جناتی، جنات کے رازداں کے قلم سے۔۔۔ بیسویں قسط

جناتی، جنات کے رازداں کے قلم سے۔۔۔ بیسویں قسط
جناتی، جنات کے رازداں کے قلم سے۔۔۔ بیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پتا گرو کی آنکھوں کی پتلیاں اپنے چہیتے بالک گرو یعنی میرے باپ کی حالت دیکھ کر پھیل گئیں اور ماتھا سلوٹوں سے بھر گیا ۔اس نے اپنا سکھاسنا آسن توڑا اور فضا سے نیچے اُتر کر قبر کی پاتال پر ٹک گیا۔پھرگرو کے پاس آ کر بولا’’ گرو ،سنبھل کر ‘‘ اس نے آنکھیں موندتے ہوئے میرے باپ کے کاندھے پر ہاتھ رکھا،اسکی حالت بتا رہی تھی شریر کا سارا لہو نکل کر میری ناف میں اُتر گیا ہے لیکن گنگو نے ابھی تک کوئی جنبش نہیں لی نہ ابھی تک بیدار ہوا تھا ۔
پتا گرو کی حالت بھی بتارہی تھی یہ سب کچھ اسکی توقع کے برعکس ہورہا ہے اور کوئی ایسی گھٹنا ہوچکی تھی جو اس کے تنتر منتر کو چلنے نہیں دے رہی تھی جبکہ گرو آہستہ آہستہ جیون ہار رہا تھا اور اسکے جیون کی بھینٹ سے میرے زندہ ہونے کے امکانات بھی ابھی ظاہر نہیں ہوئے تھے۔

جناتی۔۔۔جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے ...انیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
پتا گرو نے اس دوران میرے باپ کے گرد اپنے بازو پھیلائے اور پھر شبد پڑھنے لگا ۔ اس بار اسکی آواز غیر معمولی طور پر بلند ہوتی گئی ۔چند ثانئے بعد قبر میں جیسے بھونچال سا آنے لگا ،باہر سے بجلیوں کے کڑکنے کی دہشت ناک صدائیں آنے لگیں اور بادلوں کی کڑک کے ساتھ مینہ بھی دھواں دار برسنے لگا ۔میں نہیں جانتا یہ پتا گرو کے شبدوں سے بادلوں کا سینہ پھوٹ نکلا تھا یا قدرت نے خود بارش اور بجلیوں کی کڑک سے کسی عتاب کا اہتمام کیا تھا،البتہ اس سمے پتا کے گرو کے چہرے پر فاتحانہ مسکان ضرور اُبھری تھی۔ وہ اور تیزی سے شبد پڑھنے لگا اور دوسرے ہی لمحے بجلیوں کی کڑک اور بارش کی طونانی یلغار میں بہت سے انسانوں کی عجیب و غریب سی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔یوں لگ رہا تھا مدتوں بند خونخوار جانور باہر نکل پڑے ہوں اور مارے بھوک کے ایک دوجے کو نوچ رہے ہوں۔
قبرجہاں ہم سب پتا گرو کے ساتھ موجود تھی اسکی دیوار وں پر بھی دھپ دھپ کی آوازیں آنے لگیں ۔ سماں کچھ یوں بن گیا کہ لگتا تھا جیسے کوئی قبر کی دوسری جانب کوئی کمرہ ہے اور اس کے اندر جو بھی انسان موجود تھا وہ زور زور سے اسکی دیواروں کو کھٹکھٹا رہا ہے ۔
پتا گرو نے اس دیوار کی جانب دیکھا جہاں سے زیادہ آواز آرہی تھی۔ اس نے اپنے ایک سیاہ ہیولے کو اشارہ کیا اور سیاہ ہیولے والا دیوارکے پاس گیا ، سونگھ کو اس نے بپھری ہوئی نظروں سے پتا گرو کو دیکھا اور کسی انجانی زبان میں اس سے مخاطب ہوکر کچھ بتانے لگا۔اس نے جو کچھ بھی کہا ہوگا اسکا نتیجہ جلد سامنے آگیا ۔پتا گرو اسکی بات سن کر تن سا گیا تھا اور میرے باپ کی طرف ایک نظر ڈال کر اس نے سیاہ ہیولے کو اشارہ کیا تو اس نے اپنا ہاتھ دیوار کے اندریوں گھسیڑدیا جیسے دیوار روئی یا کاغذ کی بنی ہوئی ہو۔
اُف خدایا۔آپ تصوّر نہیں کرسکتے کہ اس وقت کیا ہوا ہوگا۔ سیاہ ہیولے نے پہلے اپنا پورا بازو دیوار کے اندر داخل کیااور پھر خود بھی دیوار کے اندر جذب ہوگیا اور دوسرے ہی لمحے وہ باہر نکلا تو اس نے ایک زندہ مُردے کو گردن سے دبوچا ہوا تھا بلکہ یوں جیسے بلی چوزے کو گردن سے دبوچ لیتی ہے ۔
مُردے کی آنکھیں اُبلی ہوئی تھیں ،کفن کہیں کہیں سے پھٹا ہواتھا ،ایک بازو کا گوشت غائب اور ہڈیوں کا ڈھانچہ سا بازو کی جگہ لٹکا ہواتھا ۔ٹانگوں کی بھی یہی حالت تھی،پیٹ پورا اور بھرا ہواتوند نما ،سر کے بال اُڑے ہوئے اور کہیں کہیں سے کھال غائب تھی لیکن وہ اس بد وضع ہیت میں زندہ تھااور سانسیں لے رہا تھا ۔
سیاہ ہیولے نے اسکو پتا گرو کے سامنے پھینکا تو پتا گرو چلاّ کر بولا’’ تجھے اس سمے کیا بیماری پڑگئی تھی ۔کیوں تو نے ہماری پرارتھنا میں شور اٹھایا ہے‘‘
کیا آپ نے کسی مردے کو باتیں کرتا ہوا دیکھا ہے،نہیں دیکھا ہوگا ۔لیکن میں نے پہلی بار اس مُردے کو بولتے دیکھا ۔اسکی آواز گلے میں پھنسی ہوئی اور تھکی ہوئی تھی،بالکل ایسے جیسے طبلے کی کھال پھٹ جائے تو تھاپ لگانے پر بھدی سی آواز نکالتا ہے۔یا پھر یوں سمجھ لیں جیسے بوڑھا گدھ بولتا ہے۔لیکن آپ نے بوڑھے گدھ کو کہاں بولتے دیکھا یا سنا ہوگا۔۔۔ خیر ۔۔۔ آگے سنئے۔مردہ جس طرح سے بولا تھا ،اس کا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن اس نے جو کہا وہ ایک بار پھر سب کے لئے حیران کن تھا۔
’’ گرو ۔۔۔ میں آپ کو تب سے جانتا ہوں جب سے آپ نے قبر میں اپنااستھان بنایا اور اسکو دھرم شالہ کا درجہ دیکر پاٹ کرنا شروع کئے ۔آپ نے میری بیوی کی قبر کھود کر اس کو اپنا گرو استھان بنا رکھا ہے جس سے اسکی روح بھٹکتی پھررہی ہے۔اور اِس سمے ابھی جو کچھ ہورہا ہے یہ دوسوسال بعد ایک بار ایسا ہوتا ہے۔یہ سمے آٹھ گرہنوں کے ملن کا سمے ہے اور آپ نے جو شبد اشلوک پڑھے ہیں ان سموں میں نہیں پڑھے جاتے۔اس کارن ہوا یہ ہے کہ سارے قبرستان کے مُردے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی قبروں سے باہر نکل آئے ہیں ۔آپ کی پوجا الٹ ہوگئی ہے اور جب تک گرہنوں کا سمے گزر نہیں جاتا اور آپ وہ شبدپاٹ نہیں لگاتے جو گرہنوں میں دیوتاؤں کو سوئیکار کیئے جاتے ہیں، یہ مردے قبروں میں واپس نہیں آئیں گے۔ یہ پاٹ آپ اکیلے نہیں کرسکتے ۔دو منش مل کر پاٹ لگائیں گے تو کام سدھرے گا۔باقی آپ اپنا کام خوب جانتے ہیں ‘‘
زندہ مردے کی بات سن کر پتا گرو نے ہانک سی بھری اور میرے باپ کی طرف دیکھا ۔یہ سنگت پاٹ صرف میراباپ ہی لگا سکتا تھا ورنہ کوئی دوسرا ایسی پوجا میں اسکا ساتھ دینے کے قابل نہیں تھا ۔میرا باپ تو موت کی دہلیز پر پہنچ چکا تھا تو کیا پوجا پاٹ مکلمل نہ ہوا تو قبروں سے نکلنے والے مردے واپس قبروں میں نہیں جائیں گے۔اگر نہیں جائیں گے تو کہاں جائیں گے۔وہ بستی میں نکل جائیں گے؟ ایسے میں کوئی انسان ان کے سامنے آگیا تو وہ ا نہیں دیکھ کر دہشت سے مرجائے گا؟ صورتحال انتہائی گھمبیر تھی کیونکہ یہ مردے زندہ انسانوں کا خون پی کر عفریت بن سکتے تھے اور اس زندہ مردے نے یہی کچھ پتا گرو کو صاف صاف بتا دیا تھا۔
پتا گرو کو معلوم تھا کہ اگر ایک بار اس قبرستان میں ایک مہان پجاری عامل کے راز کھل گئے جو کہ مردوں کے بستی میں چلے جانے سے کھل سکتے تھے ،تو اس کے حق میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا تھا ۔
سر۔شیطان بہت بڑا عامل ہے۔وہ اپنے پجاریوں کو آسانی سے نہیں مرنے دیتا اور اپنی ابلیسی قوتوں سے انہیں بچانے کا راستہ دیتا ہے۔ اگر اس سمے سارا کچھ پتا گرو کی اِچّھا کے برعکس ہوتا تو میرا باپ اور مجھ سمیت وہ خود بھی مرسکتا تھا اور ابلیس تو کبھی نہیں چاہے گا کہ جب اس کا اپنا سمے چل رہا ہوتو بدی کی طاقتیں اسکے چیلوں کو برباد کرکے اس کا کارخانہ بند کردیں۔ لہذا اس سمے کیا ہوا ہوگا ،شاید آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ شیطان کی دنیا کے علم کا جادو کہاں کہاں چلتا ہے۔لیکن یہ جو کچھ بھی ہے،نور حق کے سامنے کچھ نہیں ۔۔۔
پتا گرو نے زندہ مردے سے پوچھا ’’ تو مجھے کوئی گیانی لگتا ہے ۔بتا مجھے کیا کرنا ہوگا کہ میرا یہ چیلا مرنے سے بچ جائے اور سمے کی گھٹناؤں پر میں اپنا وار کرنے میں کامیاب ہوجاؤں‘‘
زندہ مُردے نے بتیسی کھول کر لمبا سا ڈکار لیا’’ شما کرنا گرو۔میں صدیوں سے سویا پڑا تھا ۔ابھی تیرے شبدوں اور گرہنوں کے ملن سے مجھے جیون کی آس ملی ہے ۔میں تو تیرا بھلا ہی چاہوں گا اور یہ تو نے ٹھیک کہا ہے ۔میرے پُرکھ بھی یوگی تھی اور ان کے گیان سے میں پرماتما کے مندر کا سیوک بن کر برسوں تک گیان بھی سیکھتا رہا ہوں ۔اب جیسا میں تجھے بتاتا ہوں ویسا کرلے تو اپنے گرو چیلے کو بچا سکتا ہے لیکن تجھے وچن دینا ہوگا کہ تو اپنا دھرم شالہ یہاں سے اٹھا لے گا تاکہ میری پتنی کی روح واپس اس استھان میں واپس آجائے۔اسکے بغیر میرا یوگ پاٹ پورانہیں ہوتا ۔میری پتنی بھی بہت بڑی گیانی تھی ۔اس لئے ہم روحوں کی دنیا میں بھی یوگ تروگ ہوتے ہیں اور اسکے اپنے وچار ہیں ۔‘‘
