دہشت گرد ی کا خاتمہ کیسے ممکن ہو؟
”کوئی بھی واقعہ خود بخود رونما نہیںہوتا ، حتیٰ کہ زلزلے کے دوران ابلنے والا لاوہ ، جو دیہات کے مکانوں کی چھتوں پر سے گزر جاتا ہے، تادیر زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں کھولتا رہتا ہے“.... یہ جملہ ایک مشہور فلسطینی شاعر مورید برگوتی کی ایک نظم، جو اُس نے دو عشرے پہلے لکھی، کے ایک شعر کا ترجمہ ہے۔ برگوتی نے امریکی میڈیا میں دوسال قبل اس نظم کا حوالہ دیتے ہوئے یہ حقیقت آشکار کرنے کی کوشش کی تھی کہ مغربی ممالک کی پشت پناہی سے قائم ہونے والی آمریت کے جابرانہ رویوں سے پیدا شدہ سیاسی گھٹن کے نتیجے میں ہی عرب دنیا میںبالآخر سیاسی بیداری کی لہر پھوٹی۔ برگوتی کا یہ شعر ہمارے بدقسمت خطے میں ، جسے ہماری غلط پالیسیوں اور عالمی قوتوں کی اپنے مفاد کے لئے کی جانے والی فوج کشی نے مسائل کی آماجگاہ بنا دیا ہے ، پائی جانے والی افسوس ناک صورت ِ حال کی بھی غمازی کرتا ہے۔
پہلے اسّی کی دھائی میں افغانستان میں روسی مداخلت ، پھر موجودہ دور میں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اس خطے کو شورش پسندی کی نذر کر دیا اور غیر ملکی قوتوں کی ان فوجی کارروائیوں نے یہاںکے سماجی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو شکست وریخت سے دوچار کر دیا ۔ سنگدلانہ مفاد پرستی کے اس کھیل کے نتیجے میں یہاں انسانی تاریخ کے بے مثال المیوں نے جنم لیا اور تباہ کاری کی دل دہلا دینے والی اندوہناک داستانیں رقم ہوئیں۔اس پس ِ منظر میں پاکستان ، جو اپنی سیاسی و جغرفیائی قربت کی وجہ سے دونوں افغان جنگوں میں صف ِ اول کا ملک تھا، بدترین انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہو گیا۔ہمارے ہاں یہ بحران مجموعی طور پر طویل آمریت، جس میں ضیا الحق کے گیارہ سال اور پرویز مشرف کے نو سال شامل ہیں، کا نتیجہ ہے۔ ان دونوں حکمرانوںنے اپنی حکمرانی کے لئے مذہبی انتہا پسندی کو پروان چڑھاتے ہوئے ہمارے سماجی ڈھانچے کو تاراج کر دیا یہ دونوں حکمران مغربی طاقتوں کی آنکھوںکے تارے تھے۔ پرویز مشرف کی موقعہ پرستانہ پالیسیوں کی وجہ سے حالیہ برسوں میں پاکستان مذہبی انتہا پسندی اور تشدد کی نرسری کے طور پر جانا جانے لگا ہے۔ ہمارے ہاں اس طرح کی انتہا پسندی کبھی نہیں تھی ، مگر پرویز مشرف نے اس بلا کو صرف اس لئے پروان چڑھایا تاکہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والی اس جنگ میں خود کو امریکہ اور مغرب کی نظروں میں ناگزیر ثابت کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو طول دے سکے۔
اس سے پہلے ہمارے ہاں فرقہ واریت ضرور تھی، لیکن وہ تقریر و تحریر اور مناظروں، فتووں یا کچھ لڑائی مارکٹائی تک ہی محدود تھی، لیکن اس میں تشدد کا جو عنصر پرویز مشرف ددر میں دیکھنے میں آیا، وہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ آج ہم دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو اپنی سر زمین پر لے آئے ہیں ۔ ہمارے فوجی دستے قبائلی علاقوں میں بھر پور جنگ میں مصروف ہیں، جبکہ شہری علاقے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ اس کے نتیجے میںگزشتہ چند سال کے دوران ہمارے پچاس ہزار کے قریب شہری اور سیکیورٹی اداروں کے جوان شہید ہو چکے ہیں، جبکہ دہشت گردی کی وجہ سے ہماری معیشت شدید دباﺅ کا شکار ہے۔ اس طرح جانی اور مالی نقصان کی صورت ہمارا ملک اس جنگ کی بھاری قیمت چکا رہا ہے، چنانچہ آج ہمارے ملک میں تشدد، لا قانونیت، دہشت گردی اور عدم تحفظ کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کا عمل مفلوج ہو چکا ہے، تاہم قہر یہ ہے کہ اس جنگ میں بھاری فوجی اور شہری جانی نقصان اور معاشی گراوٹ برداشت کرنے کے باوجود ہم اپنے نام نہاد دوستوں اور اتحادیوں کی تنقید اور الزامات کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
