آصف زرداری کے بعد تحریک انصاف کے کردار پر روشنی ڈالنے کی باری آئی تو ایک صاحب فوری منحرف ہو گئے اور اپنی نشست بھی بدل ڈالی 

 آصف زرداری کے بعد تحریک انصاف کے کردار پر روشنی ڈالنے کی باری آئی تو ایک ...
 آصف زرداری کے بعد تحریک انصاف کے کردار پر روشنی ڈالنے کی باری آئی تو ایک صاحب فوری منحرف ہو گئے اور اپنی نشست بھی بدل ڈالی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ع۔ غ۔ جانباز 
 قسط:18
عاصم صاحب نے دی ”افطار پارٹی“ 
41-Rowntree Street سے ہم ساڑھے چار بجے چل دئیے۔ جلد ہی ہم Parklea کے ایریا میں تھے۔ یہاں پر سبزی فروٹ کی ایک بڑی شیڈ نما مارکیٹ ہے جہاں دوسری مقامات کی نسبت کچھ سستے داموں سبزی، فروٹ مل جاتے ہیں۔ اگر آپ ڈسکاؤنٹ پہ ڈسکاؤنٹ چاہیں تو شام کو 6 بجے کلوزنگ پر آکر د یکھ لیں ”لوٹ سیل“ ہوگی، آزمائش شرط ہے۔
اِس سے ذرا آگے بڑھیں تو جناب آگیا Glesswood کا ایریا، جہاں عاصم صاحب رہائش پذیر ہیں۔ اُن کے دولت کدہ کے باہر ہم گاڑی پارک کر کے اندر گئے تو ہمارا استقبال عاصم صاحب کی گوری بیگم نے بڑی ہی خندہ پیشانی سے کیا۔ آگے بڑھے تو عاصم صاحب کا سامنا ہوا۔ عاصم صاحب ایک باغ و بہار شخصیّت کے حصار میں بیٹھے ایک مُدبّر اور معاملہ فہم لگے۔
اُن کے ہاں افطاری پر 7 فیملیز مدعو تھیں۔ چند ہی لمحوں میں ہمارا کمرہ ہاؤس فُل کا سا سماں پیش کر رہا تھا۔ جلد ہی موبائل فُونز پر افطاری کے الارم بجنے لگے۔ عاصم صاحب آگے بڑھے اور ایک پیالی میں قدرے دُبلی پتلی سی کھجوریں بانٹنے لگیں۔ کھجورں کی تعداد چونکہ گِنی چُنی تھیں۔ لہٰذا شاید ہی کوئی مردِ میدان ہوگا جس نے دو کھجوروں کو سمیٹا ہوگا۔ کیا کہا؟ اس میں بخل کا شائبہ تک نہیں ہے، اس سے تو خطۂ  عرب سے آنے والی ہر چیز کا احترام جھلکتا ہے۔ یہاں اللّے تللّے نہیں چلتے۔ پھر ایک ایک گلاس رُوح افزا مِلا دُودھ چڑھایا اور سامنے پڑی فروٹ چاٹ، پکوڑے، دہی بھلّے اور رولز پر ہاتھ صاف کیا۔ فارغ ہوئے تو وہیں با جماعت مغرب کی نماز کے لیے صف بندی ہوگئی۔ امامت کے فرائض شہباز صاحب نے ادا کیے۔
کھانا دوسرے کمرے میں میزوں پر چُنا گیا تھا۔ کھانے میں نہاری، چکن کا سالن، بریانی، روٹی اور سلاد …… کون کم ظرف ہوگا جس نے شکم کی طنابیں خوب نہ کسَی ہونگی۔ میں نے اپنا سراپا دائیں بائیں کئی دفعہ ہلایا تب کہیں جا کر سانس ٹھیک طرح سے آنے جانے لگا۔ ورنہ نوالوں کی تیز رفتاری کے باعث سانس اُوپر کا اُوپر اور نیچے کا نیچے رہنے لگا تھا۔ مزید اپنی سہولت کے لیے میں نے اپنا پرانا آزمودہ نُسخہ آزمانے کا اِرادہ کیا تاکہ کھانے پینے کا کچھ حصّہ جوشِ خطابت سے اِدھر اُدھر ہوجائے اور سحری کے کھانے میں پھر دُوسرے گھر والوں سے مات نہ کھا جائیں۔ 
میں نے سامعین و حاضرین سے کہا کہ میں نے جناب بابائے جمہوریت ”جناب آصف علی زرداری“ کے متعلق فیس بک پر چند سطری عبارت لکھی تھی۔جو کچھ فیس بک پر لکھا تھا وہ تو میں گول کر گیا۔ کیونکہ میری تحریر کے جواب میں اینکر طلعت حسین نے بھی دس بارہ سطروں کا ردِّ عمل دیا ہوا تھا۔ اور میرے خُوب لتّے لئے تھے۔ میری اِس حقیقت پرور نگاہ پر ڈاکٹر خان تو سیخ پا ہی ہوگئے۔ کہنے لگا میاں کہاں اِن بُھولے بسرے چہروں پر اپنی روشنائی ضائع کرتے ہو۔ اگر لکھنا ہی تمہارا مقدّر ٹھہرا تو جناب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت پر خامہ فرسائی کریں۔
عاصم صاحب نے تحریک انصاف کے ایک اور علمبردار ”ذکی صاحب“ سے مزید روشنی ڈالنے کا کہا تو جناب وہ اُلٹے پاؤں مُنحرف ہوگئے اور تحریک ِ انصاف سے کسی قسم کے تعلق کی نفی کردی اور ساتھ ہی اِس پر مزید زور دینے کے لیے اپنی جگہ بھی بدل ڈالی اور ریحان صاحب کی پُشت پر پڑے صوفے پر آ براجمان ہوئے۔ ریحان صاحب تو بات چیت میں کبھی کبھار لقمہ دے ہی ڈالتے تھے۔ لیکن اُن کے ساتھ بیٹھے عمران صاحب، بالکل خاموش ”تصورّ جاناں“ کیے نظر آئے۔
اُدھر خواتین کے کمرے سے بھی لگاتار بات چیت کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلہ کے جاری و ساری ہونے کا عندیہ ملتا رہا۔ یاد رہے عاصم صاحب کی بیگم کے علاوہ بھی اُن خواتین میں دو Converted خواتین تھیں۔ یہاں پاکستانی مرد اِن گوری خواتین کو Converted کی بجائے Reverted گردانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پیدائشی طور پر سبھی مُسلمان ہوتے ہیں تو پیدائش کے بعد اگر کوئی کرسچئن، ہندو، پارسی، اسلام قبول کرلیتا ہے تو وہ پھر جب اپنی واپسی ڈالتا ہے تو وہ Revert ہو کر مسلم ہوتا ہے۔ سڈنی کے اُس ایریا میں جہاں ہم اب رہائش رکھتے ہیں Quankers Hills میں اور اِسی طرح کے ایک ساتھ جُڑے ہوئے کئی دُوسرے ایریا مثلاً Vol Kam Hill وغیرہ ہیں، یہاں کے رہائشی مُسلم نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اِس علاقہ میں Reverted گوری عورتوں کی تعداد باقی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔
دس بجنے کو تھے تو سبھی حرکت میں آگئے۔ خواتین بھی اپنے اپنے گھر جانے کے لیے تیاّری کرنے لگیں تو اِس طرح عاصم صاحب کی ایک پُر تکلف دعوتِ افطار کے بعد سبھی مہمانانِ گرامی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -