بینک کی نوکری میں جھاڑو پوچا لگایا، ڈاک لوگوں کے گھروں تک پہنچائی، ٹائیپ رائیٹرز کندھوں پر اٹھائے، یہ سب ہماری انا کو توڑنے کیلئے کرایا گیا
مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:154
اگلے دن ہمیں جھاڑو اور پوچا مارنے والے کپڑے تھما کر کہا گیا کہ ذرا کمروں کا فرش تو صاف کرو، آپ خود اندازہ لگا لیں کہ انتہائی تنگ پتلونیں، جو کہ اس زمانے کا فیشن تھا، پہن کر اور گلے میں لٹکتی ہوئی ٹائیوں کے ساتھ نیچے بیٹھ کر پوچا لگانا اپنے لیے کتنا تکلیف دہ اور دوسروں کے لیے کتنا محظوظ کن عمل تھا۔ حسب روایت اس دن بھی ہم سے بار بار یہی کام کروایا گیا، حالانکہ فرش شیشے سے زیادہ صاف ہو گیا تھا۔ واضح طور پر نظر آ رہا تھا کہ اس ساری کارروائی کا مقصد فرش کو نہیں بلکہ ہمارے من کو اُجلاکرنا تھا، جو وہ بڑی خوبصورتی سے کئے جارہے تھے۔
تیسرے دن ہر ایک کو ڈاک کا ایک پلندہ پکڑا کر سرکاری گاڑی میں بٹھایااور مختلف علاقوں میں اُتار دیا گیا اور حکم ہوا کہ بینک کی ڈاک متعلقہ لوگوں کے گھروں تک پہنچائی جائے اور اس کے بعد واپس آ کر حاضری لگوا کر گھر جائیں۔ شاید ان کو خدشہ تھا کہ مستقبل کے یہ ا ٓفیسر اور مینجر وہاں سے فارغ ہو کر کہیں کھسک ہی نہ جائیں۔ حالانکہ یہی سینکڑوں لفافے دو آنے کے ٹکٹ لگا کر محکمۂ ڈاک کے حوالے کر دئیے جاتے تو اسی شام کو وہ متعلقہ گھروں میں پہنچ جاتے۔ ان دنوں مقامی ڈاک کو منزل مراد تک پہنچنے میں اتنا ہی وقت لگتا تھا۔ ان کے پاس اس کا گھڑا گھڑایا جواز تھا کہ اگر بینک کے چپڑاسی یا ڈاک خانے والے ہڑتال پر چلے جائیں تب بھی کھاتہ داروں کو ان کی ڈاک وقت پرپہنچنا چاہیے۔ اپنے آفیسروں اور استادوں کی اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہم سارا دن کراچی کی سڑکوں پر خجل خوار ہوتے لوگوں کے گھروں کی وقت بے وقت گھنٹیاں بجاتے پھرے۔
آخری دن تو ظلم کی حد ہی ہو گئی کہ ہیڈ آفس کے سارے خراب اور گلے سڑے ٹائپ رائٹرسٹور سے اٹھوا کر ہمارے کاندھوں پر رکھ دئیے گئے کہ یہ سب اس فرضی ورکشاپ میں لے جائے جائیں جو وہاں سے ایک دو سڑکیں چھوڑ کر ایک گودام میں واقع تھا۔ اور پھر ”مرمت“ کروانے کے بعد انھیں واپس بھی لانا تھا۔ اس مشقت کے دوران ہمارے لال بھبھوکا چہروں کو دیکھ کر ہمارے معزز اساتذہ کرام کو بڑا سکون ملا تھا۔ کہتے تھے کہ یہ آپ کی انا کو توڑا جا رہا ہے، یہ انا ابھی تازہ تازہ جوان ہونے کے باعث پوری طرح اپنے پیروں پر کھڑی بھی نہ ہوئی تھی۔ گندے ٹائپ رائٹر کندھوں پر رکھے ٹائیاں لگائے ہوئے نوجوانوں کا یہ قافلہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا اور بھرے بازار سے گزر کر گودام تک پہنچا اور اسی طرح واپس آیا تو ان کی یہ خواہش بھی کسی حد تک پوری ہو چکی تھی اور وہ مسلسل مسکرائے جا رہے تھے۔
اس کے بعد بینکنگ کی باقاعدہ کلاسیں شروع ہوئیں۔ ہوتا کچھ یوں تھا کہ ایک ہفتہ ہم لوگ کسی ایک مضمون کے بنیادی قوانین پڑھتے اور اس کے بعد اگلا ہفتہ کسی برانچ میں ہمیں اسی موضوع کی عملی تربیت دی جاتی تھی۔ اس طرح دونوں کام ساتھ ساتھ چلتے اور ”کیوں“ اور ”کیسے“ آسانی سے ذہن نشین ہو جاتا تھا۔
جب کمپیوٹر کے بارے میں کلاسیں ہوئیں تو ہمیں ایک لفظ سمجھ نہ آیا، اور سب کچھ سر کے اوپر سے گزر گیا کیونکہ کمپیوٹر اس وقت پاکستان میں بالکل نیا تھا اور ہمارا بینک غالباً پہلا ادارہ تھا جس نے اپنے روزمرہ کے کاموں کے لیے کمپیوٹر حاصل کیا تھا اورجس کی قیمت اس وقت کروڑوں میں تھی۔ہمیں بتایا گیا کہ جو کام پہلے دنوں میں ہوتا تھا اب چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے۔بنیادی تربیت مکمل ہونے کے بعد ہمیں کمپیوٹر کی کارکردگی کا عملی مظاہرہ دکھانے کے لیے سینٹر کی دوسری منزل پر ایک ہال کمرے میں لے جایا گیا جو صرف کمپیوٹر کے لیے ہی مختص تھا۔ سارا ہال ایئر کنڈیشنڈ تھا اور ہر طرف شیشے لگے ہوئے تھے۔ہمیں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ اندر جانے کے بارے میں کبھی سوچنا بھی نہ۔ یہاں بہت ہی خاص لوگ کام کرتے تھے جن کی شکلیں اور حلئیے ہم سے قدرے مختلف اور کئی درجے بہتر تھے۔ ہم مہاجروں کی طرح شیشے کی دیواروں کے ساتھ چپکے کھڑے تھے اورپُھدک پُھدک کر اندر جھانک رہے تھے، انداز بندروں جیسا ہی تھا اب یہ علم نہیں کہ بندر ہم تھے یا اندر والے،تاہم کوئی تھا ضرور! ان میں سے جب بھی کوئی باہر آنے کے لیے دروازہ کھولتا توساتھ ہی یخ بستہ ہوا کا جھونکا بھی باہر نکل آتا اور بقول میرے دوست کے ”نشہ آ جاتا“، اس وقت تک ایئر کنڈیشن ابھی اتنا عام نہیں تھا اس لیے ٹھنڈک محسوس کر کے سرور سے آنکھیں بند ہوتی جاتی تھیں۔ہم سارے زیرتربیت نام نہاد آفیسر اندر کام کرنے والوں کو ایسی نظروں سے دیکھتے تھے جس کو کم از کم رشک تو نہیں کہا جا سکتا تھا۔ وہ کسی وجہ سے یا ہمیں ’متاثر‘کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے کارڈوں کے پلندے ہاتھوں میں اٹھائے اِدھر سے اُدھر بھاگتے پھرتے تھے۔ اس وقت پہلے کارڈ پنچ ہوتے تھے، پھر کمپیوٹر جمع تفریق کرتا اور نتیجہ چھپ کر پرنٹر سے باہر آجاتا تھا۔ بڑا ہی دلکش نظارہ تھا جو ہمیں صرف دور سے ہی دکھایا گیا۔حسد کی وجہ سے کئی دفعہ دل میں ایک خواہش یا بددعا نے جنم لیا کہ اللہ کرے جب یہ کارڈ لے کر بھاگ رہے ہوں تو ان کے پاؤں پھسلیں، اوربنڈل کھل کر سارے کارڈ فرش پر بکھر جائیں اور ان کو سمیٹنے میں گھنٹوں لگ جائیں۔آخر اس خواہش کا مقصد کیا تھا خود مجھے بھی معلوم نہیں تھا۔بس اس وقت کچھ ایسا ہی دل چاہا تھا، یہ مطلب ہرگزنہیں تھا کہ ہمیں ان سے کوئی عداوت ہو گئی تھی، بس تھوڑی بہت جلن تھی۔ویسے بھی میرے ماموں کہا کرتے تھے کہ کوؤں کی خواہشوں پر بیل نہیں مرا کرتے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