درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 54
چائے کی پیالی نے ہمیں گرما دیا تھا۔ہم نے سامان کندھوں پر لٹکایا اور چلنے کا ارادہ ظاہر کیا۔پجاری ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا:
’’سرکار،آپ نہتے ہیں،دن چڑھنے تک صبر کریں۔‘‘
مگر ہم تو رات ہی کوگھومنے نکلے تھے۔ہمیں چلتا دیکھ کر وہ بھی ساتھ ہولیا:’’صبح تک میں تمہارے ساتھ رہوں گا اور حتیٰ الامکان تمہاری حفاظت کروں گا،مبادا خونی ہاتھی سے سابقہ پیش آجائے اور وہ تمہیں کچل کر رکھ دے۔‘‘
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان منحوس الفاظ کے ساتھ ہمارے سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا ۔کمپیکا رائے سے نکل کر ہم پھرندی کی طرف بڑھے۔میں ٹارچ جلائے سب سے آگے آگے تھا۔بار میرے پیچھے اور ایرک نے عقب سنبھال رکھا تھا۔ ہم تنگ راستے سے ہوتے ہوئے پھر وادی میں داخل ہو گئے۔سردی شباب پر تھی۔ ناگہاں بانسوں کے اندر سے جنگلی مرغ کے کڑکڑانے کی آواز آئی۔رات کے دو بج رہے تھے۔کوئی آدھ ایک میل چل کر میں نے بائرا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔اس نے بتایا، ہاتھی کہیں آس پاس موجود ہے۔یقیناً یہ بہت قریب ہو گا، ورنہ بائرا خاموشی کے انداز میں ضرور خبردار کردیتا۔پھر اشارے ہی اشارے میں انتظار کرنے کو کہا اورہم ساکت وصامت کھڑے ہو گئے۔
معاً سراہٹ سی سنائی دی جو بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھی۔ ہاتھی سامنے سے ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ بائرا نے اچانک اشارہ کیا اور خود تیزی سے مڑا اور پنجوں کے بل بھاگنے لگا۔ ایرک نے اس کی پیروی کی، میں سب سے پیچھے رہ گیا۔ہاتھی نے ہماری بوپالی تھی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ہمارے پیچھے ہولیا۔یہی وہ خونی ہاتھی تھا جس سے بائرا نے ہمیں خبردار کیا تھا۔ وہ ہمارے بہت قریب پہنچ کر چنگھاڑاور پھر حملے کے انداز میں ہم پر پل پڑا۔
اب بھاگنا بے کار تھا۔یوں بھی ہمارے کندھوں پر سامان تھا اور بھاگنا ممکن بھی نہ تھا۔ جھاڑیوں میں بھی چھپنا لا حاصل تھا۔ موت ہمارے سر پرمنڈلا رہی تھی۔میں نے آخری حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔فوراً ٹارچ روشن کر دی اور ساتھ ہی پورے زور سے نعرہ لگایا۔ روشنی کا دھارا دیوقامت ہاتھی کے اوپر پڑا جواب صرف دس گز دور رہ گیا تا۔ اس نے سونڈ میں کیچڑ ڈال رکھا تھا۔اس کا منہ قدرے کھلا ہوا تھا اور دانت بالکل میری سیدھ میں تھے۔آنکھیں ستم ڈھانے کو بے قرار تھیں۔اگلے ہی لمحے وحشی جانور رک گیا۔ اس کے اچانک رکنے سے کیچڑا چھل کر دور جاگرا۔میں گلا پھاڑے برابر چلا رہا تھا۔ بائرا نے مجھے موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر قدم روک لیے تھے۔وہ میری مدد کو پہنچ گیا تھا۔اس نے بھی میرے ساتھ مل کر ہاتھی پر گا لیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ایرک پیچھے مڑ کر لگاتار بھاگے جارہے تھا۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
دیوہیکل جانور دائیں بائیں سرہلانے لگا۔ وہ ٹارچ کی روشنی سے بچتا چاہتا تھا لیکن میں نے روشنی اس کی آنکھوں پر مرکوز رکھی اور ساتھ ہی ساتھ گلا پھاڑ کر چلاتا رہا۔اب میں نے آخری قدم اٹھایا۔ ٹارچ سامنے کیے ہاتھی کی طرف چند قدم بڑھا۔روشنی کنکھجورے کی طرح اس کی آنکھوں سے چمٹ گئی تھی۔ وحشی جانور ہمت ہار بیٹھا۔اس نے گردن پھیری اور تنگ سے راستے پر آنکھیں جما دیں۔میں نے پوزیشن بدل کر ٹارچ کی روشنی اس کی آنکھوں سے ہٹنے نہ دی۔ہاتھی کے اعصاب جواب دے گئے۔ہماری کان پھاڑ دینے والی چیخوں اور پیچھا نہ چھوڑنے والی روشنی کے آگے وہ زیادہ دیر تک نہ ٹھہر سکا۔ اس نے آہستہ سے اپنا رخ بدلا اور بھاگ کھڑا ہوا۔بائرا اور میں نے اس کا پیچھا جاری رکھا۔اس نے دائیں طرف کی جھاڑیوں میں غائب ہو جانے میں عافیت سمجھی۔ہمارا مشن پورا ہو چکا تھا۔ ہمیں سیر کا حقیقی لطف حاصل ہو گیا تھا۔ہم واپس مڑے۔ایرک کو تلاش کرنا ضروری تھا۔وہ دور دور تک دکھائی نہ دیتا تھا۔ وہ کمپیکارائے کو جانے والے راستے کے بجائے بدحواسی میں دوسری طرف نکل گیا تھا۔ بائر تو اس کے پیچھے دوڑتا رہا مگر میری ہمت جواب دے گئی۔یوں لگتا تھا جیسے میں شدید بخار میں مبتلا ہوں۔میری پیشانی پسینے میں شرابور تھی۔اب بائرا بھی نظر نہ آرہا تھا۔ میں ندی پار کرکے بستی میں پہنچ گیا۔ تھکن سے برا حال تھا۔ بائرا کے ہاں پہنچتے ہی چار پائی پر گرپڑا۔(جاری ہے)
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں