ڈی جی آئی ایس پی آر کی ایک اور اہم کانفرنس

ڈی جی آئی ایس پی آر کی ایک اور اہم کانفرنس
 ڈی جی آئی ایس پی آر کی ایک اور اہم کانفرنس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار نے سوموار (11جنوری 2021ء) کو جو پریس کانفرنس کی وہ ہمیشہ کی طرح دوٹوک اور اہم تھی۔ پہلے دوٹوک کی بات کر لیتے ہیں ……
لائن آف کنٹرول پر جو ترک تازیاں انڈیا ایک عرصے سے کر رہا ہے وہ نہ صرف پاکستان اور انڈیا بلکہ دیا بھر کو معلوم ہو چکی ہیں۔ اگردنیا اس کے باوجود بھارت سے چمٹی ہوئی ہے تو اس کی وجہ دنیا کی اقتصادی مجبوریاں  ہیں۔ انڈیا ایک بڑا ملک ہے اور اس کی دفاعی محدودات بھی اس حوالے سے بڑی ہیں۔ چین اور پاکستان سے اس کی دشمنی، دنیا کے جدید اور طاقت ور ممالک کے لئے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ ان کی آمدن کا دارومدار انڈیا کو (اور عرب ممالک کو) اپنی دفاعی مصنوعات فروخت کرنے پر ہے۔ جب وہ ممالک اخلاقی اقدار اور اقتصادی اقدار کے مابین کسی ایک طرف کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو اقتصادیات جیت جاتی اور اخلاقیات ہار جاتی ہیں۔ جب پاکستان کی برآمدات بھی انڈین لیول پر پہنچیں تو وہ بھی یہی چلن اپنانے پر مجبور ہو گا…… یہ ایک گلوبل مجبوری کہی جا سکتی ہے۔


جنرل بابر افتخار نے اس طرف ایک ہلکا سا اشارہ کیا ہے کہ انڈیا جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے لیکن پاکستان کے پاس بھی وہ ٹیکنالوجی موجود ہے۔ میڈیا کے کسی نمائندے نے جنرل صاحب سے یہ سوال نہیں پوچھا کہ وہ جدید دفاعی ٹیکنالوجی کیا ہے اور پاکستان کے پاس اس کا توڑ  ہے بھی یا نہیں۔ میری نظر میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا اشارہ رشین ائر ڈیفنس سسٹم S-400اور رافیل طیاروں کی طرف تھا۔ ایس۔400 ایک فضائی دفاعی نظام ہے جس کے بارے میں میڈیا پر بہت کچھ کہا سنا جا چکا ہے۔ امریکہ، انڈیا کو خبردار کر رہا ہے کہ یہ رشین دفاعی نظام نہ خریدو اور ہمارے ائر ڈیفنس سسٹم کی طرف آؤ۔ لیکن انڈیا نے امریکہ کی یہ بات نہیں مانی۔ اس موضوع پر بین الاقوامی میڈیا میں بہت تفصیلی خبریں اور معلومات آ چکی اور آ رہی ہیں اور اس مختصر سے کالم میں ان کا صرف حوالہ ہی دیا جا سکتا ہے…… قارئین کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ پاکستان نے حال ہی میں ایک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے جس کی رینج 140 کلومیٹر تھی اور اس کو ملٹی پل ٹیوبوں سے فائر کیا جا سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ میزائلی نظام، روس کے S-400ائر ڈیفنس سسٹم کے قبیلے کا ہی ایک سسٹم ہے اور پاکستان جس کا تجربہ کر چکا ہے جبکہ بھارت ابھی انتظار میں ہے کہ ماسکو کب اسے یہ سسٹم ڈلیور کرتا ہے……


اور جہاں تک فرانسیسی رافیل طیاروں کا تعلق ہے تو فرانس معاہدے کے مطابق 36رافیل انڈیا کو 2023ء تک دے دے گا۔ انڈیا نے فرانس کو کہا تھا کہ ان طیاروں کا ایک پلانٹ ہندوستان میں بھی لگا دو جس کا جواب پیرس کی طرف سے یہ آیا کہ اگر انڈیا 100سے زائد رافیل خریدنے کا معاہدہ کرے اور ان کی Payment کا 50% (یا اس سے زیادہ) پیشگی ادا کر دے تو تب ہی یہ سودا فرانس کے لئے Viable ہوگا وگرنہ نہیں۔ انڈیا کو بوجوہ یہ شرط منظور نہیں تھی اس لئے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ انڈیا کے پاس اس وقت لڑاکا طیاروں کا جو بیڑا ہے وہ خاصا قدیم اور تقریباً از کار رفتہ ہوتا جا رہا ہے اس لئے فرانس کو بھی معلوم ہے کہ اس نے اپنے کارڈ کس ہوشیاری سے کھیلنے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے پاس رافیل کا بھی کافی و شافی جواب موجود ہے اور JF-17 کے بعد J-10 بلکہ J-20 بھی پاکستان میں جزوی طور پر اسمبل کرنے کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے۔ حال ہی میں چین نے اپنے J سیریز کے لڑاکا طیاروں میں رشین انجن کی جگہ خانہ ساز انجن نصب کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ بھاری ہتھیاروں میں انجن سب سے زیادہ اہم اور پیچیدہ پرزہ ہوتا ہے۔پاکستانی ٹینکوں، آبدوزوں اور طیاروں وغیرہ میں جو انجن لگے ہوئے ہیں وہ روسی اور فرانسیسی انجن ہیں۔ پاکستان ویسے بھی اب فرانسیسی آبدوزوں کی جگہ چینی آبدوزیں (اور دوسرے بحری پلیٹ فارم) خرید رہا ہے جن کے انجن چین ہی میں تیار کئے جا رہے ہیں۔ اب تک خود چین بھی، روسی انجن استعمال کر رہا تھا……


جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو وہ اپنے ارجن ٹینک کے انجن روس سے اور اپنے تیجا میڈیم لڑاکا طیارے کے انجن بھی روس ہی سے درآمد کر رہا ہے۔ رافیل اگر انڈیا میں اسمبل کئے گئے تو ان کے انجن پھر بھی فرانس ہی سے آئیں گے۔ پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جاپان نے اب تک ہونڈا، ٹیوٹا اور سوزوکی کاروں کے انجن پاکستان کو نہیں دیئے لیکن چین جو کاریں پاکستان میں اسمبل کرے گا ان کے انجن بھی پاکستان میں اسمبل کئے جائیں گے۔


جنرل بابر افتخار اپنی کانفرنس میں اسی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ پاکستان، انڈیاکی ان کوششوں سے بے خبر نہیں کہ وہ بیرونی ممالک (رشیا، اسرائیل، امریکہ، فرانس) سے جو سٹیٹ آف دی آرٹ اسلحہ سسٹم خرید رہا ہے اس کی ساری تفصیلات اس کے پاس ہیں۔ اور ان کا علاج بھی…… اس کانفرنس میں جنرل بابر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان، انڈیا کو روائتی ہتھیاروں کا بیلنس غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ جب وہ یہ بات کر رہے تھے تو واقفانِ حال جانتے تھے کہ ان کا اشارہ کس انڈین ڈیفنس سسٹم اور کس جدید جنگی ہتھیار سے ہے۔


ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک اور طرف بھی مختصر اشارہ کیا اور وہ یہ تھا کہ پاکستان، افغان سرحد پر جو باڑ نصب کر رہا ہے اور جس کا 83% حصہ مکمل ہو چکا ہے، اس کو اکھاڑنے یا گزند پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور کوئی مائی کا لال اس باڑ کو اکھاڑنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا۔
ان کی اس یقین دہانی کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے…… کچھ روز پہلے ایک وڈیو انڈیا کی طرف سے سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی تھی۔قارئین میں سے کئی حضرات نے وہ وڈیو دیکھی ہوگی۔ اس میں انڈیا اور بنگلہ دیش کی سرحد پر بھی اسی قسم کی باڑ (Fencing) لگائی گئی ہے (اور لگائی جا رہی ہے) جس قسم کی پاک افغان اور پاک ایران سرحد پر لگائی جا رہی ہے۔ اس وڈیو میں ایک کرین دکھائی گئی ہے جو انڈین سرحد پر کسی جگہ لائی جاتی ہے۔ اس کا بازو باڑ کے اوپر سے گزار کر بنگلہ دیش کی طرف لے جایا جاتا ہے جہاں 5،7 بنگالی (یا بنگلہ دیشی ہندو)  ایک گائے کو ایک تڑنگڑ میں باندھ کر اٹھاتے ہیں اور دوسری طرف انڈیا میں جا کر اس گائے کو آہستگی سے اتار لیتے ہیں۔ اس وڈیو میں 4،5گائیں اسی طرح اس کرین کے ذریعے بنگلہ دیش سے اٹھا کر انڈیا میں اس کرین کی مدد سے پہنچائی جاتی ہیں …… پاکستان میں یہ سوال اٹھنے لگا تھا کہ اگر وہاں گائے بھینسیں اس طرح باڑھ سے پار اتاری جا رہی ہیں تو پاک افغان سرحد پر جو باڑ لگائی گئی ہے اس کو دہشت گردوں کا کوئی گروہ اسی طرح کی کارروائی کرکے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے اور پھر اسی طرح پاکستان سے افغانستان واپس جا سکتا ہے۔


تیسری دوٹوک بات مولانا فضل الرحمن کی اس دھمکی کے بارے میں تھی کہ ہم اگلا جلسہ راولپنڈی میں GHQ کے سامنے کریں گے۔اسی روز (11 جنوری)  رات 10بجے کے ARY کے ”پاور پلے“ ٹاک شو میں نون لیگ کے محمد زبیر بھی یہی کہہ رہے تھے۔ ان کا استدلال تھا کہ اگر PDM گوجرانوالہ اور بہاول پور میں جلسے کر سکتی ہے تو راولپنڈی میں کیوں نہیں کر سکتی۔ مطلب یہ تھا کہ گوجرانوالہ ایک اہم فوجی چھاؤنی ہے جس میں 6آرمرڈ ڈویژن ہے، ایوی ایشن ٹریننگ سکول ہے اور دوسری کئی دفاعی تنصیبات ہیں۔ اسی طرح بہاولپور بھی ایک اور اہم چھاؤنی ہے جہاں ایک کور ہیڈکوارٹر بھی ہے۔اگر وہاں جلسے ہو سکتے ہیں تو راولپنڈی جہاں GHQ ہے وہاں کیوں نہیں؟…… اس کا مسکت اور دوٹوک جواب جنرل بابر نے یہ کہہ کر دیا کہ ”بسم اللہ مولانا فضل الرحمن آئیں ہم ان کو چائے پانی پلائیں گے۔ اس سے زیادہ اور کیا کہوں؟“
جنرل صاحب کو اور کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہیں۔ پاکستانی عوام اب صرف دیکھنا چاہیں گے کہ اس ’چائے پانی‘ میں کیا شامل ہے؟ کیا مولانا نے جس Pizza کا ذکر اپنی جوابی تقریر میں کیا ہے،  وہ بھی اس ٹی پارٹی میں پیش کیا جائے گا یا صرف خالی ’بسکٹوں‘ ہی سے تواضع کی جائے گی؟
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

مزید :

رائے -کالم -