امکانات کی دنیا

امکانات کی دنیا
امکانات کی دنیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 داناﺅں کا کہنا ہے کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیںہوتا ، تاہم شیخ سعدی کا فرمانا ہے ”بزرگی بعقل است نہ بہ سال“....کی طرح مَیں بھی اس مقولے کو غلط ثابت کرنے کی جسارت کرنا چاہتی ہوں۔ میرے نزدیک دانائی، سچائی اور بہادری کا سرچشمہ جوانی ہے نہ کہ بڑھاپا ۔ نوجوانوںکے سینوں میں ولولے سے بھر پور دل ہوتا ہے، جبکہ اُن کے آہنی جسموں میں توانائی کی بجلیاں بھری ہوتی ہیں۔ اُن کی زندگی یا موت سے ہمیں ایک ہی پیغام ملتا ہے کہ ہر چیز ممکنات میںسے ہے۔ آج مَیں قارئین کو تین نوجوان خواتین ، دو پاکستانی اور ایک امریکی، کی کہانیاںسنانا چاہتی ہوں۔ ان خواتین میں سے ایک آج بھی زندہ ہے اور اُس کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ تصورات کو حقیقت کا روپ کیسے دیا جاتا ہے؟.... باقی دو خواتین اس عالم ِ فانی سے رخصت ہوچکی ہیں، مگر اُن کی ولولہ انگیز یاد باقی ہے۔
 آج پنجاب یونیورسٹی لاہور کے لاءکالج کے آڈیٹوریم میں مومنہ چیمہ کے نام کی بازگشت سنائی دے گی۔ مومنہ کی پہلی برسی پر اُس کے والدین، ڈاکٹر چیمہ اور طیبہ ، مومنہ چیمہ فاﺅنڈیشن کی طرف سے ملنے والے سکالر شپ پر تعلیم حاصل کرنے والوں کا استقبال کریں گے۔ اُن کی بیٹی مومنہ گزشتہ سال کار حادثے میں اﷲ کو پیاری ہو گئی۔ اُس وقت اُس کی عمر 25 برس تھی۔ ڈیوک یونیورسٹی سے بی اے، ہاورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد وہ ورجینا یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کررہی تھی۔ اپنی اکلوتی بیٹی کے غم میں گھلنے کی بجائے اُس کے والدین نے، جو لانگ آئی لینڈ کے رہائشی ہیں، اُس کی یاد میں فاﺅنڈیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مومنہ کی زندگی کی شمع تو گل ہو گئی، مگر اُس کے والدین نے اپنے وطن میں اُس کے نام پر علم کی روشنی پھیلانے کی سعی شروع کر دی۔
مومنہ کی والدہ طیبہ نے مجھے بتایا”ہمیں ہاورڈ اور ورجینا یونیورسٹی نے راہ دکھائی کہ ہم اپنی بیٹی کی یاد میں سکالر شپ قائم کریں تاکہ طلبہ پاکستان اور اسلامی قوانین کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ “ھاورڈ کے.... ”Near Eastern Languages and Civilisations“....کے شعبے نے ایک پی ایچ ڈی کے طالب علم ڈینئل میج کروچ(Daniel Majchrowicz)کو ٹریول اینڈ ریسرچ فیلو شپ کے لیے چنا ہے۔ ڈینئل اس موسم ِ گرما میں اب لاہور آئے گا اور یہاں تعلیمی نظام، کلچر اور اردو ”سفر ناموں“ پر تحقیق کرے گا۔ اس موضوع پر ابھی بہت کم توجہ دی گئی ہے۔
