بھا رتی انتخا با ت........امکا نا ت
انسانی تارےخ کے سب سے بڑے انتخابی دنگل کا بگل بجتے ہی دنےا کی نظرےں بھارتی انتخابات پر مرکوز ہو چکی ہیں، جن میں 80کروڑ سے بھی زائد ووٹرز نئی بھارتی حکومت کا انتخاب کرےں گے۔ اس بار بھارتی انتخابات کو اس لئے بھی زےا دہ اہمےت دی جا رہی ہے کہ ہندو قوم پرست رہنما نرےندر مودی وزارت عظمی کے لئے بی جے پی کی جا نب سے امےدوار ہیں۔بھا رت کی انتہا ئی پےچےدہ سےا ست کو دےکھتے ہو ئے ابھی حتمی طور پر یہ دعویٰ نہیں کےا جا سکتا کہ بھا رت کا اگلا وزےراعظم کون ہو گا۔تا ہم بھارتی کارپورےٹ سےکٹر کے زےر اثر بھارتی مےڈ ےا کے اکثر حصوں کا یہ دعویٰ کہ مودی ہی بھا رت کے اگلے وزےراعظم ہو ں گے حقا ئق پر مبنی دکھا ئی نہیں دےتا۔ خود نرےندر مودی نے 29ما رچ کو چندی گڑھ میں یہ دعویٰ کر دےا کہ بھا رت کے اگلے وزےراعظم وہی ہوں گے۔ یہ درست ہے کہ کانگرسی سرکار کی کارکردگی انتہائی ماےوس کن رہی۔ معاشی صورت حال بھی ابتری کا شکار ہو ئی اور کرپشن کے تو نئے نئے رےکارڈز قائم کئے گئے۔ انہےں عوامل کے باعث بھارتی سےاست پر نظر رکھنے والے اکثر تجزیہ نگار یہ پےش گو ئی کر رہے ہیں کہ کانگرس کو ان انتخابات میں شکست کا سامنا کر نا پڑے گا۔ اس بار کا نگرس کے لئے 543 نشستوں میں سے 100نشستوں تک پہنچنا بھی ممکن دکھا ئی نہیں دے رہا۔ تاہم بی جے پی کا یہ مفروضہ بھی درست نہیں کہ کانگرس کی شکست کا فائدہ صرف نرےندر مودی کو ہی ہو گا۔
چند ماہ قبل مودی کے انتخابی جلسوں کو جس طرح پذےرائی مل رہی تھی اب اےسی پذےرائی دےکھنے کو نہیں مل رہی۔ بی جے پی کے اندر پارٹی ٹکٹس کی تقسےم کے حوالے سے بھی اختلافا ت نماےاں ہونے سے بی جے پی کمزور ہوئی۔ اےن ڈی اے کا اتحاد جو 1998ءمیں وجود میں آےا اور اسی اتحا د کے دم پر بی جے پی نے 1998ءسے 2004ءتک حکو مت کی۔اس وقت اس اےن ڈی اے میں 30کے لگ بھگ سےا سی جماعتےں شامل تھےں جن میں سمتا اور جنتا دل ےونائےٹڈ جےسی بڑی جماعتےں بھی شا مل تھیں،مگر اس مر تبہ اےن ڈی اے میں شا مل جما عتوں میں شےو سےنا، تےلگو دےشم پارٹی ، اکالی دل کے علا وہ دےگر سےا سی جماعتےں سےاسی اعتبار سے کمزور ہیں۔ اےسے میں اےن ڈی اے کا 272 تک نشستےں حاصل کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ 272کے ہدف تک پہنچنے کے لئے بی جے پی کو ےوپی کی 80نشستوں میں سے 40سے45 اور بہار سے 20سے 25نشستوں کو حاصل کر نا ہو گا، جبکہ بی جے پی کو اپنے مضبوط گڑھ کی حامل رےاستوں جےسے مدھےہ پردےش، گجرات، راجستھان اور چھتےس گڑھ سے 2009ءکے انتخابات میں حا صل کردہ45 نشستوں کے مقا بلے میں اس بار75سے زائد نشستوں کو حاصل کر نا ہو گا۔ اسے مہاراشڑ اور کرناٹک میں بھی اچھی کارکردگی دکھانا ہو گی، جبکہ زمےنی صورت حال کے مطا بق ےو پی جےسی سب سے بڑی رےاست میں آج بھی بہو جن سماج وادی پارٹی (ماےا وتی) اور سماج وادی پا رٹی (ملا ئم سنگھ ےا دےو) جےسی اچھوت سےاست کی علمبردار جماعتےں ہی مقبول ہیں۔
بہا ر جےسی اہم رےا ست میں جنتا دل ےونائیٹڈ اور راشڑےہ جنتا دل جےسی مقبول علاقائی جماعتوں کے ہو تے ہوئے بی جے پی کی دال گلنا ممکن نہیں۔ اسی طرح مغربی بنگال میں ترنمول کا نگرس، تامل ناڈو میں اے آئی اے ڈی اےم کے اور اڑےسہ میں بجو جنتا دل جےسی علاقا ئی جما عتےں ہی فےصلہ کن کر دار ادا کر ےں گی ان میں سے اکثر جماعتےں بی جے پی اور خاص طور پر نر یندرمودی کی شدےد مخالف ہیں۔ اس لئے انتخا با ت کے بعد اگر ان میں سے کوئی سےاسی جما عت مودی کو اپنی حما ےت فراہم کر تی ہے تو اس سےا سی جما عت کی اپنی سےکولر سےاست اور ووٹ بےنک متا ثر ہو سکتا ہے۔جہاں تک ان انتخابات میں مسلم ووٹ بےنک کا تعلق ہے تو مودی اپنی انتخابی مہم میں مسلمان مخالف زبان استعمال نہیں کر رہے۔ گجرات کے چند مسلمان بزنس مین،ےا اےم جے اکبر جےسے بڑے مسلمان صحافی کی بی جے پی میں شمولےت کے با وجود بھا رتی مسلمانوں کی واضح اکثرےت ابھی بھی 2002ءکے گجرات فسادات میں مودی کے کردار اور ان فسادات کے بعد مسلم مخالف بےانات کو بھو لنے کے لئے تےار نہیں ۔
ان فسادات کے بعد جب گجرات کے سےنکڑوں مسلمان رےلیف کےمپس میں پناہ لےنے پر مجبور ہوئے تو مودی نے بےان دےا کہ ان رےلیف کےمپس کو مسلمانوں نے بچے پےدا کرنے کی فےکٹرےوں میں تبدےل کر دےا ہے اور مسلمان ہم پانچ، ہمارے پچاسی کے ماننے والے ہیں۔ مودی نے اس بےان سے یہ تا ثر دےا کہ ہر مسلمان مرد کی چار بےو ےاں ہوتی ہیں، جن سے وہ پچاسی بچے پےدا کرتا ہے۔ مودی کی جانب سے اےسے کئی مسلم مخالف بےانات سے مسلمانوں نے ےقےنا اپنی ہتک محسوس کی۔ مودی کی فرقہ وارانہ سوچ اور تنگ نظری کی اےک مثال اس حقےقت سے بھی عےاں ہو جاتی ہے کہ اتر پردےش جےسی سب سے بڑی رےا ست میں جہاں مسلم آبا دی کا تنا سب19فیصد ہے اور مسلم ووٹ بےنک20 سے زائد نشستوں پر اپنا اثر ڈالتا ہے اس لئے اس رےا ست کی تقرےباً ہر جما عت مسلمانوں کو بھی کئی نشستوں سے کھڑا کرتی ہے۔ وہاں پر بی جے پی نے اےک نشست پر بھی کسی مسلمان کو ٹکٹ جاری نہیں کےا، بلکہ تےن اےسے امےداواروں کو ٹکٹ دیئے گئے کہ جو مظفر نگر کے مسلم کش فسادات میں ملوث ہیں۔ ےو پی میں بہو جن سماج وادی پارٹی نے مسلمانوں کو دےگر جماعتوں کے مقا بلے میں زےادہ ٹکٹ دیئے ہیں۔ کل 80نشستوں میں سے اس نے 19نشستوں پر مسلما نوں کو ٹکٹ دئےے۔انتخا با ت میں کس جما عت کو کتنی کامےابی ملے گی اس کا حتمی فےصلہ تو 16مئی کو ہی ہو گا، مگر یہ حقےقت واضح ہے کہ گز شتہ تما م انتخابات کی طر ح یہ انتخابات بھی بھارت میں کوئی بڑی سماجی بہتری لانے میں ناکا م رہےں گے۔بھارتی حکمرانوں نے ہمےشہ بھارتی جمہورےت کو دنےا کے سامنے اےک مثالی نظام کے طور پر پےش کر نے کی کوشش کی، مگر حقےقت میں بھارتی جمہورےت کو بہت سے چےلنجوں کا سامنا ہے۔
ورلڈ بےنک کی گزشتہ سال کی رپو رٹ کے مطابق بھارت میں 68.7فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں۔ خود سرکاری اعداد و شمار کے مطا بق 27کروڑ افراد غر بت کی لکےر سے بھی نےچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بھارتی مےڈےا ہی کی رپورٹس کے مطابق گز شتہ چند سال میں 3لا کھ سے زائد کسانوں نے اپنی غربت کے باعث خو دکشےاں کےں، جبکہ گز شتہ 6ما ہ میں اوسطاً ہر 30منٹ میں اےک بھا رتی کسان خو د کشی کر لےتا ہے۔ اقوام متحدہ کے تا زہ ترےن اعداد وشما ر کے مطا بق روزانہ 3ہزار بچے خوراک میں کمی کے باعث 5سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جا تے ہیں۔ ہر آنے والے نئے انتخابا ت میں پہلے سے زےادہ تعداد میں اےسے افراد لو ک سبھا کے لئے منتخب ہو جا تے ہیں کہ جن پر سنگےن جرا ئم کے مقدمات قائم ہو تے ہیں۔ بھارتی اخبار ”دی ہندو“ کے مطا بق حال ہی میں تحلےل ہو نے والی لوک سبھا میں 35فیصد ارکان جرا ئم کے مقدمات میں ملوث تھے، جبکہ مےگا کر پشن سےکنڈلز بھا رتی سےاست کا اےک لازمی جزو بن چکے ہیں۔ غےر جانبدارانہ رپورٹس کے مطابق آج بھی 100سے زائد بھارتی اضلاع نکسل باڑےوں کے بالواسطہ اور بلاواسطہ کنٹرول میں ہیں۔ یہ تمام حقائق اےسے اژدھا کی مانند ہیں کہ جو بھارت کے موجودہ نظام کو نگل سکتا ہے۔انہی عوامل کے باعث اب بھا رت کے کئی حلقوں میں یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ بھارتی جمہورےت کا واحد مقصد حکمران طبقات کی لوٹ کھسوٹ کو تحفظ دےنا ہی ہے، اس لئے اس نظام کا اےک متبادل سامنے آنا چاہئے۔ بھارت میں بھرپور عوامی پذےرائی کے ساتھ کر پشن کے خلاف 2011ءسے چلنے والی تحرےک، ارون دتی رائے جےسے دانشوروں کی مقبولےت میں اضافہ (رائے اعلا نیہ طور پربھا رتی جمہورےت کو بھارتی حکمرا نوں کی لوٹ کھسوٹ کا ذرےعہ قرار دےتی ہیں) اور نکسل باڑےوں کی مسلح تحرےک کو حماےت ملنا اس امرکے واضح ثبوت ہیں کہ اب مستقبل میں عوام کو محض جمہورےت کی لورےاں دےتے رہنا بھارتی حکمران طبقات کے لئے اتنا آسان نہ ہو گا۔ ٭