دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر57
اس میں ایک عجیب سی روشنی تھی جس کی بنا پر میری آنکھیں دوبارہ روشن ہوگئیں اور میں اندھیرے میں واضح طور پر دیکھنے کے قابل ہوگیا۔
’’ہر شخص کو اس کا نامۂ اعمال دے دیا گیا ہے اور یہی نامۂ اعمال اب میدان حشر کی سیاہ رات میں روشنی بن چکا ہے۔ اب سوائے منافقین کے ہر شخص کے پاس روشنی ہے۔‘‘، صالح نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا۔
’’اب کیا ہوگا؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔
’’اب یہاں سے ہم لوگ نیچے جائیں گے۔ تمام امتیں اپنے انبیا کی قیادت میں جنت کی طرف روانہ ہوں گی۔‘‘
’’جنت کا راستہ کس طرف ہے؟‘‘، میں نے سوال کیا۔
’’عرش کے بالکل قریب ہے۔ عرش کے پیچھے داہنے ہاتھ کی سمت جہاں آسمان پر جنت کا نظارہ نظر آرہا تھا وہیں سے جنت کا راستہ ہے۔ مگر یہ راستہ جہنم کی کھائی کے اوپر سے گزرتا ہے جہاں ہر سمت اندھیرا ہے۔ جس کے پاس جتنی زیادہ روشنی ہے وہ اتنی ہی آسانی اور تیزی سے جہنم کے اوپر سے گزر جائے گا۔‘‘
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ۔۔۔قسط نمبر56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’اس کا مطلب ہے کہ ایک امتحان ابھی مزید باقی ہے۔‘‘
’’نہیں یہ امتحان نہیں۔ دنیا کی زندگی کی تمثیل ہے۔ جو جتنا زیادہ خدا کا وفادار اور اطاعت گزار رہا اور زندگی کے پل صراط پر استقامت اور یکسوئی کے ساتھ خدا کی سمت بڑھتا رہا وہ اتنی ہی آسانی اور تیزی سے جنت کی سمت بڑھے گا۔ لیکن ہلکے یا تیز سارے داہنے ہاتھ والے یہاں سے گزر جائیں گے۔ سوائے منافقین کے جو ایمان و عمل کی روشنی کے بغیر اس کھائی کو پار کرنے کی کوشش کریں گے اور جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں جاگریں گے جہاں انہیں بدترین عذاب دیا جائے گا۔‘‘
’’میرے گھر والے کیا میرے ساتھ ہوں گے؟‘‘، میں نے سوال کیا۔
’’آج یہ آخری سفر سب کو تنہا طے کرنا ہے۔‘‘، صالح نے دوٹوک جواب دیا۔
’’پھر وہ گروہ در گروہ جنت میں جانے والی بات کا کیا ہوا؟‘‘، میں نے سوال اٹھایا۔
’’گروہ در گروہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر امت اپنے نبی کی سربراہی میں جنت کے دروازے تک پہنچے گی۔ مگر جنت میں داخلہ فرداً فرداً اپنے ذاتی اعمال کی بنیاد پر ہوگا۔‘‘، پھر اس نے قدرے توقف کے بعد پوچھا:
’’کیا تم ابھی بھی کوئی تماشہ دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہو؟‘‘
میرے ہاں کہنے سے قبل ہی وہ مجھے لے کر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ یہاں تک کہ ہم ایک ایسی جگہ آگئے جہاں لوگوں کے پاس بے حد تیز روشنی تھی۔ ان کی روشنی ان کے آگے آگے اور دائیں سمت میں ان کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ وہ بلند آواز سے کہہ رہے تھے اے ہمارے رب! ہمارے نور کو پورا رکھیو اور ہمیں معاف کردے۔ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ میں صالح سے کچھ پوچھے بغیر ان لوگوں کو پہچان گیا۔ یہ صحابہ کرام تھے۔ ان سب سے آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کی ذات سراپا نور بنی ہوئی تھی۔ میں ان لوگوں کی پیروی میں انھی کے الفاظ دہرانے لگا۔ یہ وہ قرآنی دعا تھی جو میں زندگی بھر پڑھتا رہا تھا۔ لیکن اس دعا کو پڑھنے کا اصل وقت اب آیا تھا۔ ہم اسی طرح چل رہے تھے کہ صالح نے کہا :
’’اب تماشہ دیکھو۔‘‘
اس کے ساتھ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ دوڑتے، گرتے پڑتے صحابہ کرام کے پاس آئے۔ مگر ان کے پاس کوئی روشنی نہیں تھی۔ انہوں نے آتے ہی دہائی دینا شروع کردی کہ ہمیں بھی اپنی روشنی میں سے تھوڑا سا حصہ دے دو۔ صحابہ میں سے بعض نے اپنے پیچھے میدان حشر کے سیدھے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ ہم تو یہ روشنی پیچھے سے لے کر آئے ہیں تم بھی پیچھے لوٹو اور وہاں سے روشنی لے لو۔ یہ سن کر سارے منافقین جلدی سے اس سمت بھاگے۔ مگر جیسے ہی انہوں نے داہنے طرف جانے کی کوشش کی انہیں معلوم ہوا کہ یہاں تو ایک دیوار موجود ہے۔ اس دیوار میں بعض مقامات پر دروازے بنے ہوئے تھے جن پر فرشتے تعینات تھے۔ ان لوگوں نے ان دروازوں سے اندر جانے کی کوشش کی لیکن فرشتوں نے انہیں مار مار کر وہاں سے بھگادیا۔ ان کے پاس روشنی حاصل کرنے کی کوئی شکل نہیں رہی۔ چنانچہ وہ دوبارہ لوٹ کر صحابہ کرام کے پاس واپس آگئے اور ان سے کہنے لگے کہ دیکھیے ہم بھی مسلمان ہیں اور دنیا میں آپ کے ساتھ ہی تھے۔ آپ کو تو معلوم ہے۔ ہماری روشنی کے لیے آپ کچھ کیجیے۔ جواب ملا: بے شک تم ہمارے ساتھ تھے لیکن تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا، تم اس دن کے بارے میں شک میں رہے اور تمھارا اصل مقصود دنیا کی زندگی ہی تھی۔ تم نے شیطان کی پیروی کی اور اس نے تمھیں دھوکے میں ڈالے رکھا۔ سو نہ آج تم کچھ دے دلا کر چھوٹ سکتے ہو نہ کوئی کافر۔
یہ سن کر منافقین کو یقین ہوگیا کہ ان کا انجام بھی کفار سے مختلف نہ ہوگا۔ پیچھے جانے میں انہیں نقصان محسوس ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اندھیرے ہی میں راستہ پار کرنے کی کوشش کی۔ مگر روشنی کے بغیر اس کوشش کا نتیجہ جہنم کی کھائی تھی۔ چنانچہ ایک ایک کرکے سارے منافقین چیختے چلاتے ہوئے جہنم میں جاگرے جہاں نیچے عذاب کے فرشتے ان کا انتظار کررہے تھے۔ ہم یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے اور بلند آواز سے یہ دعا پڑھتے ہوئے عرش کی سمت بڑھتے رہے:
’’اے ہمارے رب ہمارے نور کو بجھنے نہ دے اور منافقین کے انجام سے ہمیں بچاتے ہوئے ہماری بخشش فرما۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘(جاری ہے)
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر58 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)