میری بیوی ہسپتال ہے

صاحب!میری بیوی ہسپتال ہے۔ سن کر ہر کوئی ہمدردی کرتا تھا۔ کچھ تو پیسے بھی دیتے تھے۔ مدتوں بعد پتہ چلتا تھا کہ بیوی کے ہسپتال ہونے کی واحد وجہ نوکری ہے۔ محترم کی بیوی نرس تھی۔راوی بیانی ہے کہ محترم کے جگر گوشے اور جگر گوشیاں چھٹی یہ کہہ کر لیتی تھیں کہ امی ہسپتا ل ہیں۔ ٹیچر پیار بھی کرتی تھیں اور چھٹی بھی فوراََ دیتی تھیں۔ رضوی صاحب نے کبھی نہیں بتایا ”ان کی بیوی ہسپتال ہے“۔ پہلی بار انہوں نے انتہائی عجیب فقرہ کہا تو منیجر کو ان پر پیار آ یا اور آج تک پیار آئے جارہا ہے۔ ”تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، تنخواہ نہ دیں۔ سیب خریدنے کے پیسے دے دیں۔ تنخواہ ملتے ہی پیسے واپس کر دو ں گا“۔ ہمدردی سے پوچھا،”سیب کسی بیمار کے لئے خریدنے ہیں؟ جواب ملا“ بیمار کے لئے نہیں،بیگم کے لئے، بلکہ منکوحہ کے لئے، نکاح ہوا ہے،ابھی رخصتی نہیں ہوئی۔ بیگم نرس ہے۔سیب اس لئے کھلاتا ہوں کہ انگریز کہتے ہیں، ”این ایپل آ ڈے، کیپس دا ڈاکٹر اوے“۔ جب سے نکاح ہوا ہے بیگم کو خود سیب کھلاتا ہوں۔نکاح سے پہلے وہ خود کھا لیتی تھی، اب میں کھلاتا ہوں، اپنا فرض نبھاتا ہوں، ڈاکٹروں سے لاحق خطرات دور بھگاتا ہوں“۔ رضوی صاحب فقط بیگم سے متعلقہ فرض نہیں نبھاتے، دیگر فرائض بھی بطریق احسن سر انجام دیتے ہیں۔ایک ادارے میں ٹیلی فون آپریٹر ہیں۔ منیجر صاحب فین ہیں تودیگررفقاء کار بھی دل سے عزت کرتے ہیں۔ منیجر صاحب کو رضوی صاحب کا اردو کا لہجہ نہال کردیتا ہے۔ رضوی صاحب کا تعلق کراچی سے ہے مگر عمر پنجا ب میں گزاری ہے۔ الفاظ کا چناؤ اور ادائیگی کما ل کی ہے۔ ضیاء محی الدین اور طلعت حسین صاحب یا د آ جا تے ہیں۔ جو بولتے تھے تو لگتا تھا:-
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو ااردو بول سکتے ہیں
انٹرنیٹ کے ظہورکے بعد سے ا ردو لکھنا اور بولنا ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ہمارے ہاں تو ایک مدت سے انگلش میڈیم سکول چھائے ہوئے ہیں۔ گلی گلی شہر شہر سکول ہیں۔ انگریز کا انتقام ہم انگریزی سے لے رہے ہیں۔انگریزی سے نہیں، اپنی آنے والی نسلوں سے لے رہے ہیں۔ اکثر اداروں میں انگریزی سنواری نہیں جاتی، اردو ضرور بگاڑی جاتی ہے۔ رضوی صاحب جیسے لوگ بڑے قیمتی ہیں۔اردو بھی قیمتی ہے اور اُردو دان بھی،بیگم کو سیب کھلانے والے انسان بھی۔ قیمتی تو وہ لوگ بھی ہیں جو قومی زبان سے پیار کرتے ہیں، اس پیار کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یونیسکو کی تحقیق بتاتی ہے مادری زبان میں حصولِ علم سے بچے میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔خود شناسی اور شخصیت کی نشوونما کے لئے مادری زبان میں تعلیم نا گزیر ہے۔چند علما ئے دین کا خیا ل ہے، اپنے وطن اپنی ثقافت اور اپنی زبان سے پیار شیوہ پیغمبر ی ہے۔ ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک کی لسٹ میں جاپان، چین اور جنوبی کوریا صف اول میں ہیں۔ تینوں ممالک میں تعلیم کا ذریعہ قومی زبان ہے۔چند ممالک میں ابتدائی سالوں میں انگریزی کی تعلیم وتدریس پر پابندی عائد ہے تاکہ قومی زبان میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رہے۔یورپ اور امریکہ میں قومی زبان کی ترویج کے لئے تما م ممکنہ اقدامات کئے جاتے ہیں۔ ہماری زبان فقط ایک زبان نہیں بلکہ پوری تہذیب ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی تاریخ اور اردو کی تاریخ کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اردو کی داستان ہماری تہذیب و تمدن کی داستان ہے۔حضرت داغ نے بجا فرمایا تھا“
اردو ہے جس کا نام، ہم ہی جانتے ہیں داغ
ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے
تحریک پاکستان میں ہندوستان کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں کو جوڑنے والی قوت اسلام تھی تو اردو کے کلیدی کردار سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ محققین کا خیال ہے کہ جب عرب تاجر ہندوستان آنے جانے لگے تو اردو زبان کی بنیاد پڑ گئی۔ محمود غزنوی اور غوری کے دور میں ابتدائی اردو کے نمونے ملتے ہیں۔ اردو کا ایک نام ریختہ بھی ہے۔ اردو کی ابتدا کے بارے میں کئی نظریات ہیں۔ تمام نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ اردو کی ابتدا ء برصغیر پاک وہندمیں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی۔ مسلمانوں کی ہند میں آمد، مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر ان کی زبانوں کے اثرات سے ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی۔ جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات اردو کی ابتدا ء قدیم آریاؤں کے زمانے سے کرتے ہیں تو ایک خیال یہ بھی ہے کہ اردو زبان کی ابتداء ہریانوی زبان سے ہوئی۔نصیر الدین ہاشمی کہتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے درمیان اظہار کی زبان اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ سید سلیمان ندوی کے خیال میں سندھ میں مسلمانوں کی آمد سے جو زبان وجود پذیر ہوئی، وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ حافظ محمود شیرانی کا نظریہ ہے کہ اردو کی ابتدا ء پنجاب میں ہوئی۔ مولانا محمد حسین اردو کا رشتہ برج بھاشا سے جوڑتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود حسین اور ڈاکٹر شوکت سبزواری ارود کا وطن اولین دہلی اور گرد و نواح کو قرار دیتے ہیں۔ اردو زبان تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔ برطانوی دور میں ارود کو ترقی اس وقت ملی جب اسے برصغیر کے مختلف علاقوں میں دفتری زبان قرار دیا گیا۔ خلیجی، یورپی، ایشیا ئی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیا سے کوچ کرنے والے اہل اردو ہیں۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ اردو کسی ایک مذہب یا ایک علاقے کی زبان نہیں بلکہ بین الاقوامی زبان ہے۔ منیش شکلا نے بجا کہا:-؎
بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے ارود کے بہانے سے سلیقہ سیکھا
کالم کا اختتام ہم اپنی نسل کے المیے پر کرتے ہیں
میرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بدنصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
٭٭٭