تعلیم پر دہشت کے سائے

تعلیم پر دہشت کے سائے
تعلیم پر دہشت کے سائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: زینب وحید

بارش کے بعد کیچڑ آلود صحن میں  ننھے ہاتھوں میں دینیات کی کتاب تھامے ہل ہل کر سورت زبانی یاد کرتے ہوئے اچانک ایک زور دار دھماکے سے نوریمہ کا دل دھک کرکے رہ گیا۔ وہ خوف سے سہم گئی۔ افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں کسی بھی وقت گولیوں کی تڑتڑاہت اور بموں دھماکوں کی آوازیں عام سی بات ہے، لیکن میر علی کے گاؤں زیرکئی میں دھماکے سے تو گویا نوریمہ کا چھوٹا سا دل بیٹھ ہی گیا تھا۔ ابھی دھماکے کی آواز قریبی پہاڑوں سے ٹکرا کر گونج ہی رہی تھی کہ اُس کے بابا نے گھر میں داخل ہوتے ہی خوفزدہ لہجے میں بتایا کہ نوریمہ اسکول کو بارودی مواد سے تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ سنتے ہی کتاب چارپائی پر پھینک کر اُس نے اسکول کی طرف بھاگنے کی کوشش کی، لیکن بابا نے اُسے بازوں سے پکڑ کر دروازے سے باہر نکلنے سے روک دیا۔ 

دہشت گردوں نے میر علی میں نوریمہ کا گورنمنٹ گرلز ماڈل اسکول فضل الہیٰ کوٹ کو اڑا دیا  تھا۔ دہشت گردوں نے ٹانک میں ملازئی کے رہائشی  26 سال سے ٹیچنگ کے فرائض سرانجام دینے والے میرا جان کو بھی شہید کر دیا تھا۔  اسی طرح دہشت گرد ڈی آئی خان کے علاقے کری شموزئی میں بھی بیسک  ہیلتھ سنٹر پرحملہ کر کے معصوم مرد وخواتین اور بچوں کو شہید کر دیا تھا۔ اس علاقے میں حالیہ مہینوں کے دوران اسکول جلانے اور تباہ کرنے کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد یہاں کے قریبی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوئی سرکاری یا نجی اسکول نہیں ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2020 سے 2022 کے درمیان 776 اسکول غیر فعال یا مکمل طور پر بند ہو گئے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے ہی میر علی سب ڈویژن کے تحصیل شیواہ کے گاؤں درازوندہ میں بھی موٹر سائیکلوں پر سوار نامعلوم  افراد نے رات کے وقت زبردستی اسکول میں گھس کر اسکول کے مختلف حصوں میں بارودی مواد نصب کر دیا۔ اسکول کے چوکیدار کو بھی مارا پیٹا اور دیسی ساختہ بارودی مواد کو ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں نجی اسکول کے دو کمرے مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔  مئی 2023 میں میر علی سب ڈویژن کے بازار کی حدود میں واقع لڑکیوں کے دو اسکولوں کو بارودی مواد سے تباہ کیا گیا تھا۔ اس اسکول کی تعمیر تقریباً ڈیڑھ سال قبل مکمل ہوئی تھی اور اس میں اب تک 120 سے زیادہ لڑکیوں کا داخلہ ہوا تھا۔ شمالی وزیرستان کے ہی قصبے عیدک کے سرکاری اسکول میں 23 امتحانی مراکز کے ہزاروں حل شدہ پرچوں کو نامعلوم عسکریت پسندوں نے آگ لگا دی تھی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2020 سے 2022 کے آخر تک تین برسوں میں خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں مجموعی طور پر 776 اسکول غیر فعال یا مکمل طور پر بند ہوگئے تھے۔ بند ہونے والے اسکولوں میں اکثریت جنوبی وزیرستان میں تھی۔ اس دوران شمالی وزیرستان میں بند یا غیر فعال اسکولوں کی تعداد 53 ہے۔

مقامی صحافی  کے مطابق 30 فی صد سے زیادہ بوائر اور گرلز اسکول مکمل طور پر بند اور غیر فعال ہیں۔ لیکن سرکاری ریکارڈ میں انہیں فعال دکھایا جا رہا ہے۔ جو اسکول ہیں وہاں بھی برائے نام ہی تعلیم جاری ہے کیوں کہ وہاں اساتذہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ان دھماکوں کے نیتجے میں صرف ان اسکولوں کی دیواریں ہی ٹوٹ کر نہیں بکھریں بلکہ اُن لڑکیوں کے خواب بھی بکھر گئے ہیں جنہوں نے بہت مشکل سے قبائلی روایات توڑ کر والدین کو راضی کیا تھا کہ وہ انہیں اسکول بھیجیں۔ اب قریبی علاقوں میں لڑکیوں کے لیے کوئی اور سرکاری یا نجی اسکول نہیں ہے جہاں لڑکیاں زیور تعیم سے آراستہ ہو سکیں۔ 

شمالی وزیرستان میں اسکولوں کو  جلانے یا نقصان پہنچانے کا سلسلہ افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم کے وسطی علاقے ذیمشت میں 14 سال سے بند چھ اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے بعدشروع ہوا تھا۔ ان اسکولوں  میں داخل ہونے والے بچوں کو فری کتابیں، اسٹیشنری اور اسپورٹس کٹس فراہم کی گئی ہیں۔ اساتذہ اور فرنیچر کا بھی فوری انتظام کیا ہے۔

