پٹھان قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔۔۔ پچاسویں قسط
ساکا خاندان کا آخری بادشاہ لگتور مان تھا۔ اس زمانہ میں ایک برہمن وزیر نے اس خاندان سے حکومت چھین لی اور ہندو برہمن شاہی خاندان کی بنیاد رکھ دی ،اس برہمن کا نام کلر یا للیہ تھا ۔تقریباً دو ہزار سال بعد دے ہند دوبارہ ہندوسلطنت کا مرکز بن گیا۔ دے ہند(ہنڈ) دریائے سندھ کے مغربی ساحل پر پشاور سے چودہ فرسخ(۵۶ میل) مشرق کی طرف واقع تھا(بحوالہ لیہ ونی)
ہندوؤں کی قدیم تاریخ پر ایک نظر
ڈاکٹر گستاؤلی بان تمدن ہند میں لکھتے ہیں کہ لفظ ہندو قومیت کے لحاظ سے کچھ معنی نہیں رکھتا۔
پٹھان قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔۔۔ انچاسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آریوں کا تیسرا جتھا مشرق کی طرف چلا۔ یہ لوگ راستہ کی تکلیفیں برداشت کر کے اپنے عیال و اطفال کے ہمراہ ہندوستان کی شمال مغربی سرحدپر پہنچے ۔عرصہ دراز تک دریائے سندھ پر رکے رہے۔ یہاں اس علاقے میں اس وقت کالی نسل کے لوگ یعنی کول اور دراوڑ آباد تھے۔ ایرانیوں نے چار ہزار سال قبل ان کا ہند نام رکھا تھا۔ ہند ایرانیوں کے ہاں بعمنی سیاہ و کالا تھا۔ جیسا کہ حافظ شمس الدین شیرازی کا ایک شعر ہے۔
اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بہ خال ہند تش بخشم سمر قند و بخارا را
کول اور دراوڑ کے مرکزی مقام کا نام انہیں کے سبب سیاہ یعنی ہند سے مشہور تھا۔ اور ہند کے قریب لاہور(لاہوار) بھی ان کا صدر مقام تھا اور یہاں ان کی انتظامیہ رہا کرتی تھی۔ مقصد یہ کہ ہند(دے ہند) اور لاہور(الاہوار) جو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع تھے۔ یہ دونوں شہر آریوں سے قبل موجود تھے۔ آریوں کے یہاں پہنچتے ہی ان سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ مختصر یہ کہ آریوں نے کول اور دراوڑ سے دریائے سندھ کے مغربی علاقہ پر جہاں ان کی بود وباش تھی زبردستی قبضہ کرکے ان کو پنجاب کی طرف جلا وطن کر دیا۔
آریہ نے کول اور دراوڑ کے شہر ’’ہند‘‘ اور لاہور کو بھی مرکزی مقام بنا لیا اور ان دونوں کے درمیان ایک عام بڑا شہر آریانا کے نام سے آباد کیا جو اس موجودہ وقت میں آریان کہلاتا ہے۔ ’’ہند‘‘ نام شہر میں بادشاہ کی رہائش اور دیگر خصوصی مکانات تھے اور تضحقیق علم کا مرکز بھی یہیں تھا۔ اور یہ شہر قلعہ بند تھا۔
آریہ لوگ پہلے ماد، مادی میدی اور میڈی کے ناموں سے اس وقت پکارے جاتے تھے۔ جب یہ خراسان اور اس کے متعلق علاقوں میں آکر بس گئے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ جلاوطن اسرائیلیوں نے ان کو آریا نام دیا ہوگا۔ وجہ یہ کہ یہ لوگ آگ کے پجاری تھے تو انہوں نے دیکھ کر اسے آرین سے یاد کیا ہوگا۔ آرین یعنی آگ والے جس کا مطلب آگ کے پجاری ہے جو پشتو لفظ ہے موسوم کیا ہوگا۔ آربمعنی آگ اور لفظ ’’ن) نسبت کے لئے جیساکہ پمن، مانگین، خاورین وغیرہ معلوم رہے کہ آرنام کا شہر حضرت ابراہیم ؑ کا مسکن تھا۔ اس شہر میں آگ کی پرستش کی جاتی تھی۔ اور اس شہر میں ہمیشہ آریعنی آگ جلنے کے سبب یہ آر کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ الغرض آرین یعنی آگ کے پجاری جو ایک مذہبی نام معلوم ہوتا ہے یعنی جو لوگ اس عقیدے کے قائل تھے وہ آرین، آریا پکارے گئے اور جب یہ آریا لوگ ہند (دے ہند) پہنچے اور یہاں سکونت اختیار کی اور اس کے علاوہ حکومت بھی بنا لی تو اسی ہند کے وجہ سے ہندو مشہور ہوئے۔ لفظ (د) نسبت کے لیے ہے یعنی ہند والے یا ہند کے باشندے مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہندو نام نہ نسب کے وجہ سے اور نہ مذہب کی وجہ سے ہے بلکہ یہ مسکن ہند کی نسبت کے لیے معلوم ہوتا ہے جس کے سبب یہ ہندو کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہاں انہوں نے کافی عرصہ بعد ہندی زبان بنائی۔