نیویارک میں مقیم ”نوائے وقت “ کی کالم نگار طیبہ ایک بہادر ماں ہیں جنہوںنے اپنے ذاتی غم کو ایک فتح میں بدل دیا اور دوسرے بچوں کی تعلیم میں معاونت کرتے ہوئے اپنی مرحومہ بیٹی کے خوابوں کو زندہ کر دیا۔ ڈاکٹر چیمہ کا کہنا ہے ، مومنہ کی خواہش تھی کہ یہاں رہنے والوں کو پاکستان کے بارے میں آشنا کیا جائے تاکہ ہمارے ملک کا مثبت پہلو دنیا کے سامنے آئے اور اس کے بارے میں قائم کیا گیا غلط تاثر زائل ہو سکے ۔ اُ ن کا کہنا ہے کہ مومنہ ایک بہت پیاری بچی تھی اور ہمارے لئے اُس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال تھا، مگر اُس کے دوستوں، پروفیسروں ، رشتے داروں اور اُن لوگوںنے بھی ، جو کبھی اُسے ملے تک نہیں تھے، ہماری ڈھارس بندھائی اور ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ تحریک ِ انصاف کے قائد عمران خان صاحب نے بھی تعزیت کا خط لکھا اور ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ عمران خان کے خط کا متن اس طرح ہے”مجھے پاکستان کے نوجوانوںپر یقین ہے کہ وہ تبدیلی کے لئے پُرعزم ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مومنہ کی طرح (عمران خان کا کہنا ہے کہ مومنہ اُن کی پارٹی میں شامل ہونا چاہتی تھی)میرا ساتھ دیںگے تاکہ ہم اس ملک سے نفرت، جبر اوربرائی کی قوتوںکا خاتمہ کر سکیں“۔

آج سے سات سال پہلے عائشہ خالد ایک نوجوان دلہن بن کر امریکہ آئی تھی۔ اُس کی زندگی کو ایک زبردست دھچکا لگا، جب اُس کی شادی ناکام ہو گئی ۔ اُس وقت وہ وطن سے دور تھی اور اس کے پاس ایک چھوٹے سے بچے کے سوا کوئی نہیں تھا۔ یہاں ایک پاکستانی فیملی کے سوا اُس کا کوئی مددگار نہیں تھا، تاہم وہ ایک پُرعزم عورت تھی اور اُس نے طلاق کے بعد اپنے آپ کو سنبھالا اور اپنی شکستہ زندگی کو ایک نئے راستے تعلیم کے راستے پر گامزن کرنا شروع کر دیا۔ پاکستان میں اُس کے بھائی نے بھی اُس کی مددکی ۔ یہ کہانی عائشہ نے ہمیں اپنی گریجوایش مکمل ہونے پر دی جانے والی پارٹی میں سنائی....”آج میری والدہ اور میری بہن یہاں میرے ساتھ ہیں، میرے والد صاحب زندہ نہیں ہیں، لیکن اُن کی یاد مجھے حوصلہ دیتی ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر لڑکیوںکی طرح میرے جیون ساتھی کا انتخاب اُن کی مرضی سے ہی ہوا تھا۔ جب میں امریکہ آئی تو میں بہت خوش تھی۔ میری امنگیں ویسی ہی تھیں جیسی پاکستانی لڑکیوںکی ہوتی ہیں خوشیوں بھرا گھر، محبت کرنے والا شوہر، بچے۔ تاہم یہ خواب چکنا چور ہو گیا ۔ اسکے بعد میرے خاندان نے مجھے حوصلہ دیا اور زندگی کی نئی راہوںکا کھوج لگانے میںمیری مدد کی۔ اُنھوںنے مجھے یقین دلایا کہ تم ایسا کر سکتی ہو۔ جب تک مَیں زندہ رہوںگی مَیں اس فیملی کو یاد رکھوںگی(جنہوںنے امریکہ میں اسے سہار ا دیا) کہ اُنہوںنے نہایت شفقت سے مجھے پناہ دی، جبکہ میرے ارد گرد دنیا بہت ظالم تھی۔ مجھے واپس زندگی کی راہ پر ڈالنے میں ان کا بھی بہت ہاتھ ہے۔ انہوںنے ملازمت تلاش کرنے اور تعلیم حاصل کرنے میں میری بہت مدد کی۔ آج میں ایم بی اے ہوں اورایک اچھی ملازمت کررہی ہوں۔ میرا اپنا گھر ہے اور میرے پاس اپنی گاڑی ہے۔ آج مَیںایک پُراعتماد انسان ہوں ، شاید ان مشکلات سے پہلے مجھے احساس نہیں تھا کہ میرے اندر کا انسان اتنا بہادر ہے۔ جب مَیں اس فیملی کا شکریہ ادا کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو ان کا کہنا ہے، اس کی ضرورت نہیں،بلکہ ”جب تم کسی اور کومشکل میں دیکھنا تو اُس کی مدد کے لئے ہاتھ بڑھانے سے گریز نہ کرنا“۔
پاکستان کے قدامت پسند خاندان یہ سمجھتے ہیںکہ عورت ایک مجبور مخلوق ہے اور اُس کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کیا جاسکتا ہے۔ عائشہ کا کہنا ہے کہ جب وہ یہاںآئی تو وہ حجاب پہنتی تھی، مگر اب اُس نے آزادی سے جینا سیکھ لیا ہے ۔ اُس نے مجھے بتایا”روح کی گہرائیوںسے مَیں اب ابھی ایک روایتی پاکستانی عورت ہوں اور مَیں ان کو اپنے دل میں ہمیشہ زندہ رکھوںگی۔ مجھے اب بھی اپنا وطن بہت یاد آتا ہے“۔ تاہم اب عائشہ نے پیچھے مڑکر نہیںدیکھنا ہے۔ اُسے اپنے اور اپنے چھ سال کے بیٹے کے لئے محنت کرنی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ وہ اچھی قدریں سیکھ کر ایک اچھا انسان بنے۔ ابھی عائشہ نے بہت سفر طے کرنا ہے اور ابھی کچھ اور بھی مشکل مراحل آنے ہیں، مگر و ہ ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیارہے۔
مرینہ کیگن (Marina Keegan)نے حال ہی میں ایک اخباری کالم کے ذریعے Yale یونیورسٹی کے ساتھی طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا”ہم نے یہ بات یاد رکھنی ہے کہ ہم کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم نے امکانات کو ہرگز رد نہیںکرنا ، کیونکہ ہمارے خوابوں کو حقیقت کی تعبیر یہ امکانات بھرے لمحے ہی دیتے ہیں۔ ہمیں ان سے استفادہ کرنا ہے اور اپنی صلاحیتوںپر یقین رکھنا ہے“۔مرینہ بھی مومنہ کی طرح ایک کار حادثے کا شکار ہو کر چل بسی ۔ اُس وقت وہ بائیس سال کی تھی۔
مومنہ کے والدین کی طرح اُس کے والدین کو بھی بہت سے ہمدردی اور محبت بھرے پیغامات ملے۔ اُس کی والدہ ٹیرس نے پریس کو بتایا ”مَیں اپنی بیٹی کے الفاظ سے محبت کرتی ہوں اور اُن کو دوسروںتک بھی پہنچانا چاہتی ہوں۔ اُس کے لکھے ہوئے کالم کے الفاظ لاکھوں لوگوںکو امید کا پیغام دیتے ہیں۔مرینہ چاہتی تھی کہ زندگی کو کسی تنہا راستے پر بسر نہ کیا جائے۔اس کا کہنا تھا کہ ہماری زندگی کے بہترین دن ابھی گزرے نہیں ہیں۔ ہمارے سامنے 2012 ءہے اور آئیے اس دنیا کے لئے کچھ کریں۔
اگر زندگی وفاکرتی تو مرینہ نیویارک کے ایک مشہور رسالے میں ملازمت کرنے والی تھی۔ مومنہ، عائشہ اور مرینہ وہ خواتین ہیں جو ہمیں مایوسی کے اندھیروںسے نکال کر امید کی روشنی کی طرف بلاتی ہیں۔  ٭

مزید :

کالم -