اسکولوں  کو نشانہ بنانا اور ٹیچرز کی ٹارگٹ کلنگ ظاہر کرتی ہے کہ علم کے دشمن دہشت گرد  نام نہاد شریعت کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کا امن تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ بدامنی پھیلانے کے اس مکروہ دھندے میں عملی طور پر اور پراپیگنڈے کے ذریعے پاکستانی عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسکولوں اور عوامی بہبود کے سنٹرز پر حملے کرنا اور معصوم عوام کو نشانہ بنانا ان کی نام نہادشریعت کامنہ بولتا ثبوت ہے۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے انتہا پسند نظریات اور خواتین کے حقوق خصوصاً تعلیم کو نشانہ بنانا ثبوت ہے کہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ 

خیبر پختونخوا میں بدامنی پھیلانے کے اس منصوبے کے ذمہ داران میں وہ تمام عناصربھی ذمہ دار ہیں جو ہر وقت ملک میں انتشار چاہتے ہیں۔ اس غیر قانونی اسپیکٹرم کی روک تھام ناگزیر ہے تاکہ دہشت گردوں اور کریمنل کے گٹھ جوڑ کو توڑا جائے۔ 

 ماہرین تعلیم متفق ہیں کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز سمیت کسی کو بھی ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے، لہذا ضروری ہے کہ قومی اتفاق رائے سے ایک قومی سطح پر بیانیہ بنایا جائے اور اس مقصد کے لئے نظر ثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہے۔ سیاسی اور معاشی  استحکام کے لئے نیشنل ایکشن پلان کو دوبارہ متحرک کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ 

ان علاقوں میں تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کے پے در پے حملے یہاں پڑوسی ملک افغانستان کی ایک خاص سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ 

تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد یعنی  18 ستمبر 2024 کو افغانستان میں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کو ثانوی درجے کی تعلیم سے روکنے کے حکم کو 3 سال مکمل ہو جائیں گے۔  تعلیم سے متعلق اقوام متحدہ کے فنڈ کی سربراہ  یاسمین شریف نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں ہر لڑکی کے لیے تعلیمی مواقع یقینی بنائے۔ انہوں نے لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کو عالمگیر انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ افغانستان کے حکمران ملک میں ہر لڑکی کی معیاری تعلیم تک رسائی یقینی بنا کر اور انہیں جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو میں کردار ادا کرنے کا موقع دے کر طویل عرصہ سے تکالیف کا سامنا کرتے لوگوں کی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی جانب سے طالبات کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے بعد سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم تقریباً ایک لاکھ طالبات کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تقریباً 25 لاکھ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی عالمی برادری سے کہا ہے کہ طالبان سے خواتین کے حقوق سلب کرنے پر جواب دہی کرے۔  افغانستان میں پہلے ہی خواتین کی شرح خواندگی انتہائی کم ہے جبکہ طالبان کے دورِ اقتدار میں ایک بھی خاتون اعلیٰ تعلیم مکمل نہیں کر سکی ہے۔ مختلف امدادی ایجنسیوں کے مطابق میڈیکل کی طالبات کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ دیگر پابندیوں کے سبب ملک میں ہزاروں نوجوان ماؤں کی دورانِ زچگی اموات ہو چکی ہیں۔

طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کو افغانستان میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی اور ان کے روزگار کے مواقع ختم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ البتہ ملا ہیبت اللہ نے کبھی بھی اپنے ان فیصلوں کی عوامی سطح پر وضاحت نہیں کی۔

جب پورا خطہ اتنا متاثر ہے تو ہمارے پسماندہ اور غربت کے شکار علاقے کو کون پوچھے گا؟ کون اسکول بنا کر دے گا؟ انہی خیالات کے زیراثر نوریمہ کے بابا کے چہرے پر پریشانی کے آثارنمایاں تھے۔ اور وہ 

سر پر ٹوپی رکھتے ہوئے نماز مغرب کی ادائیگی کے لئے گھر سے باہر نکل گئے۔ پہاڑوں کے دامن میں آہستہ آہستہ پھیلتا اندھیرا یہ سب دیکھ کرمبہوت کھڑی نوریمہ کے خواب بھی دھندلا گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعارف مصنفہ

زینب وحید امریکا "کارلٹن کالج" کی اسٹوڈنٹ ہیں جو اکنامکس اورانوائرمنٹ ڈگری کی فُل رائیڈ اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔  یہ اعزاز حاصل کرنے والی وہ واحد پاکستانی طالبہ ہیں۔ یونیسف یوتھ فورسائیٹ فلوشپ 2024 میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ کلائمٹ ایکٹوسٹ اور جرنلسٹ ہیں۔ مصنفہ، سوشل میڈیا کونٹینٹ کریئٹر اور مقررہ ہیں۔ پاکستان میں اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان نے مشترکہ طور پر انہیں "کلائمٹ ہیرو"کے اعزاز سے نوازا ہے۔  یونیورسٹی آف ٹورنٹو، یورپ کے معتبر میگزین”جرنل آف سٹی کلائمٹ پالیسی اینڈ اکانومی”، اور نوبل پرائز ونر ملالہ یوسف زئی کے عالمی شہرت یافتہ میگزین “اسمبلی” میں مضامین چھپ چکے ہیں۔ پاکستان کے دو قومی اخبارات میں بلاگز لکھتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت امریکا اور اٹلی میں یوتھ فار کلائمٹ چینج انٹرنیشنل کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ارجنٹائن میں میں انٹرنینشل سی فورٹی سمٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول سوسائٹی کے تحت کانفرنس میں بطور پینلسٹ شامل ہیں۔ مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں۔ نیدرلینڈز کے سرکاری ٹی وی نے زینب وحید کو پاکستان کی گریٹا تھنبرگ قراردیا ہے۔

مزید :

بلاگ -