آبادی کی کثرت رحمت ،نعمت ہے یا زحمت؟
آبادی کا عالمی دن( World population day) ہرسال 11 جولائی کو منایا جاتاہے، اس دن کو منانے کی ابتدا 1989 ءمیں ہوئی ۔اس سال 2020 ءمیں31 واں آبادی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دنیا کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔آبادی کی کثرت رحمت ونعمت ہے یا زحمت اس پر دو رائے پائی جاتی ہیں ۔دونوں نظریات دلائل رکھتے ہیں ۔ہم یہاں دونوں رائے آپ قارئین کے سامنے رکھ رہے ہیں ۔
اس وقت پاکستان کی آبادی بائیس کروڑکے لگ بھگ ہے جب کہ پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔پاکستان میں سالانہ آبادی بڑھنے کی شرح اپنے پڑوسی ممالک میں سب سے زیادہ ہے ۔ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین شرح اضافہ 0.59 فیصد سالانہ سے بھی کم ہو چکی ہے ۔بھارت میں آبادی میں اضافہ کی شرح 1.2 فیصد ہے۔ ایران میں آبادی میں اضافہ کی شرح 1.4 فیصد سالانہ ہے۔بنگلہ دیش میں آبادی میں اضافہ کی شرح 1.4 فیصد سالانہ ہے۔ پاکستان میں ہے جو کہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 2.1 فیصد سالانہ ہے۔
آبادی میں اضافہ سنگین خطرات لیے ہوئے ہے ۔زیادہ آبادی کے لیے زیادہ خوراک،رہائش،تعلیمی ادارے،روزگار ،وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر وسائل کم رفتار سے بڑھیں تو بھوک ،غربت،جرائم،جہالت پھیلتی ہے ۔جو فساد کا سبب بنتی ہے ۔عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ جس تیزی سے وسائل مہیا نہیں ہو رہے ۔
آبادی میں اضافے سے دیگر مسائل کے ساتھ اکثریت کا صحت کی سہولتوں سے محروم ہونا ، خوراک کی فراہمی میں مشکلات ، رہائش، تعلیم اور دیگر بنیادی اشیاءجو ضروری ہیں اس سے آبادی کی اکثریت محروم رہتی ہے ۔ کچھ ممالک میں آبادی پر کنٹرول کے لےے پالیسی سازی میں روایتی اور مذہبی نظریات آڑے آتے ہیں۔ماہرین کے مطابق روز مرہ جرائم ، چوری، ڈاکہ زنی، لوٹ مار، دھوکہ دہی، نجی اورسرکاری شعبہ میں سنگین بدعنوانیوں اور قتل و غارت گری کی ایک بنیادی وجہ زیادہ آبادی بھی ہے ۔
دنیا کی آبادی 1800 ءمیں صرف ایک ارب تھی ۔پہلے آبادی کو دو گنا(دو ارب) ہونے میں 127سال(1927 ءمیں) لگے ۔پھر اس کے بعد صرف 33 سال میں (1960 ء)میں تین ارب ہوئی اسی طرح 2012 ءمیں 7 ارب ہوگئی اور 2025 ءمیں9ارب ہونے کا امکان ہے ۔ زراعت کے لئے زمین کا رقبہ کم ہورہا ہے ۔ شہر گنجان تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پینے کے پانی کی فی کس دستیاب مقدار گھٹ رہی ہے ۔نوجوانوں کو روزگار کے مواقع کم مل رہے ہیں ۔پاکستان بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل کا شکار ملک ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ سماجی اور مذہبی جماعتوں کو بھی عوم میں یہ شعور پیدا کرنا چاہیے کہ بچے دو ہی اچھے ۔آبادی میں اضافہ کے باعث غربت میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک کی نصف آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔
٭٭٭
اب ہم اس کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں ۔کہا جاتا ہے یہ جو مسائل گنوائے جاتے ہیں آبادی میں اضافہ اس کا سبب نہیں ہے ۔ آج سے پہلے ایک کھیت سے جتنی فصل ہوتی تھی آج اس سے کئی گنا زیادہ ہو رہی ہے اگر آبادی میں اضافہ ہوا ہے تو وسائل میں بھی ہوا ہے۔وسائل کم نہیں ہیں بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیںہے۔ یعنی چند افرادکے پاس دنیا کی 60 فیصد دولت ہے اور دوسری طرف دنیاکی60 فیصد آبادی غریب ہے ۔زمین میں وسائل کا اتنا خزانہ رکھا ہے کہ جو آنے والی نسلوں سے بھی ختم نہیں ہو گا ۔