سوشل میڈیا کی اخلاقی ا قدار پہ بحث کی ضرورت کیوں؟
تحریر: نبراس سہیل
انٹرنیٹ کی اس وسیع کائنات میں سوشل میڈیا کی جو دنیا ہم نے بسائی ہے آپ نے ، میں نے، ہم سب نے اصل رشتوں سے زیادہ تعلقات بنائے ہیں، سنگی ساتھیوں سے زیادہ دوست اور پھر دوستوں کے دوست، اور بلاگز ہماری دنیا کو حقیقی دنیا سے کئی گنا بڑا کر دیتے ہیں۔ یہ ایک نیا جہان ہے۔ آج کی بحث اس بات پر قطعی نہیں ہونی چاہیے کہ اصل دنیا اور حقیقی رشتوں کے مقابل یہ الیکٹرانک رابطے بہتر ہیں یا بدتر کہ اب اس سلسلے سے فرار ممکن نہیں۔ آج کا سوال یہ ہونا چاہئے کہ ا س نئی آباد کار دنیا میں ہم نے کوئی اخلاقی قدروں کے کوئی پیما نے بھی رکھے ہیں ؟
انسان کی معاشرت اور رابطوں کے ساتھ ہمیشہ ہی ضابطے و جود میں آتے رہے ہیں ، خود بخود اور کبھی الہامی راہنمائی کی صورت اور کبھی تجربے کی چاک سے اترتے نت نئے فلسفوں کی طرح۔ صحیح اور غلط ، خیر اور شر کو جاننے کی ضرورت آج کم کیوں ہو گئی؟ آج اس نئی سوشل میڈیا کی دنیا کے لئے اخلاقیات پر بات کیوں نہیں کی جا رہی؟ اس سلسلے میں دانشور بھی خامو ش ہیں، سماجی بہبود کے ادارے بھی اور سوشل میڈیا ہیڈز بھی۔ سوشل میڈیا جو ایک نیا سماج، نیا معاشرہ ہے ، اس میں بستے ہوئے اس کے اصول و ضوابط وضع نہ کئے جائیں، بڑی کج روی اور غفلت کی بات لگتی ہے۔
آج ایک خاندان اپنی تصاویر جب فیس بک یا انسٹاگرام پر شئیر کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ مقصود شہرت یا تشہیر ہے بلکہ اس لئے کہ وہ یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ یہ رابطہ آج کی سماجی زندگی کا اہم حصّہ ہے۔ یہ شیئرنگ تعلقات کے تسلسل کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو غیر ذمہ داری سے کمنٹس کرتے نہیں چوُکتے انہیں اتنا ہی محتاط ہونے کی ضرورت ہے جتنا وہ کسی کے گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کر اندر داخل ہونے کی جرات نہ رکھنے پر ہوتے ہیں۔
ہاتھ میں موبائل فون تھامے راہ چلتے ، اپنے گھر کی کھڑکی سے، بس میں سفر کرتے، یونیورسٹی کے کلاس روم میں، کہیں بھی ویڈیو بنا لینے سے ایک قدم آگے اُس ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کا احساس کئے بغیر دنیا کو یہ مناظر پیش کر دیئے جاتے ہیں۔ لمحوں میں وائرل ہو جانے پر کمزور انگریزی بولنے کی خجالت ہو یا کمزور لمحے کی گرفت میں آئے انسان کی جذباتی تصویر کم و بیش ایک سا ہی ردّعمل سامنے لاتی ہے اور وہ ہے خودکشی کا خیال ۔۔۔اس نفسیاتی اذیت پر بات ہونی چاہئے۔
بات تو اس پر بھی ہونی چاہئے کہ اس سوشل میڈیا معاشرے میں فریب کاری کی روک تھام کی جائے۔ سستے یا مفت برابر وائی فائی کے ذریعے بے وقعت محبتیں جنم لیتی ہیں جن کی ابتدا پروفائل پکس لائک کرنے یا ’ نائس پک‘ ٹائپ کردینے سے ہوتی ہے، لاسٹ سین کے وقت سے شکوک و شبہات کا شکار ہوتی، آن لائن ہوتے ہوئے آپس میں با ت نہ کرنے کی شخصی آزادی پہ ختم۔ اس ضمن میں تعلقات یا محبتوں پر پہرے بٹھانے کا سوال نہیں، نہ ہی ہر محبت کی صداقت پر شک کرنا بلکہ اس وبا جیسے وقتی لگاﺅ کی حقیقت پر بات کرنے سے اس کے اٹیک سے بچاﺅ کے لئے تیار رہا جا سکتا ہے۔
یہ جو کوُل(cool) دکھنے کا ڈھکوسلہ بہت عام ہے سوشل میڈیا پر اُس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔جس کے اصل معانی کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں اور یہ لفظ کُول بے فکری ، غیر ذمہ داری اور سطحی سوچ کا استعارہ بنا نظر آتا ہے۔ اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ جو اُداسی شاموں نے انسان کی سوچ، کردار اور تخّیل کو عطا کی، آج اُس سے بظاہر دوری کا رویہ اختیار کرنا اپنی فطرت سے نظریں چرانے جیسا ہے۔ یہ ظاہر کرنا کہ آج اچانک انسان اُداسی سے آزاد ہو گیا ہے۔ اُداس لوگوں کو چھوڑ کر ہر وقت پارٹی اور فن موڈ میں رہنا بیوقوفانہ عمل جیسا ہے، اس پر گاہے بگاہے بات کی جانی چاہئے۔ اُداسی اور مایوسی کے فرق کو بھی سمجھنے اور اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے فرق ختم ہو جائیں تو انسان کی شعوری تہذیب خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
آج الیکٹرانک دنیا کے لئے الیکٹرانک ایتھکس (e. Ethics) پر گاہے بگاہے بات ہونی چاہئے ، کم از کم ہمارے معاشرے میں جہاں بڑی سہولت سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ فیس بُک پر خوشی دکھانے والے سبھی جھوٹے ہیں یا وہ سبھی جو یہ مظاہر دیکھ رہے ہیں ، حسد کا شکار ہو رہے ہیں۔ یا یہ کہ جو آپ سے آن لائن ہوتے ہوئے بات نہیں کر رہا، آپ سے ناراض نہیں۔ یا جو ہر وقت feeling excited کا سٹیٹس لگاتا ہے وہ کبھی مضمحل نہیں ہوتا یا جو آپ کی پوسٹ پہ کمنٹ نہیں کر رہا، اُس کی کوئی رائے نہیں ہے آپ کی سوچ پر، اس نئی دنیا کی حقیقت یہی ہے کہ یہ ایسے ہی نظر آئے گی۔ عکس کی دنیا جو ٹھہری۔ ضرورت ایک متوازن نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی ہے۔ اس پر ہمیں بات کرتے رہنا ہو گی اور اس پر بھی کہ ڈیجیٹل دنیا میں ہم اپنی تمام تر اصل کے ساتھ رہیں۔ ہماری شخصیت قائم رہے۔ فیک اکاوئنٹس اور فیک پروفائلز سے مسخ شخصیت کا شکار ہونے والے نوجوانوں کو بچانے کی ضرورت ہے۔ یعنی ہمیں اس پر بات کرتے رہنا ہوگی سگریٹ کی ڈبّی پر لکھی، ’سگریٹ نوشی مضر صحت ہے‘ کی ہدایت کی طرح۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