غریبوں کا پیٹ!
غریبوں کے بھی کیا جھمیلے ہوتے ہیں۔جب بھی دو غریب پیار کرتے ہیں، دونوں کے بیچ زمانہ نہ بھی آئے سالا پیٹ ضرور آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک لڑکے کو کسی لڑکی سے پیار تھا لیکن اظہار نہ کر پایا، ویلنٹائن کا موقع آیا تو اس نے ایک نایاب قسم کا پھول تلاش کیا،کالج گیا اور وہ پھول لڑکی کو پیش کر دیا، لڑکی نے ایک نظر لڑکے پر ڈالی اور ایک نظر اس قیمتی نایاب پھول پر اور پھر اندر چلی گئی، لڑکا حیرت کے مارے وہیں کھڑا تھا کہ اس کی ماں باہر آئی اور بڑی حسرت سے بولی: نکمے اگر پھول ہی لانا تھا تو گوبھی کا لے آتے،تمھارے پیار کا اظہار بھی ہو جاتا اورہمارا دو تین دن کا سالن بھی بن جاتا۔دنیا میں سب سے زیادہ کٹائی جس فصل کی ہوتی ہے اس کا نام غریبوں کا پیٹ ہے، لیکن یہ سالا بھی ایک ڈھیٹ خودرو پودا ہے جو نجانے کب سے کاٹا جا رہا ہے لیکن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، ویسے اچھاہی ہے جو ختم نہیں ہو رہا ہے ورنہ غریبوں کے پاس ہوتا ہی کیا ہے؟ ان کے پاس دو چیزیں ہیں: ایک ان کا ووٹ اور دوسرا ان کا پیٹ۔ووٹ تو اشرافیہ لے جاتی ہے، پیچھے بچا پیٹ تو اس معاملے میں غریب اتنا دیالو ہے کہ خود بھی اسے کھائے جا رہا ہے اور امیر بھی کھلائے جا رہا ہے، لیکن یہ شیطان کی آنت کی طرح ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ غریبوں کے پیٹ کی یہ کرامت کیا کم ہے کہ اس ملک میں جتنے امیر ہیں وہ غریبوں کا پیٹ کھا کھا کر ہی امیر بنے ہیں۔ دنیا میں ایسا سخی پیٹ کسی کا ہوا ا ور نہ ہی ہوگا کہ خود اپنے سنبھالنے والے مالک کو اتنا فائدہ نہیں دیتا جتنا کھانے والے کو دیتا ہے۔
دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جہاں کسی غریب پیٹ کی لڑائی کسی امیر نے لڑی ہو؟ یہ عجوبہ بھی پاکستانی غریب پیٹ کے مقدر میں ہی آیا ہے کہ اس کا مقدمہ اس ملک کی خونی اشرافیہ لڑتی ہے اور وہ بھی صرف الیکشن کے کچھ ماہ اور اگلے پانچ سال غریب پیٹ اپنا آپ کاٹ کر اس اشرافیہ کو فیس ادا کرتا ہے۔ دنیا جہاں میں امیرپیٹ سے ٹیکس لیکر غریب پیٹ کے منورنجن پر لگایا جاتا ہے، لیکن پاکستان واحد ملک ہے،جہاں غریب پیٹ کے چیتھڑوں سے امیر اشرافیائی پیٹ دیمک زدہ پیٹ کی ”سرجری“ کی جاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں: غریب نے پیٹ کاٹ کاٹ کر جینا سیکھ لیا ہے۔ ممکن ہے یہ بات ٹھیک ہو لیکن میرے نزدیک پاکستان کے حوالے سے یہ کہنا بہتر ہے کہ غریب نے پیٹ کاٹ کاٹ کر ”کھانا“ سیکھ لیا ہے۔ جب سے غریب نے اپنا ہی پیٹ کاٹ کر کھانا سیکھاہے، تب سے اشرافیہ نے بھی اسی کا پیٹ کھانا شروع کر دیا ہے، یقین نہیں آتا تو اس خبر کی تو سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی کہ یہاں پلاٹ بانٹے جا رہے ہیں، اراکین اسمبلی کی مراعات بڑھا دی گئیں، ان کے لئے اب بزنس کلاس کے تیس ٹکٹ فری کر دیے گئے، انصاف فراہم کرنے والوں کی تنخواہیں کم ازکم ایک کروڑ سے اوپر کہ اس خطے میں شاید سب سے زیادہ ہیں، جبکہ مزید اللے تللے بھی ہیں، جن کے لئے ایک الگ کالم درکار ہے، لیکن افسوس کہ یہ سب عیاشیاں غریب کا پیٹ کاٹ کر کی جاتی ہیں۔ لہٰذا کبھی پٹرولیم کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور کبھی ادویات مہنگی کر دی جاتی ہیں، لیکن داد دیں غریب کو کہ وہ اپنا پیٹ بھرنے کی بجائے بل بھرتا رہتا ہے۔ اس معاملے میں اشرافیہ ایک پیج پر ہے، فرق بس باری ہے، مثلا جب اشرافیہ کا ایک حصہ جس کا نام حکومت ہے، وہ غریب کا پیٹ کھانے والا ہوتا ہے، جبکہ اس کا دوسرا حصہ جس کا نام جس کا نام اپوزیشن ہے وہ اس پیٹ کا مقدمہ لڑنے والا ہوتا ہے، کچھ عرصے بعد اشرافیاتی بھینسیں اپنی پوزیشن تبدیل کر لیتی ہیں، لیکن غریب کا پیٹ وہیں کا وہیں رہتا ہے جسے خوب بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ انکل سام سے حقیقی آزادی لینے والے اپنے جلسوں میں اسی کا جھنڈا اُٹھائے پھر رہے ہیں۔ احتجاج کے نام پر اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے اپنی بادشاہی میں اساتذہ کو جائز اور پرامن احتجاج پر معطل کرتے پھر رہے ہیں۔ آخر میں ایک تازہ غزل آپ کے احباب کے نام:
یاد یادوں سے جب گزرتی ہے
تب تمنا بھی خود سے ڈرتی ہے
اس ترنم پہ جھرنے واری ہیں
خامشی گفتگو پہ مرتی ہے
تیرے رخسار کی تمازت سے
پنکھڑی غسل تازہ کرتی ہے
تیرے لہجے کے سوز سے کوئل
اپنی بولی میں رنگ بھرتی ہے
مانگ تیری ہے چاند کا مطلع
رخ ترا چاندنی کی دھرتی ہے
رقص حیرت سے مر ہی جاتا ہے
سانس جب حلق سے گزرتی ہے
ناگ اس کی بلائیں لیتے ہیں
زلف ناگن سی جب بکھرتی ہے
حسن کی بھیک مانگنے کے لیے
شہہ پری تیرے گھر اترتی ہے
تیری پلکوں سے میں نے دکھا ہے
نور کی ایک کرن ابھرتی ہے
تیرے نینن کا عکس لیتی ہے
تب کہیں روشنی سنورتی ہے
تیرا دامن نچوڑ کر شبنم
مہکے گلشن میں جا نترتی ہے
حسن تیرا طواف کرتا ہے
سادگی تیرا پانی بھرتی ہے
تیرے ہاتھوں کو چوم کر کوثر
تاب مہندی کی اور نکھرتی ہے
٭٭٭٭٭