مدارس رجسٹریشن…… علماء اکرام کا اتفاقِ رائے ضروری!
گزشتہ دس سال سے زائد عرصہ سے ہمارے ملک کے زیادہ فیصلے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے کر رہے ہیں ملکی معیشت کی مضبوطی کے نام پر قرضوں کا حصول اور پہلے سے لئے گئے قرضوں کی سود سمیت ادائیگیاں اور موجودہ حکومت کا پہلے سال میں ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ قرضہ حاصل کرنے والوں میں شامل ہونا لمحہ فکریہ ہے،”سات ہزار ارب سے زائد کا قرضہ“ آئی ایم ایف اور اس کے ادارے ایسا سانپ ہیں کہ پھن پھیلائے ہمارے ہر شعبے،ادارے کو تہس نہس کرتے نظر آ رہے ہیں آج کی نشست کا موضوع نہیں ہے،مگر مختصر حوالہ ضروری ہے۔ ہمارے وطن عزیز کا60فیصد سے زائد نوجوانوں کا مستقبل جس تیزی سے اندھے کنوئیں میں دھکیلا جا رہا ہے، خطرے کی گھنٹی ہے۔
کہا جا رہا ہے سرکاری ادارے نئی ملازمتیں نہیں دے سکتے۔اگر کوئی ادارہ غلطی سے کسی کو ملازم رکھ رہا ہے اس کے لئے شرط عائد کر دی گئی ہے بھرتی عارضی ہو گی، جتنی دیر نوکری کرے گا کنٹریکٹ پر ہو گی، گریجویٹی اور پنشن نہیں ہو گی،اندھیر نگری ہے جو سالہا سال سے سرکاری نوکریوں پر ہیں ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر60 سال سے کم کر کے55سال کی جا رہی ہے،اچھے بھلے سرکاری اداروں کو پرائیویٹ کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تفصیلات پھر کسی نشست میں،آج بات کرنی ہے دینی مدارس کی، جن کی رجسٹریشن حکومت کے لئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔تمہید میں عرض کر چکا ہوں ہمارے دینی مدارس کی رجسٹریشن بھی ہماری حکومت کے منشور کا حصہ نہیں ہے جس پر عملدرآمد کر کے عوام کی عدالت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ دینی مدارس کو نیٹ میں لانا، ان کی رجسٹریشن کرنا،ان کی آزادی کے آگے پُل باندھنا یہ ہماری بڑی سرکار یعنی مغربی طاغوتی طاقتوں کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ یہ ہماری حکومتوں کی مجبوری اس لئے ہے ہماری عیاشیاں،ہمارے قرضے، ہماری مراعات ان کی شرائط پوری کرنے سے مشروط ہیں۔قارئین کی دلچسپی کے لئے عرض کروں گا26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ مولانا کی طرف سے مدارس رجسٹریشن کے بل کو وزارت صنعت سے منظور کرانے کی شرط سے اس کو شہرت نہیں ملی البتہ سود کے 2028ء سے خاتمے کو البتہ شہرت ضرور ملی۔ عرض کروں گا 2018ء سے پہلے اور 2019ء میں تحریک انصاف کی حکومت نے مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے جو قانون سازی کی گئی اس کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو اخلاص نظر نہیں آتا۔ گزشتہ دس روز سے سرکاری اداروں کے علماء اکرام اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان جو مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ڈیڈ لاک سامنے آیا ہے دِلی طور پر مجھے وفاقی وزیر مذہبی امور، وزیر اطلاعات،وزیر تعلیم، اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ اور سرکاری علماء اکرام کی طویل پریس کانفرنس سن کر افسوس ہوا ان کی طرف سے مولانا کو چیلنج کرنا اور محکمہ تعلیم سے رجسٹریشن کے قانون کا موجود ہونا اور پھر اِس بات پر بضد ہونا کسی نئے بل کی ضرورت نہیں ہے؟
سرکاری وزراء کی پریس کانفرنس کے بعد مجھے مولانا فضل الرحمن،مفتی اعظم تقی عثمانی، مولانا حمد للہ، مولانا فضل الرحیم کی تفصیلی گفتگو بھی سننے کا موقع ملا۔ مولانا کا کہنا ہے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے حکومتی بدنیتی کھل کر سامنے آئی ہے۔26ویں آئینی ترمیم کے وقت کچھ نہیں کیا گیا تمام مرضی کے کام ہونے کے بعد ایک ساتھ منظور ہونے والے بلوں میں اس اہم بل کو شامل نہیں کیا گیا یہ لاکھوں طلبہ طالبات جو دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں ان سے مذاق نہیں ہے؟ پوری پاکستانی قوم سے مزاق ہے۔ مولانا حمد للہ نے بھی حکومتی عمل کو دھوکہ دہی قرار دیا ہے۔سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت وزارت صنعت سے رجسٹریشن کے لئے دلائل دیئے ہیں اس سے اداروں کی خود مختاری قائم رہے گی۔ مولانا فضل الرحیم کے بیان کو بلاوجہ متنازعہ بنانے اور سرکاری طورپر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی یہ درست عمل نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر تاثر دینا ملک بھر کے علماء اکرام پہلے سے موجود نظام اور رجسٹریشن کے طریقہ کار سے متفق ہیں یہ بھی ٹھیک نہیں ہے یہ بات حکومت کو اُس وقت کرنا چاہئے تھی جب 26ویں ترمیم کے درجنوں بلوں کے ساتھ یہ بل پیش کیا جا رہا تھا اب حکومت اور مولانا فضل الرحمن دونوں کو درمیانی راستہ نکالنا چاہئے ایجنڈا صرف رجسٹریشن تک یا نیٹ میں لانے تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ مولانا کا موقف دینی اداروں کی خود مختاری قائم رہنی چاہئے اس پرکوئی کمپرومائز نہیں ہونا چاہئے البتہ کمپنی ایکٹ کے ذریعے رجسٹریشن ہو یا محکمہ تعلیم کے لئے دوعملی نہیں ہونا چاہئے دینی مدارس کی ضروریات ان کا تشخص، مالی معاملات کے لئے اکاؤنٹ کھولنے سمیت دیگر امور میں حکومتی معاونت بغیر کسی رکاوٹ اور پیچیدگیوں کے ہونی چاہئے۔حکومت سے درخواست کرنی ہے تمام مسالک وہ شیعہ ہو یا سنی،دیو بندی الحدیث ہوں یا جماعت اسلامی، تمام کے اپنے بورڈ ہیں سارے مدارس ان میں رجسٹرڈ ہیں وہ قوائد کے مطابق امتحانات لیتے ہیں حکمت ادارے ان بورڈز کو مفید اور شفاف بنائے نہ کہ رجسٹریشن کے نام پر دنیا بھر میں دینی مدارس جو پاکستان کی پہچان ہیں ان کا تماشا لگائیں۔
٭٭٭٭٭