اب معاملہ یہ ہے کہ دنیا ابھی تک ” دہشت گردی “ کی کوئی جامع تعریف کرنے میں کامیاب نہیںہوئی ہے۔ ہر ملک اور ہر گروہ اپنے مفاد کی روشنی میںاس کا اظہار کرتا ہے، لیکن عالمی طور پر قابل قبول کسی تعریف کا سامنے آنا ہنوز باقی ہے۔ عام طور پر اسے ” قوم پرست یا خفیہ گروہوں کی طرف سے عام شہریوں کے خلاف سیاسی بنیادوں پر کیا جانے والا تشدد “قرار دیا جاتا ہے۔ اقوام ِ متحدہ دہشت گردی کی کارروائی کو ایک مختصر سی قانونی اصطلاح ”زمانہ ¿ امن میں کیا جانے والا جنگی جرم “ میں بیان کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ حالیہ برسوںمیں اس نے دنیا کے تقریباً تما م خطوں کے سیاسی، معاشی اور دفاعی اقدامات کو متاثر کیا ہے۔ اگرچہ اسے مذہب کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیںہوتا۔ یہ دراصل ناانصافی، جبر، استحصال اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کے خلاف بڑھتے ہوئے اشتعال، مایوسی اوربے چینی کے خلاف انتہائی رد ِعمل ہے۔ اس کے علاوہ جب کوئی ریاست اپنی عقربی فوجی قوت کی مدد سے کمزور افراد یا کسی قوم کو پنجہ ¿ استبداد میں جکڑتے ہوئے اُنہیں انسانی حقوق سے محروم کر دیتی ہے، یا اُن کے حق ِ خود ارادیت اور آزادی کو کچل دیتی ہے تو پھر وہ کمزور لوگ ”تنگ آمد ، بجنگ آمد “ کے مصداق ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں کمزور اور دبے ہوئے افراد مایوسی کے عالم میں انتہائی اقدامات اٹھاتے ہوئے اپنا حساب برابر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا ظلم و جبر اُن کو ایک طرح سے دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔
مئی 2006 ءمیں یواین کے سیکرٹری جنرل نے اپنی رپورٹ.... ”counter-terrorism strategy“.... میں تسلیم کیا تھا کہ داخلی اور خارجی، جیسا کہ دو ریاستوں کے درمیان ، کشمکش ریاستی و غیر ریاستی دہشت گردی کا باعث بنتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دہشت گردی نا اہل حکومتوں، موقعہ پرست سیاست دانوں اور مذہبی انتہا پسندوں ، جو ”مخصوص “ حالا ت پیدا کرکے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، کی پالیسیوں کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ جب سیاسی، معاشی اور سماجی نا ہمواری کے مداوے کے لئے کوئی پُرامن قانونی ذرائع باقی نہیں رہتے تو بقول سر فرانسس بیکن ”انتقام وحشیانہ انصاف کا روپ دھار لیتا ہے“۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک یہ سیاسی اور معاشی مسائل حل نہیں کئے جاتے، دہشت گردی کو روکنے کے لئے کوئی حکمت ِ عملی یا اقدامات کام نہیں دیں گے۔ اس بات میں دو آرا¿ نہیں کہ اس عفریت کے خلاف اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ، لیکن اس برائی کا خاتمہ سطحی اقدامات سے نہیں ہوگا، بلکہ ان کی تہہ تک پہنچنا ہوگا۔ ان معروضات کا مطلب دہشت گردی کے جواز کو تسلیم کرنا نہیں، بلکہ اس کے خاتمے کے لئے اصل وجوہات کا سراغ لگانا ہے۔ جب تک اس بیماری کی اصل تشخص نہیںہوگی، اس کو جڑ سے اکھاڑنا نا ممکن ہے۔
دہشت گردی دراصل ایک ذہنیت کا نام ہے ، چنانچہ اسے صرف فوجی قوت سے ختم نہیںکیا جا سکتا ۔ بدقسمتی سے ا س کے خاتمے کے لئے چھیڑی جانے جنگ مناسب حد سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور حقیقت کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کچھ افراد یا گروہوں یا ممالک تک محدود نہیں ہے، چنانچہ چند سو یا ہزار افراد کو ہلاک یا گرفتار کرنے یا چند ممالک کی حکومتوںکو تبدیل کرنے سے یہ ختم نہیںہوگی، چنانچہ ضروری ہے کہ عالمی برادری قیام ِ امن کے لئے حکمت ِ عملی وضع کرے اور دنیا میں فوجی طاقت سے عوام کو دبانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جو اقوام اپنے جائزحقوق کے لئے جدوجہد کررہی ہیں، اُنہیں حق ِ خود ارادیت دیا جائے ۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاںسے ناانصافی اور عدم استحکام کے خاتمے کرتے ہوئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ سیاسی اور آئینی جمود، آمریت اور استحصال کا نتیجہ ہیں، چنانچہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سماجی ہمواری اور معاشرتی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ اچھی طرز ِ حکومت کی بھی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات ہے کہ ملک میں صیحح معنوں میں جمہوریت ہو کیونکہ جمہوری معاشروں میں نا انصافی اور دہشت گردی نہیں پنپ سکتے ہیں۔ اگر پاکستانی معاشرہ تعلیم یافتہ، جمہور پسند، خوشحال اور معتد ل مزاج ہوگا تو یہاں دہشت گردی پروان نہیں چڑھے گی۔ ۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