھیت تھے ۔ہم دن اور رات کو چارپائیاں گلی میں ڈال کر بیٹھے رہتے اور رات کو سویا بھی باہر ہی کرتے تھے ۔وہ درویش فقیر اک تارہ بجاتے ہوا آیا اور رفیع بھائی نے مجھ سے کہا کہ بے جی سے جا کر آٹا لے آو۔میں نے آٹا لاکردیا ۔اس زمانے میں منگتوں کو روٹی یا آٹا ہی دیا جاتا تھا ۔رفیع بھائی نے فقیر کا گانا اس کی طرز میں گاکر سنایا تو اس نے رفیع بھائی کو تھاپڑا دیا تھا ۔وہ کوئی اللہ والا ہی تھا ،اس کا تھاپڑا مُہر بن کر رفیع بھائی کے کاندھے پر نشان چھوڑ گیا تھا اور کافی عرصہ تک اس کا نشان قائم رہا تھا ۔میں ہی نہیں سارے گھر والے جانتے ہیں اسکے بعد رفیع بھائی میں انتہائی تبدیلی پیدا ہوئی ۔مسکراتے رہتے یا خاموش رہتے ۔گاتے تو آواز سوز میں ڈوب جاتی تھی۔‘‘محمد صدیق رفیع کی باتیں سن کر عجیب سا خیال دل میں آتا ہے کہ دنیا کا اتنا بڑا سنگر اور اسکی تاریخ مرتب کرنے والوں نے اتنا بڑا گناہ کیوں کیا ہے ؟ پچھلے پچاس ساٹھ برسوں میں کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ انکے بھائی محمد صدیق رفیع سے مل کر انکے سفر حیات کی داستان سن سکتا ۔(جاری ہے ) 

مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی۔.. قسط نمبر 9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں