باعزت ریٹائرمنٹ

   باعزت ریٹائرمنٹ
   باعزت ریٹائرمنٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مبارکبادوں کی بہت سی اقسام ہیں،اُن میں ایک قسم ملازمت سے باعزت ریٹائرمنٹ پر دی جانے والی مبارکباد کی بھی ہے۔جب میں سرکاری ملازمت میں نہیں آیا تھا تو ایسی کسی مبارکباد سے ناآشنا تھا۔ملازمت میں آنے کے بعد جب کبھی کوئی سینئر پروفیسر مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر  ہوتا اور اُس کے اعزاز میں الوداعی تقریب منعقد  کی جاتی تو ہر مقرر یہ ضرور کہتا،باعزت ملازمت سے ریٹائرمنٹ اللہ کا کرم ہے، اس پر ریٹائر ہونے کو مبارکباد بھی دی جاتی۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ راز کھلا ریٹائرمنٹ سے پہلے دورانِ ملازمت جو کڑے مقام آتے ہیں اُن سے بچ بچا کر جب کوئی سرکاری ملازم60 سال کی عمر کو پہنچتا ہے، اُس کی پنشن نہیں رکتی،اُس کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہو رہی ہوتی،ریٹائرمنٹ کے وقت وہ معطل نہیں ہوتا اور ریٹائرمنٹ کا آرڈر اُسے مل جاتا ہے، تواُس کو  باعزت ریٹائرمنٹ کہتے ہیں جب میں ایک سرکاری کالج کا پرنسپل بنا تو ایک بار علاقے کا ایم پی اے میرے پاس آیا۔اُس نے ایک آدمی کی سفارش کی کہ اسے کالج کینٹین کا ٹھیکہ دے دیا جائے۔میں نے کہا کینٹین کی تو قواعد کے مطابق نیلامی ہو گی اور جو زیادہ بولی دے گا اُس کو دی جائے گی۔ اِس پر وہ خفا  ہو گیا۔ اُس نے پہلے مجھے تبادلہ کرانے کی دھمکی دی،لیکن جب اُسے ساتھ آئے ہوئے ایک شخص نے کان میں بتایا اُن کا عرصہ چھ ماہ سے کم رہ گیا ہے اور تبادلہ نہیں ہو سکتا تو اُس نے کہا میں تمہاری پنشن رکوا دوں گا۔میں نے اُسے کا پنشن کا تو ابھی وقت نہیں آیا،آئے گا تو تو دیکھا جائے گا۔اس پراُس نے وہ جملہ کہا جو اکثر کہا جاتا ہے، باعزت ریٹائرمنٹ ایک انعام ہے،ابھی ریٹائرمنٹ خراب نہ کرو۔میں نے دست بستہ عرض کی، جو کام آپ کرانا چاہتے ہیں،اُس سے باعزت ریٹائرمنٹ نہ ہونے کا چانس زیادہ ہے، اس لئے یہ دھمکیاں نہ دیں اور اپنے بند سے کہیں نیلامی میں حصہ لے۔وہ غصے سے پیر پٹکتے چلے گئے اور چند ماہ بعد میں عزت سے ریٹائر ہو گیا،یعنی مجھ پر کوئی انکوائری نہیں تھی، کرپشن یا ناجائز اختیارات کا کوئی کیس نہیں تھا، ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے پہلے میری پنشن کے آرڈر آ گئے تھے اور آخری دن کالج میں گزار کے میں خوشی خوشی گھر آ گیا تھا لیکن میں اس سوال پر اکثر غور کرتا ہوں کہ باعزت ریٹائرمنٹ کا مطلب کیا صرف یہی ہے؟ میں نے تو ایسے ایسے سرکاری افسروں، ملازمین اور پروفیسروں کو بھی دیکھا ہے، جنہوں نے اپنے دور میں جی بھر کے غلط کام کئے، کرپشن اور ناجائز اختیارات کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ریٹائرمنٹ پرانہیں تمام مراعات بھی مل گئیں اور آخری دن اُن کے اعزاز میں بھرپور تقریب بھی ہوئی۔کیا اُن کے بارے  میں بھی یہی کہا جائے گا وہ باعزت ریٹائر ہوئے اور مبارکباد کے مستحق ٹھہرے۔ یہاں یہ نہیں بھولنا چاہئے ہمارے ہاں کرپٹ ترین محکموں میں ایک محکمہ آڈٹ کا بھی ہے۔اس محکمے کی آڈٹ ٹیمیں جس ادارے کا آڈٹ کرنے جاتی ہیں اُس کا افسر اگر کرپٹ ہے تو بآسانی اُن کی آنکھیں بند کر دیتا ہے، کیونکہ آڈٹ ٹیمیں دعوتیں اڑاتی ہیں، اپنا حصہ مانگتی ہیں اور معمولی آڈٹ پیرے بنا کر چلی جاتی ہیں اصل میں تو شریف اور دیانتدار سربراہان رگڑے جاتے ہیں۔

