دینی مدارس کے طلبہ میں شیلڈز کی تقسیم
اچھے کام کی تحسین کرنا انسانیت کا حسن اور تہذیب و شائستگی کی علامت ہے۔ موجودہ حکومت سے اگرچہ بہت سے معاملات میں اختلاف کیا جا سکتا ہے، تاہم حکومت کے اچھے کاموں کو سراہنا بھی ضروری ہے، جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ دِنوں اسلام آباد میں چاروں مسالک کے وفاق المدارس(دینی مدارس کے تعلیمی بورڈز)کے تحت ہونے والے امتحانات کے پوزیشن ہولڈر طلبہ کو اپنے ہاتھ سے شیلڈزدی ہیں۔بلاشبہ یہ بہت ہی اچھافیصلہ ہے، جس کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔پاکستان میں سب سے پہلے جنرل ضیاء الحق شہیدؒنے دینی مدارس کوان کا صحیح مقام واحترام دیا تھا۔چاروں مسالک کے دینی مدارس کے تعلیمی اور امتحانی نظام کو بہتر بنانے کے لئے وفاق المدارس (امتحانی تعلیمی بورڈ) قائم کئے گئے۔
دینی مدارس کی اسناد کو میٹرک، ایف اے،بی اے اورایم اے کے مساوی تسلیم کیا گیا اور طلبہ کو افواج پاکستان، محکمہ تعلیم اور دیگر محکموں میں باعزت روزگار دیا گیا۔ سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے دور میں بھی دینی مدارس کے طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور وفاق المدارس کے امتحانات میں نمایاں تعلیمی کارکاردگی کی بنیاد پر اعزاز و اکرام سے سرفراز کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ موجودہ حکومت نے نہ صرف یہ سلسلہ قائم رکھا، بلکہ اسے آگے بھی بڑھایا ہے۔غالباً پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم ہاؤس کے دروازے دینی مدارس کے طلبہ کے لئے کھولے گئے اور وزیراعظم عمران خان نے اپنے ہاتھ سے طلبہ کو شیلڈز پیش کی ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ یہ سلسلہ قائم رکھا جائے۔
عام طور پر پاکستان میں حکومتیں سکولز،کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ ہی کو لائق اعتنا سمجھتی ہیں،بلکہ ہمارے مغرب زدہ طبقے کے نزدیک دینی تعلیم کوسرے سے تعلیم ہی نہیں گردانا جاتا اور نہ ان طلبہ کو پڑھا لکھا شمار کیا جاتا ہے، حالانکہ دینی مدارس کے طلبہ سکول و کالجز کے طلبہ سے زیادہ باشعور، مہذب اور شائستہ ہوتے ہیں۔ان حالات میں ضرورت اس امرکی ہے کہ یہ سلسلہ نہ صرف قائم رکھا جائے، بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا جائے۔
وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ سے شیلڈزلینے والوں میں وفاق المدارس السلفیہ کے تین طلبہ بھی شامل تھے،جنہیں وفاق المدارس کے آخری امتحان العالمیہ(ایم اے عربی ایم اے اسلامیات کے مساوی امتحان) میں اول دوم سوئم پوزیشنیں حاصل کرنے کی بنیاد پر شیلڈز ملی ہیں۔ان میں سے دوطالب علم حافظ ابوبکر صدیق اورحافظ مطیع الرحمن مکی کا تعلق الرحمہ انسٹیٹیوٹ سے ہے۔ایک طالب علم پاکستان کے معروف تعلیمی ادارے جامعہ سلفیہ فیصل آبادکا ہے۔الرحمہ انسٹیٹیوٹ کے دو طلبہ کا وزیراعظم کے ہاتھ سے شیلڈز لینا بہر حال ایک اعزاز اور ادارے کے چیئرمین عبدالمالک مجاہد، حافظ عبدالعظیم اسد (مدیر الجامعہ)، مولانا محمد ندیم شیخ (مدیر التعلیم) اور جملہ اساتذہ کرام کی بہترین تعلیمی کارکردگی کا زندہ ثبوت ہے۔
اعزازات اور انعامات لینا ہر کسی کے بس میں نہیں۔ مقدر والے بچے ہی کامیابیاں حاصل کرتے، انعامات لیتے، معاشرے میں عزت پاتے اور والدین کا نام روشن کرتے ہیں۔ایسے بچے جو محنتی،شریف النفس اور والدین و اساتذہ کے اطاعت گزار ہوں۔حافظ ابوبکر صدیق اور حافظ مطیع الرحمن مکی میں یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ دونوں طالب علم…… عبادات، معاملات، اخلاق وکردار، پڑھائی، حاضری،صفائی ستھرائی اورنظم وضبط میں مثالی ہیں۔
الرحمہ انسٹیٹیوٹ واربرٹن گزشتہ چھ سال میں تسلسل کے ساتھ وفاق المدارس السلفیہ کے امتحانات میں اب تک آل پاکستان15 پوزیشنیں حاصل کرنے کا اعزاز بھی اپنے نام کر چکا ہے، علاوہ ازیں علوم عصریہ میں بھی یہ ادارہ اپنی مثال آپ ہے۔علوم عصریہ کے امتحانات میٹرک اور ایف اے میں 70 سے زائد طلبہ پنجاب گورنمنٹ سے سکالر شپ اور سولرانرجی سسٹم حاصل کر چکے ہیں۔ گزشتہ سال سعودی عرب کے ایک موقر ادارے موسسۃ البنیان نے انڈونیشیا میں 40 ممالک میں میرٹ کی بنیاد پر ہر ملک سے صرف ایک طالب علم کا انتخاب کیا ہے،
جس میں فاضل طلبہ کو نو سال کے عرصے میں پی ایچ ڈی تک تعلیم دی جائے گی۔پاکستان بھر سے یہ اعزاز دارالسلام ایجوکیشنل سسٹم کے ہونہار طالب علم حافظ صہیب احمد کو حاصل ہوا ہے۔اس طرح دارالسلام ایجوکیشنل سسٹم کے کئی طلبہ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے ایم فل بھی کر رہے ہیں۔ دارالسلام ایجوکیشنل سسٹم کے چیئرمین جناب عبدالمالک مجاہد کہتے ہیں:ہمارے لئے بہت خوشی کا مقام ہے کہ الرحمہ انسٹیٹیوٹ کے دو طلبہ نے اعلیٰ تعلیمی کارکردگی کی بنیاد پر وزیراعظم پاکستان سے شیلڈز وصول کی ہیں۔ یہ کامیابی اللہ کے خاص فضل وکرم کے بعد حافظ عبدالعظیم اسد (مدیر الجامعہ)، مولانا محمد ندیم شیخ (مدیر التعلیم)اور جملہ اساتذہ کی محنت اور کوشش وکاوش کا ثمر ہے۔الرحمہ انسٹیٹیوٹ کے قیام کواگرچہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے،تاہم اس ادارے کے طلبہ عصری تعلیم، دینی تعلیم،تحریر و تقریر، الغرض ہر میدان میں کامیابی وکامرانی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ اس وقت یہ انسٹیٹیوٹ پاکستان کے دیگر تعلیمی اداروں کے لئے روشن مثال بن چکا ہے۔
دارالسلام ایجوکیشنل سسٹم کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ دینی اداروں کے طلبہ کو وزیراعظم ہاؤس میں بلا کر اعزاز و اکرام دینا لائق تحسین روایت ہے۔ اس اقدام سے یقینا دینی اداروں کے بچوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ادارہ بھی ان ہونہار طلبہ سے بجا طور پر توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنے مستقبل میں اپنے اس اعزاز کی حفاطت کریں۔اللہ تعالیٰ انہیں مزید کامیابیاں و کامرانیاں نصیب فرمائے۔ آمین!حافظ مطیع الرحمن مکی،حافظ ابوبکر صدیق اور دیگر طلبہ جس ادارے کانام روشن کر رہے ہیں، آیئے آپ کو مختصراً اس ادارے کا تعارف کرواتے چلیں۔ الرحمہ انسٹیٹیوٹ……دارالسلام ایجوکیشنل سسٹم کا ایک اسم بامسمیٰ مرکزی تعلیمی ادارہ ہے۔یہ ادارہ طلبہ کے لئے سلامتی کا گھر و امن کا گہوارہ، رحمت، محبت اور شفقت کاسائبان ہے۔نوجوان نسل کو اعلیٰ دینی و دنیوی تعلیم، اسلامی و اخلاقی اقدار سے روشناس کروانے اور معاشرے کا مفید شہری بنانے کا ایک مفید اور حسین مرکز ہے۔
الرحمہ انسٹیٹیوٹ میں اکثر وہ طلبہ زیر تعلیم ہیں جو دارالسلام حفظ ومڈل سکول سسٹم سے قرآن مجید حفظ کرتے اور مڈل کی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ طلبہ کی علمی ساخت و پرداخت اور کردار سازی میں ادارے کی انتظامیہ اور اساتذہ جو محنت کر رہے ہیں، اس سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ نوجوان مستقبل میں ان شاء اللہ ملک و ملت کا سرمایہ افتخار ثابت ہوں گے۔الرحمہ انسٹیٹیوٹ اسلامی و عصری علوم کا حسین امتزاج اور ایک بورڈنگ سکول سسٹم ہے جو تعلیم و تربیت کا ایک ممتاز ادارہ ہے۔ اس کا منہج و مقصد حقیقی عملی مسلمان اور بین الاقوامی معیار کے مطابق اسلامی ریسرچ سکالرز، مدرسین اور مبلغین تیار کرنا ہے۔ الرحمہ انسٹیٹیوٹ کا تعلیمی دورانیہ آٹھ سال پر محیط ہے، جس میں درسِ نظامی، وفاق المدارس السلفیہ پاکستان کے تحت ثانویہ عامہ (میٹرک)، ثانویہ خاصہ(ایف اے)، عالیہ(بی اے)اور عالمیہ (ایم اے) کے جملہ امتحانات اور حکومت پاکستان کے نصاب کے عین مطابق میٹرک سے ایم۔ اے تک ریگولر معیاری تعلیم کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ بعدازاں ہائر ایجو کیشن کے لئے اندرون و بیرون ملک یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی تک طلبہ کی عملی رہنمائی ادارے کا منشور ہے۔
طلبہ کی تعلیمی کارکردگی کو جانچنے کے لیے کسی بھی ادارے کا امتحانی نظام بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ الرحمہ انسٹیٹیوٹ کا امتحانی نظام انتہائی مضبوط، مربوط اور شفاف ہے۔ یہاں علوم اسلامیہ اور علوم عصریہ کا ماہانہ ٹیسٹ لیا جاتا ہے، پھر اس کے رزلٹ پر ماہانہ میٹنگ میں بحث کی جاتی ہے، اگر طلبہ میں کسی قسم کی تعلیمی کمزوری سامنے آئے تو اسے دور کرنے کا لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔فرسٹ سمسٹر اور فائنل سمسٹر کے امتحانات کے لئے نامور جامعات کے ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ تمام مضامین کازبانی و تحریری امتحان لیا جاتا ہے۔ ہر طالب علم کے لیے زبانی امتحان پاس کرنا ضروری ہے۔کسی بھی مضمون میں کامیابی کے لئے 50فیصد نمبرز حاصل کرنا ضروری ہے، جبکہ ممتاز درجہ حاصل کرنے کے لئے 90فیصد نمبرز مقرر کئے گئے ہیں۔ اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بے حد ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ الرحمہ انسٹیٹیوٹ میں تعلیم کے ساتھ تربیت پر خصوصی توجہ کی جاتی ہے، چنانچہ ماہ رمضان میں الرحمہ انسٹیٹیوٹ میں عالیہ اور عالمیہ کلاسز کو اصول تفسیر،اصول حدیث، اصول فقہ، عقیدے اور وراثت کے دورہ جات کروائے جاتے ہیں جس سے طلبہ میں علمی وتحقیقی ذوق بیدار ہوتا ہے۔ اسی طرح ثانویہ خاصہ اور ثانویہ عامہ کی کلاسوں کو قواعد اللغہ العربیہ (نحو و صرف)کا باقاعدہ دورہ کروایا جاتا اور عربی قواعد کا اجراء و مشق بھی کروائی جاتی ہے۔ ماہ رمضان میں الرحمہ انسٹیٹیوٹ کے حفاظ کرام تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ واربرٹن اور اس کے مضافات کی مختلف مساجد میں نماز تراویح میں قرآن مجید سنانے کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں۔ہفتہ وار بزم ادب کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے اور تقریباً ہر دوسرے ماہ طلبہ کے مابین تقریری مقابلے، مباحثے، مناظرے، ٹیبل ٹاک، اذان کا مقابلہ، بیت بازی کے مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ اس طرح طلبہ میں تحقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے تحریری مقابلے کروائے جاتے ہیں۔اس طرح الرحمہ انسٹیٹیوٹ قوم کے نونہالوں کو علم، اخلاق وکردار اور تہذیب و شرافت سے روشناس کرانے کا عظیم فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