پاکستان میں صرف 200 خاندانوں کے پاس پاکستان کی مجموعی آبادی سے زیادہ دولت ہے ۔چند افراد کے پاس دنیا کی 60 فیصد دولت ہے اور دوسری طرف دنیا کی60 فیصد آبادی غریب ہے یہ ہی حال زمین یا رہائش،غذا کا ہے ۔امراءجتنی غذا ضائع کرتے ہیں اور جتنی مہنگے کھانے کھاتے ہیں اس میں اگر کمی آجائے تو پاکستان میں کوئی بھوکا نہ سوئے ۔مختصر قومی و صوبائی اسمبلی اور ایم پی اے ،ایم این اے ،وزرا ءوغیرہ کے اخراجات دیکھیں، ان کی جو اندرونی وبیرونی بینکوں میں دولت ہے اس کو دیکھیں ۔تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے اصل مسئلہ آبادی نہیں وسائل کے مسائل نہیں ۔وسائل کی تقسیم کا مسئلہ ہے ،نا انصافی ہے ،اللہ کی نافرمانی کی سزا ہے ۔
ایک بات اور بھی غور طلب ہے ۔اکثر یورپی ممالک میں بچے دو ہی اچھے پر عمل کیا گیا تو وہاں اب آبادی میں ہوشربا کمی ہو جانے سے بزرگوں کی کثرت ہورہی ہے یہ ممالک مجبور ہیں باصلاحیت اور ماہرفن نوجوانوں کو پوری دنیا سے درآمد کر رہے ہیں ۔رشتہ بھی دے رہے ہیں کام بھی دام بھی وہاں نوجوانوں کی کمی ہو چکی ہے ۔اسی طرح فرانس میں اعلان کیا کہ جو خاتون سب سے زیادہ بچے پیدا کرے گی اسے سب سے بڑا سول قومی ایوارڈ دیا جائے گا۔روس کی حکومت نے اس طرح عوام سے کہا کہ شادی کے بعد ہسپتال میں آئیں اور صرف بچہ پیدا کر کے چلے جائیں اسکی پرورش، خوراک، علاج، تعلیم اور دیگر تمام ضروریات حکومت کی طرف سے پوری کی جائیں گی۔یہ ہی حال برطانیہ اور امریکہ کا ہونے والا ہے ۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے 20کروڑ سے زائد نفوس کا 40 فیصد 12 سے29 سال کی عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے ۔ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتی ہے جتنی بتائی جاتی ہے ۔پاکستان کی یہ بڑھتی ہوئی آبادی مصیبت نہیں بلکہ اسے رحمت بھی قرار دیا جا سکتا ہے پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اگر ان نوجوانوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں میں استعمال کیا جائے تو یہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آبادی میں اضافہ کے خلاف جو لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں اگر ان کے والدین ایسا کرتے کہ نئی نسل کو پیدا نہ کرتے تو ایسے خود غرض افراد کا دنیا میں وجود نہ ہوتا (ہمارا نظریہ اسلام کے عین مطابق ہے کہ اللہ کے اختیار میں پیدائش اور موت ہے )ایسے انسانوںنے خود تو جنم لے لیا لیکن آنے والی نسل کو حق زندگی دینے سے گریزاں ہیں کہ اس سے وسائل میں کمی ہو جائے گی (جیسے انہوں نے اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے )آج سے پہلے ایک کھیت سے جتنی فصل ہوتی تھی آج اس سے کئی گنا زیادہ ہو رہی ہے اگر آبادی میں اضافہ ہوا ہے تو وسائل میں بھی ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین و سمندر میں اتنے وسائل ہیں کہ اب تک ان میں ایک فیصد بھی کمی نہیں ہوئی ہے ۔اسی طرح اللہ نے زمین میں وسائل کا اتنا خزانہ رکھا ہے کہ جو آنے والی نسلوں سے بھی ختم نہیں ہو گا ۔وسائل کم نہیں ہیں بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہے یہ ہی اصل وجہ ہے ۔رب کی دھرتی پر رب کے نظام کے نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل اور مشکلات ہیں ۔پاکستان میں اس وقت جو غربت اور معاشی بد حالی ہے اس کی وجہ آبادی کا بڑھنا نہیں ہے بلکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے ۔جیسا کہ اوپر ذکر ہے پاکستان کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.