ہمارے دوست عامر کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے ہاں بچے روتے ہوئے بھی تلفظ کا خیال رکھتے ہیں، کھانا بھی اشعار سنا کر مانگا جاتا ہے

 ہمارے دوست عامر کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے ہاں بچے روتے ہوئے بھی ...
 ہمارے دوست عامر کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے ہاں بچے روتے ہوئے بھی تلفظ کا خیال رکھتے ہیں، کھانا بھی اشعار سنا کر مانگا جاتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:سجاد النبی
قسط:31
نیند لانے والی شاعری کا خالق۔۔۔عامر الطاف 
عامر الطاف ہمارے ”اچھے“ دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے کچھ دوست ”برے“ بھی ہیں۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ صرف”دوست“ ہیں اور کچھ”اچھے دوست“۔ کتابی چہرے پر سجی بڑی بڑی مونچھوں اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں کے ساتھ یہ پہلی ہی نظر میں اچھا لگتا ہے۔ تاہم دوسری بار دیکھنے پر آدمی اپنی رائے بدل لیتا ہے۔ 
عامر کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں بچے روتے ہوئے بھی تلفظ کا خیال رکھتے ہیں اور ”اوں، اوں“ کی بجائے روتے ہوئے ”یوں۔یوں“ کی آواز نکالتے ہیں۔ عامر الطاف کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق ہے۔ جس خوبصورت شاعرہ کی بڑی سی رنگین تصویر اس کے مجموعہ کلام پر چھپی ہوتی، عامر وہ مجموعہ اپنے سکول بیگ میں ضرور رکھتا۔ لڑکپن میں یہ گھر والوں سے کھانا بھی شعروں میں مانگتا۔ ایک دن اس کی شاعری سے تنگ آ کر والدہ نے پابندی لگا دی کہ اگر اب اشعار سنا کر کھانا مانگا تو کھانے میں بھی صرف داد ہی ملے گی۔ 
عامر ہلکی پھلکی شاعری کرتا ہے۔ وجہ پوچھی جائے تو کہتا ہے آجکل دور ہی ایسا ہے۔ لوگ ہلکے پھلکے، غذا ہلکی پھلکی، ایمان ہلکا پھلکا۔ موصوف بنیادی طورپر مشاعروں کے شاعر ہیں۔ مشاعرہ لوٹنے کا ہنرخوب جانتے ہیں، یعنی مشاعرے سے پہلے ہی منتظمین کو آنے جانے کے ہوائی ٹکٹ، ہوٹل کی ایڈوانس بکنگ اور قیام و طعام کے خرچ کے نام پر لوٹ لیتے ہیں۔
 ایک دن فرمانے لگے۔”یار مشاعرے میں میرے کلام کے دوران جب لوگ اٹھ کر باہر جانا شروع ہو جاتے ہیں تو میں قطعاً پریشان نہیں ہوتا۔ لیکن اگر لوگ اٹھ کر میری طرف آنا شروع ہو جائیں تو پھر میں گھبرا جاتا ہوں۔“ عامر شاعری رات کے وقت کرتا ہے ہمارے دوست  ندیم رضا کا کہنا ہے کہ ”اس کی شاعری پڑھ کر فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ یہ نہ صرف رات کے وقت کی گئی ہے بلکہ آنکھیں اور دماغ دونوں بند کرکے کی گئی ہے۔“ لیکن عامر رات کے وقت جب لکھتے ہیں تو لکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ تاہم انہیں شکایت ہے لکھنے بیٹھ جاؤں تو پھر دیر تک نیند نہیں آتی۔ مبین ملک صاحب نے اس کا علاج بتاتے ہوئے کہا۔”عامر جو کچھ لکھتے ہو، اسے پڑھ لیا کرو، خود ہی نیند آ جائے گی۔“ 
عامر نے کافی جدوجہد کے بعد خود کو اچھا”شاعر“ تو ثابت کروالیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ اچھے ”شوہر“ ثابت نہ ہو سکے۔ شادی کے کچھ ہی عرصے کے بعد اختلافات نے سر اٹھا لیا۔ جسے دیکھ کر عامر نے اپنا سر جھکا لیا۔ لیکن ایک دن ہمت کرکے ایک وکیل کے پاس مشورے کے لیے پہنچ کر اس سے دریافت کر بیٹھے کہ”اگر میں اپنی بیوی کو طلاق دوں تو مجھے کم ازکم کتنی رقم درکار ہوگی؟“۔ ”20 ہزار روپے میری فیس۔۔۔“ وکیل نے بتایا۔”تقریباً اتنی ہی رقم کورٹ فیس، اسٹام پیپرز، عدالتی کاغذ اور بیوی کا حق مہر اس کے علاوہ ہوگا۔”عامر نے جواب دیا“ اتنا خرچ تو شادی پر بھی نہیں آیا تھا۔ پانچ سو روپے نکاح خواں نے لیے اور آٹھ سو روپے کی مٹھائی آئی۔وکیل نے برا سا منہ بنا کر کہا۔”سستے کام کا یہی انجام ہوتا ہے۔“ 
تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ وکیل سے ملاقات کے بعد عامر نے بیوی کو طلاق دینے کا خیال ہی ذہن سے نکال دیا ہے۔ کہتا ہے اب میں اسی بیوی کے ساتھ مزید دس بارہ سال گزارنے کے بعد حکومت سے اپنے لیے ”تمغہ جرأت“ کا مطالبہ کروں گا۔ رضوان قمر بٹ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اسے تمغہ جرأت دے دیا تو پاکستان کے سارے شوہر اس کے اہل ہو جائیں گے۔
 دوستوں کو عامر کی شاعری اور شوہری دونوں پر اعتراض ہے۔ ان کے بقول عامر دونوں کام دب کر کرتا ہے۔ جبکہ ایک دوست کا کہنا ہے کہ عامر کی شاعری، شاعری نہیں، بیماری ہے۔ کیونکہ جو بھی اسے پڑھ لیتا ہے وہ عجیب و غریب حرکتیں کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ان تین افیونیوں کی طرح جو ایک جگہ اکٹھے ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ ان میں سے درمیان والا سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا جبکہ اس کے دائیں بائیں والے ایسے اشارے کر رہے تھے جیسے وہ کشتیوں میں سوار ہیں اور مچھلیاں پکڑ رہے ہیں۔ ایک سپاہی ادھر سے گزرا، اس نے ان دونوں کو پاگل سمجھا اور تیسرے کو خاموش دیکھ کر اسے ذی ہوش خیال کرتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا”یہ دونوں تمہارے ساتھ ہیں؟“ جواب ملا”جی ہاں“ ”سپاہی بولا“ ان دونوں کو یہاں سے لیکر چلے جاؤ۔”جی اچھا“ اور یہ کہہ کر بیچ والے نے جلدی سے چپو چلانا شروع کر دیئے۔
عامر الطاف کو گلہ ہے کہ ”ہمارے ملک میں شاعر ختم ہو جاتا ہے مگر اس کے مجموعہ کلام کا پہلا ایڈیشن ختم نہیں ہوتا۔“ کری ایٹیو گرو ”منصور مانی“ کا کہنا ہے کہ ”یہ شاعر لوگ بھی عجیب انسان ہیں، کتاب کا پہلا ایڈیشن چھاپنے کی بجائے ڈائریکٹ دوسرا ایڈیشن ہی کیوں نہیں چھاپتے؟“
عامر الطاف بسلسلہ روزگار ان دنوں کینیڈا میں مقیم ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -