شریف آدمی ( حصہ دوم )
غفور صاحب بھی باہر کے پڑھے ہوے ہیں۔پوچھنے لگے تو آپکے خیال میں مغربی دنیا سے پڑھے لکھے لوگ جب واپس آئیں تو انہیں کیا کرنا چاہیے؟ میں نے عرض کی غفور صاحب آپ مغرب میں رہے ہیں۔ آپ لائن میں کھڑے ہوتے رہے ہیں نا؟ بولے ہاں۔ کیا آپ نے کبھی لائن توڑی ہے؟ بولے کبھی نہیں توڑی۔ غفور صاحب کبھی آپ نے فائیر برگیڈ اور ایمبولینس کے علاوہ ہوٹر بجتے ہوے گاڑیاں گزرتی دیکھی ہیں؟ بولے کبھی نہیں دیکھی۔ کنڈکٹر، چوکیدار، چپراسی، ذاتی ڈرائیور ترقی یافتہ دنیا میں دیکھے آپ نے؟ بولے نہیں دیکھے۔ غفور صاحب آپکو تو معلوم ہے آٹومیشن اور ٹیکنالوجی نوکریاں کھاگئی ہے۔ایک انقلاب آنے کو ہے جس کے لیے مغربی دنیا بھی نروس ہے۔
غفور صاحب آپکو معلوم تو ہے نا کہ روبوٹ ٹیکنالوجی بچی کچھی نوکریاں کھا جاے گی۔ اور بے روزگاری مغربی دنیا کے لیے چیلنج ہے۔غفور صاحب بولے اللہ تعالی نے یہ کائنات اور دنیا پیدا کی ہے وہی اسکی رکھوالی بھی کرے گا۔ان باتوں کا یہاں کیا ڈھنڈورا پیٹنا۔ اللہ خیر کرے گا۔ نماز پڑھا کرو۔ اللہ تعالی پر ایمان کو پختہ کرنا چاہیے۔ جن لوگوں کا ایمان پختہ ہے وہ اس طرح کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔میں نے پہلو بدلا اور سوچ میں پڑھ گیا کہ اب کیا با ت کریں؟
میں نے عرض کی غفور صاحب جب سیاستدانوں کے پاس دلیل ختم ہوجاتی ہے تو وہ مذہب کا باشن دینے لگتے ہیں۔ آپ سیاستدان ہیں کیا؟ آپکو معلوم ہے مغرب میں مذہب کا حوالہ دے کر نہ دلیل ٹالی جا سکتی ہے اور نہ ہمدردی اور رعایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔ کارکردگی دکھانا پڑتی ہے۔ ذمہ داری نبھانا پڑتی ہے وہاں تووہ کہتے ہیں مذہب ذاتی معاملہ ہے۔ جب روز محشر کسی اور کی سفارش نہیں چلنی تو مذہب ذاتی معاملہ ہوا نا۔
اگر ایک مغربی کمپنی آپکے ملک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے تو اسے مذہبی باشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہ اپنی عینک سے دیکھے گی کہ آپکے سسٹم میں کتنی شفافیت ہے؟ لا اینڈ آرڈر پر کوئی کمپرومائیز تو نہیں ہے۔
ایک باہر کی کمپنی کے پاس سرمایہ کاری کے بہت سے مواقع ہیں وہ ان میں سے ایک آ پشن سیلیکٹ کرے گی جو سب سے محفوظ ہوگا اور جو سب سے زیادہ منافع بخش ہوگا۔غفور صاحب کسی باہر کی کمپنی کو کیا کہہ کر قائل کریں گے کہ وہ وطن عزیز میں آکر سرمایہ کاری کرے؟ اور کرپشن پتہ ہے کہاں ہوتی ہے؟ جہاں سسٹم کمزور ہوتا ہے۔ ادارے کمزور ہوتے ہیں۔ تب آپ اور میں کرسی پر بیٹھ کہ کرسی گھمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کرسی گھمانے کی بھی کیا بات ہے؟ اپنا ہی مزہ ہوتا ہے اس کا بھی۔ غفور صاحب آپ کی کرسی گھومنے والی ہے یا سادہ ٹانگوں والی ہے؟
