”عقلی بلوغت پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے، جب انسان کانٹ کے فلسفے کو سمجھنے کے قابل ہو جائے“

”عقلی بلوغت پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے، جب انسان کانٹ کے فلسفے کو سمجھنے کے قابل ...
”عقلی بلوغت پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے، جب انسان کانٹ کے فلسفے کو سمجھنے کے قابل ہو جائے“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: ظفر سپل
قسط:61
 کانٹ۔۔۔ اس کا قد 5فٹ سے بھی کم تھا۔ سر جسم کے مقابلے میں غیر متناسب حد تک بڑا۔ باڈی فریم کارک سکریو کی طرح کسی قدر بل کھاتا ہوا،جس کی وجہ سے اس کا بایاں کندھا نیچے کی طرف اور دایاں کندھا پیچھے کی طرف جھک گیا تھا۔ اِسی بگڑے ہوئے باڈی فریم کی وجہ سے اس کا سر بھی ایک طرف جھکا رہتا۔۔۔ مگر اس غیر متناسب جسمانی وضع قطع والے شخص نے ایک عظیم الشان مابعد الطبعیاتی اساس رکھنے والے فلسفیانہ فکری نظام کی بنیاد رکھ دی۔
تقریباً 57سال تک حیران کن حد تک خاموشی، خلوت نشینی اور شہرت سے دوری رکھنے والے اس شخص نے جب اپنا فلسفیانہ نظام پیش کیا تو پھر اسے وہ اقتدار و عروج حاصل ہوا کہ مغربی فلسفے کے دوسرے دور (Regime) میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1781ءمیں اس نے اپنی کتاب ”تنقید برعقل محض“ (Critique of Pure Reason) پیش کی اور پھر اس وقت سے آج کے دن تک اس کے فلسفے کی حکمرانی رہی ہے۔ تقریباً پون صدی بعد 1848ءمیں رومانی تحریک نے عروج حاصل کیا تو شوپن ہار نے منظر نامے پر عارضی فتح ضرور حاصل کی، 1859ءمیں ڈارون کا نظریۂ ارتقاءہر چیز کو بہا کر لے گیا، انیسویں صدی کے آخر میں نطثے نے بھی ہر اہلِ علم کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ مگر یہ سب کچھ وقتی، عارضی اور سطحی تھا، ایک طاقتور لہر تھی، جو زیرِ سطح سمندر خاموشی سے رواں تھی اور اپنے اثبات پر سمجھوتہ نہ کرتی تھی۔ یہ کانٹ کے فلسفے کی لہر تھی۔ شوپن ہار کا کہنا ہے ”عقلی بلوغت پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے، جب انسان کانٹ کے فلسفے کو سمجھنے کے قابل ہو جائے“۔ نطثے تو آگے بڑھتا ہی اِسی وقت ہے، جب وہ کانٹ کے فلسفے کو تسلیم کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بیگل نے سپائی نوزا کے متعلق جو کچھ کہا تھا، اِسے کانٹ کے لئے ذرا سی تبدیلی کے بعد دوبارہ لکھنا ہو گا ” فلسفی بننا چاہتے ہو تو پہلے کانٹ کا عقیدت سے مطالعہ کیجئے“۔
کانٹ اپنے فلسفیانہ ورثے سے مکمل طور پر آگاہ تھا۔ وہ ڈیکارٹ اور سپائی نوزا جیسے عقلیت پسندوں سے آگاہ تھا، جو یہ کہتے تھے کہ عقل علم کی بنیادوں کی تشکیل پذیری کرتی ہے اور وہ تجربیت پسندوں کو بھی سمجھتا تھا، جن کا عقیدہ تھا کہ دنیا کا تمام علم، حواس کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے۔
کانٹ کائنات کو دیکھنے کے ایک تیسرے نقطہ¿ نظر کے ساتھ سامنے آیا۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں نظریات جزوی طور پر درست ہیں اور جزوی طور پر ہی غلط بھی۔ اس لیے کہ عقلیت پسند تجربے کی اہمیت سے انکار کر رہے ہیں اور تجربیت پسندوں نے اس بارے میں اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں کہ جس انداز میں ہم حسیاتی طور پر دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ کس طرح ہمارے دماغ پر اثر انداز ہو کر نتائج پیدا کرتا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ انسانی دماغ محض موم کے انفعالی ٹکڑے (Passive Wax) کی طرح نہیں ہے، جو محض باہر سے حاصل کردہ عکس کا پرنٹ پیش کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس انداز سے ہم دنیا کی تفہیم و تشریح کرتے ہیں، ذہن اس پر اپنی چھاپ لگا دیتا ہے۔
وہ ایک دھیما اور کسی قدر شرمیلا انسان تھا اور کسی کو گمان بھی نہیں تھا، خود اس کو بھی کہ وہ ایک نئے اور چونکا دینے والے مابعدالطبیاتی نظام سے بحث کرکے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالے گا۔ وہ خود بھی حیران تھا، اس نے کہا کہ یہ تو درست ہے کہ میں مابعد الطبعیات کے عشق میں مبتلا ہوں، مگر یہ ایک ایسا سمندر ہے، جس کی کوئی اتھاہ نہیں، پھر نہ اس کے ساحل ہیں اور نہ زیرِ سمندر روشنی کے مینار۔ البتہ جگہ جگہ فلسفیوں کے ٹوٹے پھوٹے جہاز بکھرے پڑے ہیں۔
اب اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں کیا لکھا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ کانٹ کی زندگی کا گوشوارہ اس قدر سادہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔۔۔ عمانویل کانٹ (Immanuel Kant) 22 اپریل 1724 کو مشرقی پروشیا کے جرمن صوبہ کے صدر مقام کونِگز برگ (Konigsberg) میں پیدا ہوا۔ کانٹ کے آباؤ اجداد نے پچھلی صدی میں سکاٹ لینڈ سے ہجرت کی تھی۔ یہ وہ دن تھے، جب مشرقی پروشیا جنگ اور طاعون کے اُن صدمات سے سنبھلنے کی تگ ودو کر رہا تھا، جس نے اس کی آبادی کو تقریباً آدھا کر دیا تھا۔ کانٹ کا اسکاچ باپ چمڑے سازی کی صنعت سے وابستہ تھا۔ وہ چمڑے کے بڑے پارچوںکی چوڑی پٹیاں کاٹتا تھا اور ظاہر ہے تنگدستی کا شکار تھا۔ کانٹ کی5 بہنیں اور1 بھائی تھا۔ وہ بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تو ظاہر ہے ، کانٹ غربت کی فضاءمیں پلا بڑھا۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -