مسلسل جھکنے سے کمر تختہ ہوگئی لیکن راستے کی طوالت کسی طور کم نہ ہوئی۔ لگتا تھا ہم بھی فرعونوں کے ساتھ صدیوں کا سفر طے کرکے یہاں تک آئے ہیں 

مسلسل جھکنے سے کمر تختہ ہوگئی لیکن راستے کی طوالت کسی طور کم نہ ہوئی۔ لگتا ...
مسلسل جھکنے سے کمر تختہ ہوگئی لیکن راستے کی طوالت کسی طور کم نہ ہوئی۔ لگتا تھا ہم بھی فرعونوں کے ساتھ صدیوں کا سفر طے کرکے یہاں تک آئے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:27
ان غیر ملکی سیاحوں میں زیادہ تر بڑی عمر کے لوگ تھے جو اپنی ایک بھرپور عملی زندگی گزارنے کے بعد اب اپنی ریٹائرمنٹ کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ان میں سے کچھ نے تو ڈائریاں بھی ہاتھوں میں تھامی ہوئی تھیں اور وہ وقتاً فوقتاً ان پر نوٹ لکھتے اور تصویریں بناتے ہوئے خراماں خراماں چل رہے تھے۔ چلچلاتی دھوپ اور فرطِ جذبات سے ان کے چہرے سرخ اور دمک رہے تھے۔
ابھی ہم اہراموں کے احاطے میں د اخل ہی ہوئے تھے کہ نجانے کہاں سے روایتی مصری لباس میں ملبوس بڑی بڑی مونچھوں والا ایک شخص یکدم چھلانگ مار کر ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا اور اس نے اپنی آسانی سے سمجھ آجانے والی انگریزی اور قدرے تحکمانہ انداز میں طلب کئے گئے پانچ پونڈ کے عوض ہمارا گائیڈ بننے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ہمیں اہرام کے اندر ایسی جگہوں پر بھی لے جائے گا جو عام سیاحوں کے لئے بند ہیں۔ اس کے جارحانہ انداز سے ایسا لگ رہا تھا کہ اگر اسے یہ عارضی ملازمت نہ فراہم کی گئی تو وہ کچھ بھی کر دے گا۔ میں نے بے بسی سے عبدو کی طرف دیکھا تو اس نے لاتعلقی سے کاندھے اچکائے اور مجھے ایک طرف لے جا کر کہنے لگا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ یہ یہاں کے مقامی لوگ ہیں اور میرا روز کا یہاں آنا جانا ہوتا ہے، میں ان سے تعلقات نہیں بگاڑ سکتا۔
ہرچند کہ مصر اس وقت غالباً دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے سیاحوں کی شکایتوں سے نپٹنے کے لئے ایک خصوصی سیاحتی پولیس بنائی ہوئی تھی، تاہم عام حالات میں وہ دور دور ہی رہتے تھے اور اس وقت تک کسی معاملے میں مداخلت نہ کرتے تھے جب تک کہ ان کو باقاعدہ تحریری شکایت نہ کی جائے، لہٰذا اتنی معمولی سی بات کے لئے وہاں جانا فضول تھا۔
ہم نے تھوڑا بہت مول تول کرکے چار پاؤنڈ کے عوض اگلے دو گھنٹوں کے لئے اسے خرید لیا  اور اب وہ چرواہوں کی طرح ایک کھونڈی اپنے کاندھوں پرٹکائے ہمارے آگے آگے چل رہا تھا اور ہم دونوں ترکی بھیڑوں کی طرح سر جھکائے اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ کبھی کبھار وہ رکتا اور کچھ تاریخ بیان کر دیتا جس میں سے اکثر تو سر پر سے ہی گزر جاتی،کیونکہ وہ ایسے ایسے بادشاہوں اور ملکاؤں کے حوالے دیتا تھا جن کے بڑے عجیب و غریب سے نام تھے اور جو کم از کم میری نظروں سے تو آج تک نہیں گزرے تھے۔ ویسے بھی چار ہزار سال پہلے مرنے والے بادشاہ کے سوتیلے بھائی سے بھلا ہمیں کیا لینا دینا تھا، مگر وہ بہت ایمانداری سے اپنے فرائض نباہ کر چار پاؤنڈ حلال کرنے کی کوشش میں تھا۔
بعد میں حیرت انگیز طور پر اس نے اپنا وعدہ نبھایا اور اگلے دو گھنٹے وہ ہمارے ساتھ ہی چپکا رہا۔ نہ صرف اس نے ہمیں اہرام باہر سے اچھی طرح دکھائے بلکہ ایک اہرام کے کچھ اوپر تک بھی چڑھا دیا جو سینکڑوں من وزنی پتھروں سے بنا ہوا تھا۔تپتی دھوپ میں ہمارا پسینہ نکلوانے کے بعد وہ ہمیں بڑے اہرام کے اندر بھی لے گیا۔ جہاں ایک سرنگ نما راستے میں سے گزرتے ہوئے چوبی سیڑھیاں ایک بڑے سے ہال میں داخل ہو جاتی تھیں جو کسی فرعون کا مدفن تھا۔ اس نے چھوٹی سی ٹارچ جلا رکھی تھی اور آہستہ آہستہ آگے ہی آگے عمیق گہرائیوں میں اترتا چلا گیا۔ گھپ اندھیرے میں صرف سانپ کی طرح بل کھاتی اور ڈھلوان کی طرف اترتی ہوئی چوبی سیڑھی ہی نظر آ رہی تھی، جو فرش پر بچھا ئی گئی تھی، باقی چار سو دل دہلا دینے والی تاریکی تھی۔عبدو بھی میرے پیچھے پیچھے ہانپتا کانپتا چلا آ رہا تھا۔ ہم دونوں رکوع کی حالت میں چل رہے تھے کیونکہ اس راہداری میں اس سے زیادہ اونچا ہوا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ مسلسل جھکنے سے کمر تختہ ہوگئی لیکن راستے کی طوالت کسی طور کم نہ ہوئی۔ لگتا تھا کہ ہم بھی فرعونوں کے ساتھ صدیوں کا سفر طے کرکے یہاں تک آئے ہیں۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -