قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 118
ایک صاحب قاسمی صاحب کے پڑوس میں رہتے تھے۔ ایک دن مجھ سے ملے اور قاسمی صاحب کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ قاسمی صاحب سے آپ کی ملاقات نہیں ہوئی۔
کہنے لگے ’’ نہیں قتیل میں تو یہ سوچتا ہوں کہ میں انہیں اس حال میں دیکھوں گا تو میرا کیا حال ہو گا‘‘
میں نے کہا’ ان کا کیا حال ہے۔ انہوں نے بڑے ہونے کا ثبوت دیا ہے اور اصول پرستی کی ہے ۔ یہ حال دیکھ کر تمہیں غش پڑ جائے گا‘‘
کہنے لگے ’’ دراصل وہ چار مہینے سے بیکار ہیں‘‘
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 117 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے کہا’’ شاید اس واسطے ہی آپ کو غش پڑ جائے گا کہ کہیں وہ آپ سے کچھ مانگ نہ بیٹھیں‘‘ میں نے کہا’’ قاسمی صاحب کے چاہنے والے بے انتہا ہیں اور پھر وہ گھر سے بھی اتنے گئے گزرے نہیں ہیں کہ ان پر فاقوں کی نوبت آجائے۔تم ان کے پاس جاؤ۔ تمہیں یہ دیکھ کر خوشی ہو گی کہ وہ آج کل بھی پہلے سے زیادہ گھر بیٹھے کمار رہے ہیں اور اگر نہ بھی کماتے ہوتے تو وہ پہلے بھی تم سے مروت کرتے تھے اور اب بھی مروت کرتے اور پوچھتے کہ بھائی تمہیں کوئی ضرورت ہے تو لے جاؤ‘‘ان صاحب کی طرف سے نہ ملنے کا دراصل یہ ایک عذر لنگ تھا۔ درحقیقت لوگ ڈرتے تھے کہ مارشل لاء کو قاسمی صاحب نے آنکھیں دکھائی ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے ملنے جلنے سے سی آئی ڈی والے ہمارے پیچھے پڑ جائیں۔ چنانچہ ایسے افراد کے دلوں میں بزدلی بھی تھی اور مصلحت اندیشی بھی تھی۔
ٰٓٓایسے حالات میں کچھ لوگ کس طرح کام آتے ہیں؟ یہ بھی دیکھئے ۔ میں نے قاسمی صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ فلموں کے لیے مکالمے لکھئے اور میرا خیال ہے کہ آپ اس کام کیلئے بہت ہی مناسب ہیں۔ ان سے یہ بات کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں فلم لائن میں سانگ رائیٹر کے طور پر موجود تھا اور میں اس زمانے میں فلم لائن میں سب سے زیادہ مصروف آدمی تھا اور میری اس زمانے میں سنی بھی جاتی تھی۔اور قاسمی صاحب کا اپنا بھی بہت زیادہ نام تھا۔ میں اگر ان کا نام پیش کرتا تو کسی کو اس پر اعتراض کی گنجائش نہ ہوتی بلکہ لوگ خوش ہوتے ۔ چنانچہ میں نے قاسمی صاحب کو راغب کیا کہ فلم کے لیے لکھیں۔ میں نے جس شخص سے بھی بات کی اس نے یہی کہا کہ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ قاسمی صاحب ہمارے لیے لکھیں۔
اس موقع پر فضلی صاحب ایک بار پھر کام آئے۔ میں نے جب ان سے بات کی تو کہنے لگے کہ صاحب ہماری ایسی قسمت کہاں کہ وہ ہمارے لیے ڈائیلاگ لکھیں ۔ فضلی صاحب نستعلیق آدمی تھے۔ اور ان کا بات کہنے کا یہ ایک انداز تھا۔ میں نے انہیں کہا کہ قاسمی صاحب آپ کیلئے لکھیں گے۔ میں نے فضلی صاحب کو بتایا کہ تین چار اور پروڈیوسر بھی قاسمی صاحب سے لکھوانے کی ہامی بھر چکے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ قاسمی صاحب کے سٹینڈ رڈ کا پروڈیوسر ہو جس کی بات قاسمی صاحب سمجھ سکیں اور جو خود بھی قاسمی صاحب کی بات سمجھ سکے جس سے قاسمی صاحب آغاز کریں۔ میں نے کہا کہ میری نظر میں بات نہیں ہے۔ آپ معاملہ طے کروا دیجئے اور قاسمی صاحب جو کہیں میں اس کیلئے حاضر ہوں ۔ چنانچہ قاسمی صاحب کا سلسلہ بڑے معقول پیسوں سے طے ہو گیا ۔ اس زمانے میں ڈائیلاگ رائٹر جتنے پیسے لیتا تھا اس سے کم و بیش ڈیڑھ گناہ معاوضہ پر قاسمی صاحب سے معاملہ طے کیا گیا ۔ اور فلم کا آغاز کر دیا گیا۔ لیکن فضلی صاحب کا مزاج دھیما سا تھا۔ وہ کام جلدی نمٹانے کی یا تو اہمیت نہیں رکھتے تھے اور یا پھر سوچتے بہت تھے۔ کچھ وہمی تھے اور بعض چیزیں بنا بنا کر توڑ تے رہتے تھے۔ اس طرح معاملہ آگے نہیں بڑھ پاتا تھا ۔ تاہم قاسمی صاحب نے اس زمانے میں اپنے ڈائیلاگ مکمل کر لیے تھے اور انہیں معاوضہ بھی پورا مل چکا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور پروڈیوسروں سے بھی ہماری وساطت ہے قاسمی صاحب کا معاملہ طے ہوا اور بیروزگاری کے زمانہ میں عزت آبرو سے قاسمی صاحب کا کام چلتا رہا۔
میں موازنہ کر کے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بیشتر لوگ ایسے ہیں جو مشکل وقت میں کام نہیں آتے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی مل جاتے ہیں جو مشکل وقت میں کام بھی آتے ہیں اور اس میں خوشی بھی محسوس کرتے ہیں۔ میرا معاملہ تو یہ تھا کہ میں تو قاسمی صاحب کا شاگرد تھا اور میرا تو فرض تھا کہ میں ان کے کام آؤں۔ لیکن اس سلسلے میں کچھ اور لوگوں نے بھی میرے ساتھ شمولیت کی جنہیں میں آج بھی داد دیتاہوں کہ انہوں نے جو ہر شناسی کا ثبوت دینے کے علاوہ ایک ایسے بڑے ادیب کا ہاتھ بٹایا جو بظاہر فلم کے لیے کام نہیں کرتا تھا لیکن فضلی صاحب کے اس زمانے کے ریمارکس میں آپ کو بتاتا ہوں۔ انہوں نے جب قاسمی صاحب کا سکرپٹ دیکھا تو کہا کہ قاسمی صاحب نے میرا تو مسئلہ ہی حل کر دیا ہے کیونکہ مجھے یہاں سکرین پلے لکھنے والا کوئی آدمی نظر نہیں آرہا تھا۔انہوں نے جو ڈائیلاگ لکھے ہیں ان کے ساتھ سکرین پلے اتنا مکمل ہے کہ مجھے آدھی ڈائریکشن تو اس میں سے ہی ملتی نظر آتی ہے ۔ فضلی صاحب نے مجھے کہا کہ قاسمی صاحب سے کہیے کہ وہ اس کام کو جاری رکھیں کیونکہ ان سے زیادہ مناسب آدمی مجھے نظر نہیں آتا۔
لیکن حقیقت یہ تھی کہ خدا جانے کیوں قاسمی صاحب اپنی نسبت فلمی ڈائیلاگ سے مناسب نہیں سمجھتے تھے۔یہ نہیں کہ وہ فلمی کام کو برا سمجھتے تھے۔ ان کے سامنے راجندر سنگھ بیدی، اوپندر ناتھ اشک، سعادت حسن منٹو اور کرشن چندر جیسے ان کے پیشرو بھی موجود تھے جو فلم میں کام کر چکے تھے اور اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے تھے۔ چنانچہ قاسمی صاحب اس بات کے قائل بھی تھے لیکن کہتے تھے کہ میرا دل اندر سے اس کام کیلئے مائل نہیں ہو پاتا۔ بہر حال ان کا وہ زمانہ خیریت سے گزر گیا اور آگے حالات بدلے تو انہوں نے فلم سے کبھی اپنی رغبت کا اظہار نہیں کیا۔(جاری ہے)
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .آخری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں