پیپلز پارٹی کا اصل چہرہ

پاکستان پیپلز پارٹی کہنے کو تو وفاق کی علامت کہلاتی ہے مگر ایک پاکستان کی بات کرتے کرتے یہ پارٹی سندھ پیپلز پارٹی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور تعصب و صوبائیت کا پرچار کرنے لگتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ جمہوریت، آئین،وفاق اور اکائیوں کی ساری باتیں بھول جاتی ہے اور اپنے گھر کو مقدم جان کر مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں کے نعرے لگانا شروع کر دیتی ہے۔ جبکہ حقیقت وہی ہے جو وزیر اعظم شہباز شریف نے کبھی کہا تھا کہ بلاول دراصل یہ نعرہ لگاتے ہوئے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ مرسوں مرسوں،کم نہ کرسوں!
دریائے سندھ سے نہرنکالنے کا معاملہ لے لیجئے۔سندھ نے خوامخواہ کا واویلا مچایا ہوا ہے اور اسے مرنا جینا بنا لیا ہے حالانکہ دریائے سندھ صرف سندھ کا نہیں ہے، بس اتنی سی بات ہے کہ سندھ سے آگے سمندر میں جا گرتا ہے۔ اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ اصل میں تو دریائے سندھ بحیرہ عرب کا ہے،اس کا حق ہے کہ آبی حیات کی بقاء کے لئے اور اپنی سطح برقرار رکھنے کے لئے دریائے سندھ سے مطلوبہ مقدار میں پانی لے۔ اس کے علاوہ اگر صوبہ سندھ اس کے اضافی پانی کو لے کر اپنے آدھے حصے کو پانی میں ڈبوئے رکھتا ہے تو اس سے سندھ کا فائدہ ہے نہ پاکستا ن کا اور نہ ہی بحیرہ عرب کا!۔۔۔ گاہے گاہے کبھی اندرون سندھ سفر کرنے کا موقع بنا ہے تو یوں لگا ہے کہ دریائے سندھ کا اضافی پانی اس صوبے کی غربت کا سبب بنا ہو اہے کیونکہ کئی ایک زرعی زمینوں کو گھٹنے گھٹنے پانی میں ڈوبے پایا ہے جہاں پر سوائے پانی کے کچھ نہیں اگ سکتا اور اس کے اردگرد بسنے والے سندھ کے غریب ہاری کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ دلچسپ مشاہد ہ بھی ہوا کہ سندھ میں غریبوں کی اکثریت قینچی چپل پہنتی ہے، پنجاب کی طرح پلاسٹک سمیت چمڑے سے بنے ہوئے کھسے کم ہی کسی کو پہنے دیکھا ہے اور دلچسپ مشاہدہ شام پڑتے ہی در آتا ہے کہ پورا سندھ ایک اندھے کنوئیں کی مانند گھپ اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے اور اس میں اترے لوگوں کوہاتھ سے ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، آپ سرشام موٹر وے کے ذریعے بہاولپور سے آگے کا سفر کیجئے، سکھر تک یوں محسوس ہوگا جیسے کسی اندھیری سرنگ سے گزر رہے ہیں کیونکہ پنجاب کی طرح ہر چند میل کے فاصلے پر وہاں اردگرد کی بستیوں سے بجلی کے قمقمے نظر نہیں آتے، بس ایک پراسرار اندھی خاموشی آپ کو ڈرائے رکھتی ہے اور آپ جتنی بھی قرآنی آیات یاد ہوتی ہیں، ان کا ورد کرتے ہوئے منزل مقصود پر جا کر ہی دوسرا سانس لیتے ہیں۔ کوئی سندھ باسیوں سے پوچھے کہ اگر سندھ سے انہیں اتنا ہی لگاؤ ہے تو اس کے پانی سے حاصل ہونے والی خوشحالی کن دیواروں پر بال کھولے سو رہی ہے، کیا یہ خوشحالی چندگنے چنے وڈیروں کا ہی مقدر ہے، کیا باقی سندھ کے باسی غلام ابن غلام کی تصویر بن کر ہی زندگی گزارتے رہیں گے۔ سندھ میں وڈیرہ شاہی کا عالم یہ ہے کہ ان وڈیروں کے فارم ہاؤسوں پر بم پروف خواب گاہیں بھی تعمیر کروائی گئی ہیں تاکہ انہیں سوتے میں کوئی گزند نہ پہنچ سکے جبکہ ان خواب گاہوں کی حفاظت پر مامور کارندوں کو ڈھنگ کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی، ان کی قسمت میں گائے بھینسوں کے باڑے میں پڑے رہنا لکھا ہوا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ وہاں ایسی ٹھنڈی ہوائیں بھی دن بھر نہیں چلتیں، جو پنجاب کی ہریالی کا مقدر ہیں۔
ان حالات میں پاکستان پیپلز پارٹی جب سندھ کے وڈیروں کے مفادات کا تحفظ کرتی پائی جاتی ہے اور روٹی کپڑا مکان کے کھوکھلے نعروں سے غریبوں کا دل بہلاتی نظر آتی ہے تو دِل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس پارٹی نے غریبوں کے دلدر دورنہیں کئے ہیں، بس وڈیروں کے مفادات کی نگرانی کی ہے اور وہ بھی آئین، جمہوریت اور وفاق کی علامت کے پردے میں کی ہے، کوئی اس جماعت سے پوچھے کہ کیا چولستان کے عوام کا حق نہیں ہے کہ وہاں خوشحالی آئے،وہاں زرعی انقلاب برپا ہو، وہاں گھروں کے آنگنوں میں خوشیاں ناچیں۔ آپ سندھ کے تھر میں چلے جائیے اور دیکھئے کہ دریائے سندھ کی نعمت سے معمور اس خطے میں کیسے غربت راج کرتی ہے، وہاں عورتیں اور مرد 45ڈگری کی گرمی میں سورج تلے پنکھے لگا کر بیٹھی پائی جاتی ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی نے ان کی حالت زار کو بہتر بنانے کی بجائے وڈیرہ شاہی کو فروغ دیا ہے۔
دریائے سندھ کے پانی کو جس بے دردری سے سندھ کے وڈیروں نے ضائع کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ دریائے سندھ سے چھہ نہیں چھہ سو نہریں نکالنا چاہئیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کاکیا ہے،اس نے جو روش اختیار کر رکھی ہے اس کے سبب پنجاب سے آؤٹ ہو چکی ہے اور اگر اس روش کو ترک نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں ہے جب سندھ سے بھی آؤٹ ہو جائے گی۔ لوگ اب اس کے کھوکھلے نعروں سے دھوکہ نہیں کھاتے اور اس کے باوجود کہ پی ٹی آئی اور عمران خان نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، مگر پنجاب کے وہ عوام جو کبھی پیپلز پارٹی کا دم بھرتے تھے، آج چاہنے کے باوجود جئے بھٹو نہیں کہہ پار ہے ہیں کیونکہ بھٹو کے وارثوں نے جس طرح لوگوں کی غربت کا مذاق اڑایا ہے اور وفاقی وسائل کو مفت کا مال سمجھ کر لوٹا ہے اس کو دیکھ کر غریب بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اس پارٹی کی حمائت سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ اب اگر دریائے سندھ پر بھی اس نے احمقانہ سیاست کا چلن جاری رکھا تو جلد ہی سندھ کے غریب غرباء بھی اس پارٹی کو ڈس اون کردیں گے۔
٭٭٭٭٭