مشرقی پاکستان کے لاکھوں عوام کے ساتھ زیادتی ہوئی مگر اس کے ذمہ دار نہ تو مغربی پاکستان کے لوگ تھے اور نہ ہی فوجی، بلکہ  بھارتی خونخوار درندے تھے

مشرقی پاکستان کے لاکھوں عوام کے ساتھ زیادتی ہوئی مگر اس کے ذمہ دار نہ تو ...
مشرقی پاکستان کے لاکھوں عوام کے ساتھ زیادتی ہوئی مگر اس کے ذمہ دار نہ تو مغربی پاکستان کے لوگ تھے اور نہ ہی فوجی، بلکہ  بھارتی خونخوار درندے تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:21
اگرچہ 1971ء کے ان خوں ریز اور خوفناک حالات کے بارے میں بہت سے بنگالی اورغیر بنگالی محققین نے بیسیوں کتابیں تحقیق کے بعد تحریر کی ہیں۔ جن میں بتایا گیا ہے کہ اس عرصہ میں تشدد آمیز کاروائیاں کرنے والے کون لوگ تھے اور بنگالیوں پر تشدد کی جو بے پناہ داستانیں مشہور کی گئیں وہ محض بدنام کرنے کی ایک مہم تھی۔ مشرقی پاکستان کے لاکھوں عوام کے ساتھ زیادتی ہوئی ان پر ظلم اور تشدد ہوا مگر اس کے ذمہ دار نہ تو مغربی پاکستان کے لوگ تھے اور نہ ہی فوج…… بلکہ یہ بھارتی خونخوار درندے تھے جو پاکستان کو توڑنے کی غرض سے یہ انتشار پھیلا رہے تھے۔ ظلم و ستم کی فرضی داستانوں کے ذریعہ پاکستانی فوج کو بدنام کیا گیا۔ یہ سب نہ ہوتا اگر مغربی پاکستان کے لیڈر خان عبدالولی خان اور ایئر مارشل (ر) اصغر خان ان دونوں منتخب لیڈروں کے درمیان خیر سگالی کے جذبات کو فروغ دیتے۔ انہیں لڑنے کے لئے ایک دوسرے کے سامنے کھڑا نہ کرتے۔ ہمارے اپنے محب وطن مگر عقل سے عاری لیڈروں نے اس وقت نفرت کی سیاست کو اس طرح بڑھایا کہ بھارتی لیڈر اندرا گاندھی کے عزائم پورے ہو گئے۔ پاکستان دولخت ہو گیا۔ دونوں حصے علیٰحدہ علیٰحدہ ہو گئے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ مگر اس میں ایک خوشی کا پہلو بھی ہے کہ مغربی پاکستان سے اختلافات کے باوجود بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان وہی اختلافات موجود ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود ہیں۔ بھارتی حکومت اپنے دست آموز بنگلہ دیش کے بارڈرز پر بھی اسی طرح جارحانہ حملے کرتی رہتی ہے جس طرح کہ مغربی پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بھارتی دہشت گرد اور جارحانہ عزائم کا ارتکاب ہوتا رہتاہے۔
ایسے ہی حالات میں دسمبر 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے صدر پاکستان اور پاکستان کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا۔ ملک کے بکھرے ہوئے معاملات کو سمیٹا۔ پوری قوم کے ڈوبتے ہوئے مورال کو سنبھالا دیا۔ پاکستانی فوج کا ایک بہت بڑا حصہ90 ہزار سے زائد فوجی بھارتی فوج کی تحویل میں قیدی کی حیثیت سے تھے اُنہیں رہا کرانا، نیز باقی ماندہ مغربی پاکستان کو ایک نئے پاکستان کی حیثیت سے متعارف کرانا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے انتشار کی حالت میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر آئین سازی کرنا بہت بڑے کام تھے جو ذوالفقار علی بھٹو نے انجام دیئے۔
میری شادی
جب تعلیم مکمل کر کے میں پاکستان واپس آیا تو والد صاحب اور بھائیوں کی طرف سے اصرار شروع ہو گیا کہ وکالت تو کرنی ہی ہے، کریں اور کرتے رہیں مگر اس کے ساتھ ہی شادی خانہ آبادی بھی ضروری ہے۔ میں چاہتا تھا کہ وکالت میں قدم جما لوں تو اس کے بعد شادی ہو جائے مگر گھر کے تمام بزرگ اور چھوٹے سب گویا اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ جونہی میں واپس آؤں میری شادی کر دی جائے۔ کئی دوست احباب اور کلاس فیلو، پاکستانی اور انگلینڈ کی رہائشی جن میں یورپین بھی شامل تھیں گاہ بہ گاہ مجھے شادی کے لئے کہا جاتا رہا مگر میں بنیادی طور پر ایک مسلمان دیہاتی نوجوان تھا اور میں نے اس سلسلہ میں کہیں بھی بات چیت کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ ہم لوگ جو دیہی معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں ہمارے لئے یہ بات بڑی مشکل ہوتی ہے کہ ہم شادی کے لئے خود ہی قدم آگے بڑھائیں یا کسی کم لباس پہننے والی خاتون کو اپنے والدین اور بہن بھائیوں میں لے آئیں۔ اسی لئے دیہات کے رہنے والے نوجوان ایسی شادیوں سے بچے رہتے ہیں۔ ہم لوگ اپنے والدین کی رضامندی اور پسند کے سامنے سرنگوں کر دیتے ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -