منٹو پارک میں فضاء پرجوش نعروں ”قائداعظم زندہ باد،مسلم لیگ زندہ باد“ سے گونج رہی تھی
تحریر :پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
قسط :2
22مارچ1940ءکو منٹو پارک (اقبال پارک) کے وسیع و عریض پنڈال میں 60ہزار افراد کے بیٹھنے کا انتظام تھا اردگرد دور دور تک سفید رنگ کے سینکڑوں خیمے لگے ہوئے تھے جہاں باہر سے آنے والے مندوبین قیام پذیر تھے۔ باقاعدہ اجلاس اڑھائی بجے شروع ہونا تھا مگر مقررہ وقت سے خاصہ عرصہ قبل ہی پورا پنڈال کھچا کھچ بھر چکاتھا۔مندوبین کے علاوہ عام لوگوں کے لیے ایک روپے کا داخلہ ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔شائقین یہ ٹکٹ خرید کر شریک جلسہ تھے اندر جگہ نہ ملنے کے باعث بے شمار لوگ باہر کھڑے تھے۔ جن کے لیے خصوصی لاﺅڈ سپیکروں کاانتظام تھا۔پنڈال کے اندر جانے والے راستے محراب اور ارد گرد ہر طرف مسلم لیگ کے سبز جھنڈے لہرا رہے تھے۔مسلم نیشنل گارڈ کے چاق و چوبند نوجوان سبزرنگ کی وردیوں میں ملبوس جلسے کے انتظامات میں مصروف تھے۔ کچھ عرصہ تک شعراءمسلم لیگ اور قائداعظمؒ کی تعریف میں نظمیں سنا کر حاضرین سے داد وصول کرتے رہے۔
قائداعظمؒ پنڈال کی طرف روانہ ہوئے۔دونوں طرف خاکی وردیوں میں ملبوس نیلی ٹوپیاں پہنے بمبئی صوبائی نیشنل گارڈ کے دستے کے نوجوان چل رہے تھے۔آگے آگے چندی نواز بھی تھے جو پنڈال کے وسط میں پلیٹ فارم تک گئے۔پوری فضاء ایک لاکھ افراد کے پرجوش نعروں ”قائداعظم زندہ باد،مسلم لیگ زندہ باد“ سے گونج رہی تھی۔ٹھیک2بج کر25منٹ پر قائداعظمؒ تشریف لائے۔ وہ سیاہ اچکن اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھے۔سر پر جناح کیپ تھی۔ صدر مجلس استقبالیہ نے حوش آمدید کہا۔
تلاوت کلام پاک کے بعد چند نظمیں جن میں میاں بشیر احمد کی نظم”ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح“خاص طور پرقابل ذکر ہے،پڑھی گئیں۔نواب شاہ نواز خان ممڈوٹ نے خطبہ استقبالیہ پڑھا جس میں انہوں نے کہاکہ ہندوستان میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی بقاءکو جو خطرہ لاحق ہے مسلم لیگ اس کے تدارک کے لیے کام کررہی ہے۔ مسلمانوں نے اپنی واحدنمائندہ جماعت کے نقطہ نظر کو سمجھ لیا ہے اور وہ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ ہندوستان کی آزادی کی حامی ہے مگر وہ اکثریت کے ہاتھوں مسلمانوں کے حقوق پامال نہیں ہونے دے گی۔ہندو اکثریت کے صوبوں میں کانگریسی وزارتوں کے اڑھائی سالہ دور حکومت سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مسلمان یہ صورتحال برداشت نہیں کرسکتے کہ وہ ان لوگوں کے غلام بن کر رہیں جن کا مذہب ،تہذیب اور تمدن ان سے بالکل جدا ہے۔ گزشتہ25 برسوں میں تقریباً 25 مرتبہ کوششیں ہونے کے باوجود کوئی تصفیہ نہ ہوسکا۔آخر میں انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ بعض بہت نمایاں حیثیت کے مالک مسلمان کانگریس سے جاملے ہیں جو کہ برطانوی تسلط سے آزادی کے بعد ہندو راج قائم کرنے کے لیے کام کررہی ہے۔
جب قائداعظمؒ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو فضا قائداعظم ؒزندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ ابتداءمیں کچھ دیر اُردو میں تقریر کی پھر معذرت کرتے ہوئے انگریزی میں تقریر شروع کی۔ قائداعظمؒ کی یہ فی البدیہہ تقریر تقریباً 2گھنٹہ جاری رہی۔ ان کی شخصیت نے حاضرین کو اس درجہ مسحور کر رکھا تھا کہ انگریزی سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم ہونے کے باوجود پورا ہجوم دم بخود بیٹھا رہا۔ سوائے اس کے کہ درمیان میں کبھی کبھی تالیاں بجائی جاتیں یا نعرے لگتے۔
یہ مسلمانان ہند کا مکمل نمائندہ اجتماع تھا۔اس اجتماع میں پنجاب، بنگال اور آسام کے وزراء، صوبائی اور مرکزی اسمبلی کے مسلمان ممبران کی ایک بہت بڑی اکثریت موجود تھی۔ اس اجلاس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں خواتین بہت بڑی تعداد میں شریک ہوئی تھیں۔
قائداعظمؒ نے اپنی تقریر میں مسلم لیگ کے دسمبر1938ءمیں پٹنہ میں ہونے والے سالانہ اجلاس کے بعدجو واقعات رونما ہوئے ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ہندوستان کے نئے آئین کے مسئلہ کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ 1935ءکا ایکٹ اب ختم ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ مسٹر گاندھی مجھے اپنا بھائی کہتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ بھائی گاندھی کے پاس3 ووٹ ہیں اور میرے پاس صرف 1 ووٹ ہے۔ انہوں نے مسٹر گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ ہندوﺅں کے نمائندے بن کر باعزت طریقے سے میرے پاس کیوں نہیں آتے کہ میں مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے باعزت طریقے سے آپ سے بات چیت کروں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ غلطی سے مسلمانوں کوایک اقلیت کہا جاتا رہا ہے اور ہم اس کے اس قدر طویل عرصہ سے عادی ہوگئے ہیں کہ اسے درست کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ مسلمان اقلیت نہیں بلکہ ہر تعریف اور تشریح کے لحاظ سے مسلمان ایک قوم ہیں۔
رات کو سبجیکٹ کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا جس میں اس تاریخی”لاہور ریزولیشن“ کے ڈرافٹ پر غور کیا گیا جو اگلے روز یعنی 23مارچ کو پیش کیا جانا تھا۔ یہ اجلاس آدھی رات کے بعد تک بھی جاری رہا۔
23مارچ1940ءکو صبح ساڑھے دس بجے سبجیکٹ کمیٹی کا اجلاس پھر شروع ہوا جو 2 بجے بعد دوپہر تک جاری رہا۔ ایک بجے کے قریب باہر کچھ لوگوں نے مظاہرہ کیا اور ”سکندر مردہ باد“کے نعرے لگائے۔ جلد ہی اجلاس ختم ہوا تو قائداعظمؒ نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے یقین دلایا کہ تمام معاملہ مسلم لیگ کے زیر غور ہے اور وہ پر امن اور پرسکون رہیں۔ مجمع قائداعظمؒ زندہ باد کے نعرے لگاکر منتشر ہوگیا۔
شام 3بجے دوسرا کھلا اجلاس شروع ہوا۔ قائداعظمؒ کرسی صدارت پر رونق افروز تھے۔ پنڈال بھرا ہواتھا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے سالانہ رپورٹ پیش کی جو منظور کرلی گئی۔اس کے بعد مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے قرارداد پیش کرتے ہوئے تقریر کی۔ چودھری خلیق الزمان،مولانا ظفر علی خان، سردار محمد اورنگزیب خان(سرحد)، سرعبداللہ ہارون(سندھ)،مولانا عالم(پنجاب)،بیگم مولانا محمد علی جوہر،عبدالحمید بدایونی، سید ذاکر علی(یو پی)،قاضی محمد عیسیٰ(بلوچستان)نے قرارداد کی تائید کی۔ نواب محمد اسماعیل(بہار)،سیّد عبدالروف شاہ( سی پی)،عبدالحمید خان(مدراس) اور آئی آئی چندریگر(بمبئی) نے یکے بعد دیگرے تائیدی تقریریں کیں۔ نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ اجلاس اگلی صبح کے لیے ملتوی ہوگیا۔
24مارچ1940ءکو تیسرا کھلا اجلاس سوا گیارہ بجے شروع ہوا۔نوابزادہ لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ قائداعظمؒ قدرے تاخیر سے تشریف لائیں گے اور انہوں نے کہا ہے کہ کارروائی جاری رکھی جائے۔(جاری ہے )
کتاب "مسلم لیگ اور تحریک پاکستان " سے اقتباس
نوٹ : یہ کتاب بک ہوم نے شائع کی