گوجرانوالہ میں محفلِ مشاعرہ
حکیم ا لامت،شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ کی 79 ویں برسی کے موقع پر گوجرانوالہ آرٹس کونسل نے تنظیم بقائے ثقافت پاکستان کے اشتراک سے آرٹس کونسل آڈیٹوریم میں ’’محفلِ مشاعرہ ‘‘کا انعقاد کیا۔اس مشاعرے کا مقصد شاعرِ مشرق کی ادبی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے فلسفہِ قومیت و خودی کو اجاگر کرنا تھا۔ ریذیڈنٹ ڈائریکٹر گوجرانوالہ آرٹس کونسل ڈاکٹر حلیم احمد خاں اور چیئرمین تنظیم بقائے ثقافت پاکستان چودھری اشرف مجیدکی کاوشوں سے یہ پُر وقار تقریب آرٹس کونسل آڈیٹوریم میں انعقاد پذیر ہوئی۔یہ دونوں احباب اپنے اپنے پلیٹ فارم سے یا اشتراک سے اکثر ایسی تقاریب کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔گوجرانوالہ کی علمی ،ادبی اور ثقافتی فضا کو معطر رکھنا ان اصحاب نے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا ہے۔اللہ ان کی کاوشوں پر ان کے درجات بلند فرمائے اور عزت و احترام میں اضافہ فرمائے،آمین۔
اس محفلِ مشاعرہ کی صدارت گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی ممتاز علمی و ادبی شخصیت معروف شاعر محمد اقبال نجمی نے کی۔ محمد اقبال نجمی کی اسی (80)کتب شائع ہو کر مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔منفرد اعزاز یہ ہے کہ 2012ء اور2014ء میں ادب کی مختلف اصناف میں ان کی بارہ بارہ کتب چھپ کر مارکیٹ میں آئیں اور تشنگان علم و ادب کی تشنگی مٹائی۔محمد اقبال نجمی کو ان کی خدمات پر صدارتی ایوارڈ سے نوازہ جا چکا ہے۔ بلاشبہ گوجرانوالہ کی سرزمین کو اپنے اس سپوت پر فخر ہے۔ایڈیشنل کمشنر (ریونیو) گوجرانوالہ ڈویژن عابد حسین اعوان مہمانِ خصوصی تھے۔ان کی زبانی ان کا کلام سن کر خوش گوار حیرت کا سامنا ہوا۔بلا شبہ ان کے یہاں خیالات کی فراوانی اور بیان کی روانی موجود ہے۔اگر وہ لفظوں کی نشست و بر خواست پر تھو ڑی اور توجہ فرمائیں تو ان کا کلام اردو ادب میں اپنا الگ مقام بنا نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔منفرد انداز کے حامل شاعر جناب امجد حمید محسن نے بطور مہمانِ اعزاز شرکت فرمائی۔ان کے علاوہ ملک کے نامور شعرائے کرام نے شرکت فرمائی اور حاظرین کو اپنے اپنے کلام سے محظوظ کیا اور خوب داد سمیٹی۔گوجرانوالہ کے علم، ادب پسند اورعلم و ادب پرور شرکاء نے اپنے جوش و خروش سے اس محفل کو آخر تک گرمائے رکھا۔جن قابل ذکر احباب نے اپنے سخن سے نوازا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔پروفیسر افضل سراج، عاطف کمال رانا،انصر علی انصر،غلام عباس،عطاء اللہ جوہر،ڈاکٹر احسان اللہ طاہر،سید توقیر رضوی،محمد انور رانا،محمد اکرم افلاک،دلشاد علی دلشاد اور بابو رمضان شاہد شامل ہیں۔دیگر شعرائے کرام نے بھی اپنا کلام پیش کیا، مگر ان کے نام یاد نہیں رکھ سکا، اس لئے ان اصحاب سے معذرت خواہ ہوں ترتیب کی غلطی کے لئے بھی معافی کا خواستگار ہوں۔یہاں پر تمام شعراء کے کلام کا نمونہ پیش کرنا ممکن نہیں ہے، سو چند احباب کے کلام سے ایک ایک نمائندہ شعر پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔اس مشاعرے میں پڑھے گئے چند اشعار سنیے اور سر دھنیے:
رہی باقی ہمیشہ تشنگی ہر روز ملنے کی
ادھوری قر بتوں کی شکل میں اپنی سزا کیا تھی
(ملک عابد حسین اعوان)
فنکار تیرے شہر میں مشہور کب ہوئے؟
محسنؔ بھی تیرے شہر میں گمنام سا رہا
(امجد حمید محسن)
رقص کرتے ہوئے اور خاک بسر کاٹا ہے
اے زمیں ہم نے ترے ساتھ سفر کاٹا ہے
(افضل سراج)
مجھے کوڑے لگائے جا رہے تھے
میں سمجھا تھا کہ اجرت مل رہی ہے
(عاطف کمال رانا)
رسم چل نکلی ہے تو انصر پھر نہ روکی جائے گی
رفتہ رفتہ سوئے مقتل شہر سارا جائے گا
(انصر علی انصر)
جگہ کی قلت کی وجہ سے باقی احباب سے معذرت،اسی سبب اپنا کلام بھی نہیں لکھا کہ احباب اسے ’’بہانہ‘‘ نہ سمجھیں یا اپنے ساتھ الگ رویہ اور آخر میں صدرِ محفل محمد اقبال نجمی کا شاعرِ مشرق کو بطور خراجِ تحسین کلام پیش کرکے اجازت:
شانِ قلندری سے وحدت کا گیت گایا
غفلت زدوں کو آکے اقبالؔ نے جگایا
بخشا خودی کا جذبہ اسلامیوں کو اس نے
اِک موت ہے غلامی اس نے ہمیں بتایا
اس نے ہمیں بتائے اسرارِ روحِ فطرت
مشرق کی سر زمیں پر رہبر وہ بن کے آیا
’’بانگِ درا‘‘ تھی اس کی پیغامِ سر بلندی
ہم گِر رہے تھے اس نے آکر ہمیں اٹھایا
’’ضربِ کلیم‘‘ اس کی تاب و تبِ یقیں تھی
جس کی صداقتوں سے ماحول جگمگایا
آدابِ زندگانی اس نے ہمیں بتائے
اس کی نوازشوں سے یہ ملک ہم نے پایا
تنویر فکر ودانش پھیلی جہاں میں ہر سُو
اس نے چراغِ حکمت راہوں میں جب جلایا
ہر سُو ہے فیض جاری اقبال ہی کا نجمی
جس نے پلٹ کے رکھ دی اصحابِ دل کی کایا