غفور صاحب اتنا سار ا مزاق سہہ جائیں گے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ بولے کرسی کی ٹانگوں کا نظام یا سسٹم کے مضبوط ہونے سے کیا تعلق ہے آپ کے ذہن میں؟ میں نے عرض کی جب قانون سازی ناقص ہے ۔ سسٹم کا انفراسٹرکچر کمزور ہے تب کرسی کی گرفت قانون پر بھاری ہوتی ہے۔ تب کرسی اپنی مرضی سے گھومتی ہے۔اخلاقیات اور مذہب کا جتنا بھاشن دیں، کرسی کی مرضی مانے یا نا مانے۔ گھومنے والی کرسی میں لچک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ دائیں سے بائیں ، اوپر سے نیچے حدیں پھلانگ پھلانگ جاتی ہے۔قابو میں ہی نہیں آتی۔ سرکش ہوئی جاتی ہے۔ جتنی گھومنے والی کرسیاں سرکش ہوں گی۔ اتنا سٹیٹ فنکشنز اور ایفی شنسی ویک ہوگی۔
غفور صاحب ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان اپنا ملک چھوڑ کر باہر نہ جائیں۔ آپ برین ڈرین سمجھتے تو ہیں نا۔ آپ کا پڑھا لکھا نوجوان ملک چھوڑ کر جاتا ہے اور اپنا ٹیلنٹ کسی اور ملک کو دے دیتا ہے۔ اس کو آپ نقصان نہیں سمجھتے کیا؟ وہ نوجوان ملک کیوں چھوڑتا ہے؟ اسے لگ رہا ہوتا ہے کہ گھومتی ہوئی کرسیوں نے اسے اس کا جائز حق نہیں دینا۔
غفور صاحب آپکو اس بات سے انکار ہے کہ جو بچہ آج نرسری جاتا ہے وہ آج سے پچاس سال بعد اگر زندہ رہا تو ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوے ہوگا۔ آپ اور میں گزری کہانی بن چکے ہوں گے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس بچے کے سر پر چھت رہے؟ اور اسے باقی دنیا میں وہی مقام حاصل رہے جس کا خواب وہ دیکھ رہا ہے۔ تو پھر ہر تنقید پر غور کیجیے۔ پھر کرسی کی انسلٹ پر سر پٹانا کیا ہوا؟ پھر پرسنل اتھارٹی نہیں بلکہ حق اور انصاف او ر قانون اور دستور کی بالا دستی پر یقین کرنا شروع کرلیجیے۔ پھر یہ نا دیکھیے کون کہہ رہا ہے ۔ یہ دیکھیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
غفور صاحب نے کروٹ بدلی او ر بولے ٹھیک ہی کہتے ہوگے یار تم۔ چلتا رہتا ہے سب کچھ۔تم سیاسست میں کیوں نہیں آ جاتے۔ غفور صاحب سیاست میں آنے سے آپ اور میں کتنا بدلاوا سکتے ہیں کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ایک بات عرض کیے دیتا ہوں کہ جب آپ سیاست کو سمجھ رہے ہیں تو سمجھ لیں آپ سیاست میںہیں۔ سیاست کا ایک بڑا سادہ پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کی جانکاری میں شامل ہو کہ آپ کی جگہ کون بول رہا ہے؟ ٰکیا بول رہا ہے؟ آپ کے حقوق کا تحفظ ہورہا ہے؟ پبلک ایکسچکر میں سے جائز حصہ آپکو مل رہا ہے؟ غفور صاحب آپکو معلوم ہے سٹیٹ کی رٹ کہاں سب سے کمزور ہوتی ہے؟ جہاں سٹیٹ پہنچ نہیں پاتی۔جہاں آپ جدید تہذیب کے کمیونیکیشن انفراسٹرکچر سے محروم ہوتے ہیں۔ غفور صاحب آپ حکومت اور سٹیٹ میں فرق سمجھتے ہیں نا؟