پتا گرو نے اسکی جانب گہری نظروں سے دیکھا’’ وچن ۔۔۔‘‘ وہ ایک لمحہ کے لئے چپ ہوااور بولا’’ تو جانتا ہے میں نے یہ گرو استھان بنایا کیوں تھا؟اس لئے کہ اس قبر کے تلے مسلمان کا مردہ دفن نہیں تھا ۔میرے وچاروں نے بتایا تھا کہ صدیوں پہلے یہاں سے ایک کوس پرے دریا بہتا تھا اور اِدھر اس کنارے پر ایک دھرم شالہ تھی جو بہت بڑی گھٹنا کے باعث ملیا میٹ ہوگئی تو تم سب اس میں زندہ گڑھ گئے تھے۔بہت بعد میں جب یہاں بستیاں آباد ہوئیں اور یہ جگہ قبرستان میں بدلی تو تمہاری لاشیں جوں کی توں موجود تھیں۔لوگ حیران ہوئے اور انہوں نے تم لوگوں کو کفن دے کر دفنا دیا اور قبریں بنا دیں حالانکہ کوئی یہ جان کاری رکھتا کہ تم ہندو ہو تو وہ تمہیں جلا دیتے ۔یہ تو اوپر والا ہی جانتا ہے کہ تم کو سلامت رکھنے میں کیا بھید تھے۔میں نے تمہاری اس دھرم شالہ کو گرواستھان بنایا اور تماری پتنی کی لاش کو قبرسے نکال کر بوڑھے برگد کی کھوہ میں دبا دیا ۔مجھے تمہاری پتنی سے بہت سے کام لینے ہیں ابھی ۔۔۔ لیکن اگر کوئی اور راہ نہیں تو میں اپنا ارادہ بدل دیتا ہوں ۔تو مجھے بتا مجھ کو کیا کرنا ہے اور میں وچن دیتا ہوں یہ استھان چھوڑ دوں گا‘‘
زندہ مردے نے یہ سنا تو اس نے اطمینان بھری سانس لی’’ تجھے مکتی دینی ہوگی اکیس مُردوں کو اور ان کو صندل میں جلا کر انکی راکھ اپنے چیلے کے پورے بدن پر مل کر گنگا جل سے اشنان کرانا ہوگا۔ گنگا جل تو تیرے پاس ہے، اکیس مردوں کی راکھ اور صندل نہیں ہے تیرے پاس ۔۔۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے۔باہر نکل اور بستی کی جانب جانے والے مُردوں کو پکڑ لا،صندل تجھے کہاں ملے گی وہ بھی تجھے بتادوں گا ۔تیرے پاس سمے بہت کم ہے‘‘ اس نے میرے باپ کی جانب دیکھا جس کا سر اب گردن پر جھک رہا اور چوڑا سینہ اور بازوبھی ڈھیلے پڑ رہے تھے۔
پتا گرو اس کی ہدایات سن کر کچھ دیر کے لئے خاموش رہا ۔فکر سے اسکے چہرے کے خدوخال نہایت بدحال سے دکھائی دے رہے تھے۔اس نے پہلے تو لاچارگی سے میرے باپ کو دیکھا،میرا باپ جو پتا گرو کے جنموں کی آس تھااور ان دونوں کی آسیں مجھ سے جڑی ہوئی تھیں مگر آسوں کی یہ ڈوری ٹوٹ رہی تھی ۔پتا گرو ایک نحیف بدن انسان تھا ، پیرانہ سالی سے اسکا بدن جھکا ہوا تھا لیکن تپسیا اور اسکی طاغوتی قوتیں اسکو کمزور ہونے نہیں دے رہی تھیں ۔اسکا عمل زوردار تھا لیکن اس سمے وہ خود کو بے بس محسوس کررہا تھا ۔بالاخر اس نے استھان سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا اور کہا’’ گیانی میں باہر جا رہا ہوں اور تو میرا پہرہ دے گا اِدھر ۔‘‘
زندہ مردے کو گیانی کے نام سے پکارا جانا اچھا لگا’’ پربھو تم سکون سے جاؤ ۔تو میرے دھرم کی رکھشا کرتا ہے اور گیان کا بندہ ہے۔میں تیرے سیوکوں کی رکھشا کروں گا۔۔۔ لیکن پھر بولے دیتا ہوں کہ جلدی لوٹ آنا‘‘
پتا گرو نے اثبات میں سر ہلایا اور ایک لمحے کے لئے آنکھیں موند کر زیر لب شبد پڑھنے لگا ۔پھر آنکھیں کھولیں اور اپنے گلے میں پہنی مالا اتار کر ہاتھ میں پکڑ لی ،اونچے شبد پاٹ لگاتا وہ قبر استھان سے باہر نکل گیا۔
( جاری ہے)

جناتی، جنات کے رازداں کے قلم سے۔۔۔ اکیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

جناتی -