معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت لیکن۔۔۔ زراعت کا شعبہ مشکلات کا شکار!
عرفان یوسف
زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن جدید ریسرچ سے استفادہ کئے بغیر کسان کی خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں عالمی منڈیوں میں زرعی پیداوار کے نرخوں میں نمایاں کمی اور بحران کے باعث کسانوں کو ان کی پیداوار کی صحیح لاگت نہیں مل رہی کسان کی خوشحالی سے ملکی خوشحالی جڑی ہوئی ہے وہ روایتی طریق کاشت کو ترک کر کے جدید ریسرچ اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی پیداواری لاگت میں کمی کے ساتھ ساتھ پیداوار میں اضافہ کو یقینی بنائیں تاکہ ان کو ان کی محنت کا مناسب ثمر مل سکے حالیہ برس کینو کی کثیر ایکسپورٹ میں ایکسپورٹرز نے بھرپور منافع کمایا لیکن کسان نسبتا مالی طور پر استفادہ نہ کر سکا اگر چہ اس موسم میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے گندم کی فصل کو جزوی نقصان پہنچا ہے تاہم امید ہے کہ حکومت کی جانب سے گندم پیداوار کی طے شدہ اہداف کو حاصل کرلیا جائے گاسائنسدانوں کو چاہیئے کہ وہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کی طرف توجہ دیں تاکہ اس پانی سے اضافی فصلات اگائی جاسکیں اور ملک کی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جاسکے جبکہ پاکستان نے معیار کی بہتری اور فروٹ فلائی سے پاک پھلوں اور سبزیوں کی ایکسپورٹ کے لیے یورپی یونین کی جانب سے دیا گیا چیلنج پورا کرنے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ کے ذریعے آم کو مضر مکھیوں سے محفوظ بنانے کے بعد اب ویپر ہاٹ ٹریٹمنٹ کے ذریعے پراسیس شدہ امرود کی ایکسپورٹ کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔ پاکستان سے ویپر ہاٹ ٹریٹمنٹ کے ذریعے فروٹ فلائی کے خدشے سے پاک امرود کی پہلی کھیپ برطانیہ ایکسپورٹ کی گئی ہے 150ٹن امرو کی کھیپ برطانیہ میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی اور ایکسپورٹرز کو پہلے سے 25فیصد زائد قیمت حاصل ہوئی۔یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو آم، امرود، چیکو، بیر، کریلے، مرچ اور لوکی کوبیماریوں سے پاک کرنے بالخصوص آم اور امرود کو فروٹ فلائی سے پاک کرنے کا سخت چیلنج دیا گیا اور ناکامی کی صورت میں پاکستان پر پابندی کا خدشہ تھا تاہم پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ اور پاکستان فروٹ اینڈویجیٹبل ایکسپورٹرز امپورٹرز مرچنٹس ایسوسی ایشن اور پاکستان ایگری ریسرچ کونسل نے اس مشکل ٹاسک کو ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کی مربوط مہم کے ذریعے پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔پہلے مرحلے میں فروٹ فلائی سے پاک آم یورپی یونین ایکسپورٹ کیے گئے اور پاکستان پر پابندی کا خطرہ ٹل گیا یاد رہے یورپی یونین نے بھارت کو بھی اسی طرز کی وارننگ دی تھی اور تدارک نہ ہونے پر بھارت پر پابندی عائد کردی گئی آم کے بعد امرود کو فروٹ فلائی سے پاک کرنے کے لیے ویپر ہاٹ ٹریٹمنٹ طریقہ کار کے لیے تین ماہ تک کی جانے والی سخت کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور پاکستانی امرود کے لیے بھی یورپ کی وسیع منڈی کھل گئی۔امرود کو فروٹ فلائز سے پاک کرنا ایک مشکل اور وقت طلب کام تھا تاہم پاکستانی ماہرین نے ایکسپورٹرز کے تعاون سے یہ کام تین ماہ میں مکمل کیا۔ اس دوران پھلوں کو موزوں درجہ حرارت اور نمی فراہم کرنے کے لیے انتہائی پیچیدہ تجربات سے بھی گزارا گیا امرود جیسے حساس پھل کی کامیاب ٹریٹمنٹ پاکستانی تحقیقی ماہرین، پلانٹ پروٹیکشن اور پی اے آر سی کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کے لیے وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے مکمل تعاون اور سپورٹ کا بھی اہم کردار ہے پاکستانی امرود کو یورپی یونین کی پابندی کا سب سے زیادہ خطرہ تھا بھارت اور پاکستان کو ایک ساتھ وارننگ ملی لیکن پاکستان نے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعے بھارت سے قبل ہی پاکستانی امرود کو فروٹ فلائی کے خدشے سے محفوظ کرلیا، اس طرح یورپ جیسی وسیع منڈی ہاتھ سے نکلنے سے رہ گئی اس سال امرود کا سیزن خاتمے کے قریب ہے تاہم پاکستان نے برطانیہ کو پہلی شپمنٹ روانہ کرکے بھارت پر اپنی برتری ثابت کردی ہے جس کا نہ صرف امرود کے اگلے سیزن بلکہ پاکستان سے یورپ کو دیگر پھل اور سبزیوں کی ایکسپورٹ کو بھی فائدہ ہوگا۔ ٹریٹ شدہ امرود عام قیمت سے 25فیصد تک زائد پر فروخت کیے گئے ہیں پی ایف وی اے، پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ اور ایگری کلچر ریسرچ کونسل مل کر بیر، چیکو، کریلے، لوکی، مرچ کی ٹریٹمنٹ پر بھی تجربات کررہے ہیں اور آئندہ ایک ماہ میں کامیاب نتائج حاصل ہونے کی توقع ہے۔ اس طرح پاکستان یورپی یونین کی جانب سے ملنے والے چیلنج کو چند ماہ میں ہی پورا کرکے دکھائے گا جس سے ملک کی ایکسپورٹ کو فائدہ پہنچے گاکاشتکاروں کو ہے کہ وہ زرعی فصلات کی پیداوار بڑھانے کے لئے جدید زرعی ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کریں۔ اس مقصد کے لئے پیدا ہونے والی فصلات کے لئے جدید زرعی ٹیکنالوجی، پیداواری منصوبہ جات، منظور شدہ اقسام، عناصر صغیرہ و کبیرہ کی ضروریات، وقت کاشت، شرح بیج اور دیگر کاشتی امور پر مشتمل زرمحکمہ زراعت کے ماہرین کی کاوشوں سے زرعی مطبوعات تیار کی ہیں جن میں امردو کی کاشت، بارانی علاقوں کے چارے، گوداموں میں غلہ کی حفاظت، کھمبی کی کاشت، کچن گارڈننگ، پنجاب میں آلو کی کاشت، مکئی کی کاشت، پوٹھوار کے پھل، پنجاب کی دالیں، پلاسٹک ٹنل میں سبزیوں کی کاشت، مگس بانی، پھلوں کی کاشت، پھلوں اور سبزیوں کی مصنوعات، پنجاب کے چارے، تیلدار اجناس کی کاشت، پھولوں کی کاشت، کلراٹھی زمینوں کا منافع بخش استعمال، موسم گرما کی سبزیاں، موسم سرما کی سبزیاں، ادویاتی پودوں کی کاشت، ترشاوہ پھل، کماد کی کامیاب کاشت اور دیگر فصلات کے بارے میں زرعی مطبوعات شامل ہیں۔ جو کاشتکاروں کی رہنمائی کے لئے محکمہ زراعت کے متعلقہ شعبہ سے حاصل کی جاسکتی ہیں جبکہ ملک میں چینی کی پیداوار میں 0.5 ملین ٹن کمی، شوگر ملز کی جانب سے کسانوں کو بقایا جات میں تاخیر اور گنے کی کم قیمتیں چینی کی پیداوار میں اہم درجہ قرار، وزارت انڈسٹری اینڈ پیداوار کے مطابق پاکستان نے مارچ 2015ء تک 4.77 ملین ٹن کی چینی پیدا کی جبکہ-14 2013 ء میں پیداوار 5.57 ملین ٹن تھی جو کہ موجودہ سال میں کمی ظاہر کر دی ہے منسٹری آف نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے حکام کے مطابق ماسوائے چند شوگر ملز کے جو پنجاب میں چینی بنا رہی ہیں باقی تمام ملز نے کام کرنا بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس سال پیداوار میں کمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے مارچ کے آخری ہفتہ میں چینی کی ریٹیل قیمت 55 کلو گرام تھی جو کہ 2014ء میں مارچ کے مہینے میں 5450 روپے تھی اس طرح 30 مارچ تک انٹرنیشنل مارکیٹ میں سفید چینی کی قیمت 357.50 ٹن ڈالر اور خام چینی کی قیمت 264.33 ٹن ڈالر (270.4 کلو گرام) تھی اس وقت شوگر ملز کے پاس چینی کا سٹاک 4.2 ملین ٹن پڑا ہوا ہے ایگری کلچر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے 2014۔15ء کے لئے گنے کا ریکارڈ رکھا گیا ٹارگٹ بھی حاصل نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے پنجاب اور بلوچستان میں شوگر ملز کی جانب سے کم پیداوار ہے۔ سبزیوں ،دھان،کپاس ،گنے اور آلو کی کم قیمتیں ملنے سے زرعی معیشت کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔اور اب گندم کے کاشتکاروں کو لوٹنے کی تیاریاں عروج پر ہیں اور آئندہ فصل کیلیے بینک گندم خریدنے کیلیے قرضہ دینے سے انکاری ہیں.تیل کی قیمتوں میں پھر بلا جواز اضافہ کرکے زرعی مشینری اور ٹیوب ویلوں پر کروڑوں روپے کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور بے تہاشا قیمتوں کی وجہ سے ٹیوب ویل بند ہو رہے ہیں۔اوراگر حکومت نے زرعی شعبہ کو بلاسود قرضے دیکر سہارا نہ دیا تو زراعت کی تباہی یقینی ہے اس وقت کسانوں کے اربوں روپے شوگر ملوں،آڑھتیوں اور تاجروں کی طرف واجب الادا ہیں مگرقانون نافذ کرنے والے ادارے مل مالکان کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے پر امن احتجاج کرنے والے کسانوں پر دہشت گردی کے مقدمات درج کر کے مالی دہشت گردوں کے ساتھی بن گئے ہیں،اور اب گندم کے کاشتکاروں کو لوٹنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔اگر حکومت نے کسانوں کو بلاسود قرضے فراہم کرکے زرعی معیشت کو سہارا نہ دیا تو ملک میں زراعت کی تباہی یقینی ہے جبکہ وفاقی وزیر برائے تجارت انجینئر خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ چاول کے برآمد کنندگان اور کاشتکاروں کو درپیش مسائل کو دور کر کے چاول کی تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، اس سلسلے میں رائس ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ کونسل قائم کی جا رہی ہے جس میں وفاق، صوبوں اور چاول برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشن کے نمائندے شامل ہوں گے چاول ملکی برآمدات میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں، اس کا شمار ان چند اہم برآمدات میں ہے جن کا حجم دو ارب ڈالر ہے چاول کی پیداوار اور برآمدات بڑھانے کے لئے وفاق اور صوبوں کے درمیان کوآرڈینیشن کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے رائس ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ کونسل فعال کردار ادا کرے گی، یہ ایک مستقل فورم ہوگا جو باقاعدگی سے اجلاسوں کا انعقاد کرے گا تاکہ اس شعبہ کو درپیش مسائل کو اتفاق رائے سے دور کرتے ہوئے چاول کی تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔ توقع ہے کہ یہ کونسل اپریل کے آخر تک کام شروع کر دے گی۔ چاول کے برآمد کنندگان کو ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے انفراسٹرکچر، سرٹیفیکیشن اور استعداد کار بڑھانے میں تعاون فراہم کرے گا چاول کے شعبہ میں جدت لانے، بیجوں کی نئی اقسام، کاشت کے نئے طریقے متعارف کرانے اور نئی منڈیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہے رائس ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ کونسل کا قیام اس سلسلے میں مددگار ثابت ہوگا برآمد کنندگان کو کاشتکاروں کی فلاح کا بھی احساس ہے چاول کی تجارت بڑھانے کے لئے اعلیٰ معیار کے بیج متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ کم قیمت کھادیں اور پانی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کاشتکاروں کو تربیت دے کر اس تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے باسمتی چاول پاکستان کی پہچان ہے جسے بیرون ملک رجسٹر کرانے کی ضرورت ہے۔ پانی کی قلت براہِ راست معاشی نشوونما کو متاثر کرسکتی ہے کیونکہ یہ نہ صرف سستی ترین بجلی کے حصول کا ذریعہ ہے بلکہ زرعی شعبے کے لیے بھی لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ تمام وسائل ہونے کے باوجود پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے کیونکہ ہمارے پاس اسے ذخیرہ کرنے کے لیے زیادہ ڈیمز نہیں، اگر یہی صورتحال رہی تو وہ دن دور نہیں جب ملک صحرا بن جائے گا پائیدار ترقی کے لیے پانی کی وافر دستیابی بہت ضروری ہے لیکن پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے کیونکہ پانی ذخیرہ کرنے کا خاطر خواہ بندوبست نہیں 1950ء میں پانی کی فی کس دستیابی پانچ ہزار کیوبک میٹر تھی جو 2010ء میں کم ہوکر صرف ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گئی۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے جائزہ کے مطابق بھارت نے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہتر کی ہے جبکہ ہماری یہ صلاحیت مزید کم ہوگئی ہے صورتحال کے پیش نظر ہمیں تیزی سے آبی ذخائر تعمیر کرنا ہونگے جو نہ صرف پانی ذخیرہ کریں گے بلکہ ملک کو سیلابوں سے بھی بچائیں گے پاکستان ایک زرعی ملک ہے ، افرادی قوت کا 45%حصہ اس سے منسلک ہے جبکہ سب سے بڑے برآمدی سیکٹر ٹیکسٹائل کا دارومدار بھی اس پر ہے پانی نہ ہونے کی صورت زرعی شعبہ بقاء نہیں رکھ پائے گا جس سے تمام شعبے بْری طرح متاثر ہیں لہذا حکومت پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے پانی کی کمی سمیت زیادہ تر مسائل کی بنیادی وجہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے ابھی بھی بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی ، اگر آج بڑے آبی ذخائر کی تعمیر شروع کردی جائے تو آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ ہوگاجائے گا لہذا حکومت فوری طور پر اس کے لیے اقدامات اٹھائے۔