اگرچہ پہلے وقت میں یہ اقوام ایک ہی زبان بولتی تھیں جس کا نام اریک تھا۔ اور پھر سنسکرت کی بنیاد رکھی۔ ابتدائی وید نامی کتاب بھی یہاں بنائی گئی تھی۔ وید بھی دے ہند کا مخفف معلوم ہوتا ہے۔ یہاں انہوں نے اور بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان مذکورہ تصانیف میں پختون قوم کے علماء سے زیادہ امداد لی گئی ۔ان علماء میں پنی (پنڑی) اور جلو کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی لاہور کے مغربی حصہ میں پنی (پنڑی) کی جائے رہائش کے آثار اسی کے نام سے آج تک موجود ہیں۔ ہندوؤں کی ریاست جب ’’ہند‘‘ میں مضبوط ہوئی اور جتنے علاقے اس کے زیر اثر آئے اس علاقے کا نام ہندوستان ہوا۔ یعنی راجدانی ہند کا زیر اثر علاقہ اور عرصہ دراز گزارنے کے بعد دریائے سندھ جس کا پشتو نام اباسین ہے جو عبرانی نام دریائے آبانا کے مترادف ہے کو عبور کرکے پنجاب میں داخل ہوئے۔ یہاں انہیں اصلی باشندوں سے سخت مقابلہ کرنا پڑا۔ لیکن آریا اصلی باشندوں کی نسبت زیادہ مضبوط اور فن جنگ میں ماہر تھے۔ آخر فریق مخالف پر غالب آئے اور دن بہ دن تمام موجودہ شمالی ہندوستان پر قابض ہوئے۔ بعد میں اسی علاقے کا نام بارت یا بھارت مشہور ہوا۔ قیاس کیا جاتاہے کہ بارت یا بھارت عبرتا سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ عبرتا آرامی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں جائے عبور ۔مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جب ان لوگوں نے دریائے سندھ عبور کیا تو بارتی کہلائے اور اس پار علاقے کا نام بارت ہوا۔ یہ نام بھی اسرائیلیوں کا رکھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ یہاں ہندوؤں سے پہلے جو قوم رہتی تھی وہ سیاہ یعنی لالے تھے اور اسی سبب ان کے مرکزی مسکن کو ہند کہا جاتا تھا مگر آریا سرخ سفید رنگ کے تھے لیکن یہ ان کالے لوگوں کے وارث بننے کے سبب سے بھی ہندو مشہور ہوئے۔ آریا یعنی مادی یا میدی لوگ اسرائیلی جلا وطنوں سے کافی عرصہ پہلے ملک خراسان اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں آباد تھے اور نینوا کے اشوریوں کے ماتحت ایک کمزور زندگی گزارتے تھے ۔پہاڑوں سے اترے ہوئے وحشی اور جاہل قسم کے لوگ تھے۔ تعلیم و تمدن سے بے بہرہ تھے۔ ان میں نہ کوئی سیاسی شعور تھا اور نہ کوئی تنظیم یا حکومت ۔یہ تو ان کی خوش قسمتی سمجھئے کہ اسرائیلی جلا وطنوں کے جتھے درجتھے یکے بعد دیگر ان کے ہاں بسانے کے لیے اشوری بادشاہوں نے شام اور نینوا سے بھیج دیئے۔
واضح ہو کہ اسرائیلیہ کا پہلا جتھہ شاہ اشوری پال یا پلول کے ہاتھوں جلا وطن ہوا جوکہ سات سو اکہتر برس قبل از میسح تھا۔ ان جلا وطنوں میں روبن اور جد کے دو قبیلے تھے۔ جد کی اولاد اس وقت تک افغانستان میں آباد ہے اور جدرانی کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔
جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