ابھی چند روز پہلے ہی مجھے ایک کالج کے پرنسپل کا فون آیا، انہیں پرنسپل بنے چند ماہ ہوئے ہیں انہوں نے کہا سالانہ آڈٹ کے لئے ٹیم آئی ہوئی ہے۔اُس کی ہوٹل میں رہائش اور کھانے کا بِل میرے کلرک کالج فنڈز سے دینے کا کہہ رہے ہیں۔کیا مجھے یہ اختیار ہے؟ میں نے کہا نہیں، اختیار تو کوئی نہیں، نہ ہی کوئی ایسی مد ہے جس سے یہ رقم نکالی جا سکے، وہ کہنے گلے پھر کیا کریں۔کلرک تو یہ بھی کہتے ہیں ٹیم کو جاتے وقت بیس تیس ہزار روپے بھی دینے پڑیں گے، وگرنہ بڑے بڑے آڈٹ اعتراضات لگا دیں گے۔ میری تو ریٹائرمنٹ بھی قریب ہے، یہ عذاب کیسے ٹلے گا۔ اب میں اُسے کیا جواب دیتا۔اگر کہتا جرأت کا مظاہرہ کرو، انکار کر دو تو اُس کی اتنی سکت نہیں تھی،پیسے دینے کا کہتا تو وہ بعد میں مجھے ہی الزام دیتا رہتا کہ اُن کے کہنے پر پیسے دیئے۔میں نے کہا بہتر ہے اپنے عملے سے اس بارے میں مشورہ کریں اور وہ جیسا کہیں کر لیں تو صاحبو واقعی باعزت ریٹائرمنٹ تک پہنچتے پہنچتے بہت سے کشٹ کاٹنے پڑتے ہیں۔بہت سے پل صراطوں سے گذرنا پڑتا ہے، مگر میرا پھر سوال یہی ہے کیا باعزت ریٹائرمنٹ صرف اسی کا نام ہے کہ ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن ہاتھ آ جائے۔ واجبات مل جائیں اور پنشن جاری ہو جائے،اگر تو اسی کو باعزت ریٹائرمنٹ کہتے اور اس کے حصول پر مبارکباد دی جاتی ہے تو میرے نزدیک یہ ایک بڑی سطحی سی بات ہے اس میں ایک خود غرضی ہے،اس کی خاطر جو کام کئے جاتے ہیں وہ اسے ایک گھٹیا عمل بھی ثابت کرتے ہیں۔

میرے سکول کے ایک استاد عبدالمجید مرحوم کہا کرتے تھے اگر کسی کو منصب ملتا ہے اور وہ منصب اُس کی عزت و توقیر میں اضافے کا باعث نہیں بنتا،بلکہ گلے کا طوق بن جاتا ہے تو وہ شخص دنیا کا بدقسمت ترین شخص ہے،وہ اس سے بھی زیادہ بدنصیب ہے جسے زندگی میں کوئی اختیار نہیں ملا اور وہ اسی حالت میں زندگی گزار کے چلا گیا۔اُن کی اس بات کے پیمانے پر جب میں اپنے اردگرد کے ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جن کے پاس اختیار ہے،منصب ہے مگر وہ اسے اپنی عزت بڑھانے کی بجائے گنوانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں تو مجھے اُن کی حالت پر ترس آتا ہے۔آپ تاریخ کے کوڑا دان میں دیکھیں کیسے کیسے بااختیار ذلت و رسوائی کا طوق پہنے موجود ہیں اپنے ملک کی تاریخ ہی اُٹھا کر دیکھ لیں،جب تک منصب پر رہے کروفر میں زندگی گزاری اور ریٹائر ہوئے تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔پنشن انہیں بھی مل رہی ہے، مگر عزت نہیں ملی، ریٹائر وہ بھی ہو گئے مگر باعزت نہیں ہوئے کہ لوگوں کے دِل میں اُن کے لئے نفرت موجود رہی۔ موت کا تو پتہ نہیں ہوتا البتہ کسی بھی سرکاری ملازم کو اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کا پتہ ضرور ہوتا ہے،اگر اِس کے باوجود ان کی گردنیں غرور سے اکڑی رہتی ہیں وہ اپنے منصب سے خلق ِ خدا کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے اُن کی راہ میں کانٹے بکھیرتے ہیں،اپنی امارت کو بڑھانے اور دنیا سنوارنے کے لئے رشوت، کرپشن اور لوٹ مار کو اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں تو بھول جائیں کہ وہ کبھی باعزت ریٹائر ہوں گے، لوگ اُن کی ریٹائرمنٹ پر شکر ادا کریں گے،انہیں ایک قابل ِ نفرت کردار کے طور پر یاد رکھیں گے یہ کوئی افسانوی بات نہیں،اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں توایسے کردار جا بجا نظر آئیں گے۔باعزت ریٹائرمنٹ سیاست سے ہو یا ملازمت سے واقعی ایک بہت بڑی نعمت ہے،بشرطیکہ عزت عوام کے دِلوں میں ہو۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -