عوام کی مشکلات: حل کیسے ہوں گی؟
موضوعات کی تو کوئی کمی نہیں لیکن لکھنے کو جی نہیں چاہ رہا، اس کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو کوئی اندازہ بھی نہیں ہو سکا۔ایک بات بہرحال طے ہے کہ آج یاسیت کا دورہ ضرور پڑا ہے، اس کی بھی بہت سی وجوہات ہیں، تاہم بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے مسلسل دعوے سامنے آ رہے ہیں اور ہر ایک میں عوام کے مسائل حل اور ختم کرنے کا چرچا ہوتا ہے۔ایسے بیانات پڑھ کر بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ عوامی مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں اور حکمران بہت مطمئن انداز میں اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتے چلے جا رہے ہیں ان کو عوام کے حقیقی مسائل سے کوئی غرض نہیں ہے، اب لوڈشیڈنگ ہی کی مثال لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ” خاک ہو جائیں گے تم کو خبر ہونے تک“ والی کیفیت ہے.... کہا جا رہا ہے کہ توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لئے دن رات کام ہو رہا ہے، جلد ہی نتائج بھی سامنے آ جائیں گے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف متحرک ہیں، اب تک انہوں نے توانائی کے بحران کے حوالے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے لئے جتنے معاہدوں پر دستخط کئے ان سے تو یہی اندازہ ہوتا تھا کہ بس اس سال سہولت ہوگی، لیکن یہ آرزو ہی رہی۔
بلاشبہ وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف محنت کررہے ہیں، وفاقی وزیر بھی کبھی 12سو میگاواٹ اور کبھی دو ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب ہر ایک گھنٹے کے بعد ا یک گھنٹے کے لئے برقی رو منقطع ہو جائے تو اسے کیا کہیں گے عملی صورت تو یہی ہے کہ لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایسے میں کسی نے پوچھا کہ میاں شہبازشریف مینار پاکستان پر کیمپ کب لگا رہے ہیں؟اس دوست کو شاید پتہ نہیں کہ لاہور کے عظیم ترقیاتی کاموںمیں سے ایک کام نے یہ ناممکن بنا دیا ہے کہ آزادی چوک والے انٹرچینج کی تعمیر جاری ہونے سے یہ ممکن نہیں رہا کہ مینار پاکستان پر کیمپ لگایا جا سکے۔مان لیں یہ صورت حال وقوع پذیر ہو چکی تو پھر اگلا پڑاﺅ جیلانی پارک، باغ جناح یا کسی اور پارک میں ہو سکتا ہے۔ویسے بھی قارئین! آپ کیوں چاہتے ہیں کہ ایسا ہو، ماضی میں تو صوبے اور وفاق میں دو مختلف حکومتیں تھیں، لیکن اب تو ایسا نہیں پنجاب اور وفاق میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہے تو پھر کیا ضرورت ہے اور یہ یوں بھی ممکن نہیں کہ توانائی کے بحران کو حل کرنے کے اعلانات تو وزیراعلیٰ ہی کی طرف سے آ رہے ہیں اور خوب سے خوب تر کے طور پر ان کی تعریف بھی جاری ہے، تاہم عملی شکل یہی ہے کہ موسم سخت ہو گیا اور مانگ میں اضافہ ہوا تو طلب و رسد میں فرق پڑگیا اب لوڈشیڈنگ نہ ہو تو کیا ہو۔
لوڈشیڈنگ سے یوں تو سارا ہی معمول زندگی متاثر ہوتا ہے لیکن جو مذاق سی این جی سے ہو رہا ہے وہ قابل غور ہے، حکومت کے علم میں ہر بات ہے لیکن اس کی طرف سے نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے اور لاہور میں ایک کے بعد ایک گھنٹے کے دوران بجلی بند ہوتی اور بحال ہوتی ہے، اب اللہ کے بندوں نے قوم سے ایک اور مذاق کیا کہ ہفتے کے ساتوں دن سی این جی مہیا کرنے کا اعلان کردیا، اس کے لئے اوقات کار مقرر کر دیئے گئے، لیکن حساب کتاب نہیں کیا گیا، شاہد یہی وجہ ہے کہ سات روزہ سپلائی کے باوجود قطاریں ختم ہونے کا نام نہیں لیتین، اس کی بھی بنیادی وجہ گیس کی قلت ہے اور یہ قلت اب لوڈشیڈنگ نے پیدا کرنا شروع کردی ہے، کیونکہ سی این جی سٹیشنوںکے لئے اوقات صبح دس سے سہ پہر چار بجے تک مقرر کئے ہیں، ان میں تین سے چار گھنٹے کی کمی ہو جاتی ہے، اس لئے قطاروں کا تسلسل برقرار رہنا تو ضروری ہے، اب یہی دیکھئے کہ ہر سی این جی سٹیشن کے باہر لمبی لمبی قطاریں نظر آئیں گی۔وقت دس سے 4ہے تو عملی طور پر دو ڈھائی گھنٹے گیس ملتی ہے۔ وزیر پٹرولیم کا موقف ہے کہ گیس کے ذخائر کم ہورہے ہیں ، اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ تکمیل پذیر نہیں ہو سکتا، کیونکہ عالمی پابندیاں ہیں، اسی طرح بجلی کے حوالے سے صبر کی تلقین کی جاتی ہے کہ بس اب فریاد کے دن تھوڑے ہیں لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ میں جنریٹر چلا لینے والوں کو اس کا احساس کیسے ہو سکتا ہے کہ عام آدمی کو پنکھے کی ہوا سے محروم کر دیا گیا جبکہ خود ایئر کنڈیشننگ کا مزہ لیا جا رہا ہے۔
گرمی کی شدت بڑھی ہے۔درجہ حرارت بڑھ گیا ہے لوگوں کو ٹھنڈی ہوا کی ضرورت ہے لیکن وہ تو پنکھے بھی چلانے سے گریز کررہے ہیں کہ حالیہ بلوں میں جو نرخ سامنے آئے ہیں وہ ناقابل برداشت ہیں، دو سو یونٹ سے زیادہ یونٹ والوں کو بہت معمولی سی سبسڈی دی جا رہی ہے جبکہ نیچے والوں کو ذرا زیادہ کم نرخ پر رکھا گیا وہ بھی یوں کہ ان کو سبسڈی دی جا رہی ہے اور آج کل بلوں پر درج کرکے بھیجی جا رہی ہے۔صارفین کا خیال ہے کہ یونٹ بڑھے تو شامت آئی اس لئے بجلی کا استعمال بھی کم ہو گیا ہے۔لوگوں کی چیخیں نکل گئی ہیں کہ ایک دم نرخوں میں اضافہ کیا گیا۔بجلی کے نرخ 300یونٹ تک 14روپے یونٹ ہیں۔اس کے بعد 17روپے ہو جاتے ہیں۔ قارئین! معذرت کہ گھر سے چلے تھے تو لوڈشیڈنگ باہر آئے تو لوڈشیڈنگ اب تو اسی کا چرچا ہے۔ ٭