شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 57
جہاں تک کتابیں لکھنے کا معاملہ ہے میں کافی تعدا میں لکھنا چاہتا ہوں ..... یہ کتاب ..... ”شکار شاہکار “ ..... میں دوسرے بار لکھ رہا ہوں ..... ایک بار نہایت مفصل مسودہ مکمل کرنے میں نے عابد انصاری صاحب کو بھیجا اس لیے کہ وہ نشرو اشاعت کا کام شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے..... وہ مسودہ ان کے پاس رہا ..... جب انہوں نے اشاعت کا ارادہ ترک کر دیا تو میں نے ان سے عرض کیا کہ وہ مسودہ ملک صاحب کو پہنچا دیں ..... انہوں نے فرمایا کہ مسودہ تو آپ اپنے ساتھ لے گئے تھے .....
بہر حال ..... وہ مسود گم ہوگیا .....
لہٰذا میں نے دوبارہ لکھنا شروع کیا . اس کے علاوہ جو منصوبے اس وقت تالیف کے منتظر ہیں وہ درج ذیل ہیں .....
۱۔ THE PROPHET جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک نہایت اعلیٰ تالیف ہوگی ..... انشاءاللہ تعالیٰ .....
۲۔ اردو ادب میں بے ادبی کی تاریخ
۳۔ پانچواں درویش
۴۔ بلندیاں اور سائے .....
۵۔ DUEL WITH DEATH
ساتھ ہی میرا چھوتھا مجموعہ کلام ..... ”جگنو شبنم تارے “ بھی زیر تکمیل ہے ..... میں اس ”شکار شاہکار “ کی تکمیل میں بہت مصروف رہا ..... اس لیے دوسرے سارے مسودے کسی قدر تعطل کا شکارہوئے الایہ کہ کسی وقت ذہن کو منعطف کرنے کے لیے میں کسی دوسرے مسودے کا ایک آدھ ورق لکھ دیتا ..... لیکن اس مسودے کی تکمیل کے بعد انشاءاللہ تعالیٰ ..... دو کتابیں زیر تالیف رہ جائیں گی.....
شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 56
۱۔ اردو ادب میں بے ادبی کی تاریخ .....
۲۔ بلندیاں اور سائے.....
”بلندیاں اور سائے “ میرے کولورریڈو میں ELKکے شکار کی مفصل داستان ہے ..... اور صرف ایک ہی واقعے پر مبنی ..... ناول کہی جا سکتی ہے ..... فرق صرف یہ ہے کہ اس کے واقعات ”اصلی تے سچے “ ہیں ..... اور تصاویر بھی .....
”بلندیاں او سائے “ کی تکمیل کے بعد سارا وقت اردو ادب میں بے ادبی کی تاریخ پر صرف کروں گا اور اس کے بعد ” THE PROPHET“ کی تکمیل ہو گی پانچواں درویش .....
کچھ عرصے سے میرے توجہ شاعر ی طرف زیادہ رہی ..... ” نیم سوز “ مکمل گر کے مقبول اکیڈمی کو بھجوائی ..... پھر ..... ریشئہ حنا شائع ہوئی ..... اس کے بعد تیزی نینداں کے خواب مکمل کر کے شائع کیا اور اس لیے نثر لکھنے کی طرف توجہ کم رہی پھر ان دنوں ..... ڈنس کے احباب نے جشن قمر نقوی “ بنانے کا فیصلہ کیا ..... اور یہ تقریب نہایت اعلیٰ پیمانے پر منعقد کی گئی ..... نہ صرف یہ کہ اس میں بہت بڑی تعداد میں پاکستان ہندوستان یورپ اور امریکہ کے شعراءنے شرکت کی بلکہ بے شمار شعراءاور ادباءنے خطوط کے ذریعے شرکت کر کے میرے کلام اور ادبی خدمات کا اعتراف کیا ..... یہ ایک نہایت کامیاب تقریب تھی ..... جو سات بجے شام شروع ہر کر صبح تین بجے ختم ہوئی.....
اس جشن کی روداد لاہور سے نوائے وقت میں بھی شائع ہوئی ..... !
ممکن ہے کسی اور اخبار یا رسالے نے بھی شائع کی ہو مجھے علم نہیں .....
البتہ یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ سبحانہ نے ڈلس فورٹ ورتھ کے احباب کے ذریعے جو اعزاز عطا فرمایا وہ شاید ہی کسی اردو شاعر کو نصیب ہوا ہو ..... اور ..... اس تقریب کے انعقاد کی تجویز کا سہرا .....
عبدالمجید جامی صاحب کے سر ہے ..... جنہوں نے نہ صرف اس تقریب کے انعقاد کی تجویز ہی پیش کی بلکہ میرے لیے ایک نہایت اعلیٰ نظم لکھ کر اس کی خوبصورت کتابت کرائی اور اسے فریم کرا کے مجھے عطا فرمائی .....
صوفی فضل الرحمان کوثر نیازی صاحب نے جو کچھ کرم اور عنایات اس ناچیز پر فرمائیں وہ شاید و باید ..... ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے مجھے اپنے علم کے سارے الفاظ کو بروئے کارلانا ہوگا ..... پھر بھی شاید کافی شکریہ ادا نہ کیا جا سکے .....
انہوں نے تو نہ صرف میری ایک نادر تصویر بنا کر ، قیمتی فریم میں لگا کر مجھے عطا کی ..... بلکہ اس کے علاوہ میرے کئی اشعار کے طغرے بنا کر فریم کئے ہوئے مجھے عنایت کئے ..... میری کتابوں کے بارے میں اچھے کلمات لکھ کر ان کو فریم کراکے مجھے عنایت کئے ..... میرا قصیدہ لکھ کر مجھے دیا ..... صوفی صاحب نے تو محبت کی انتہا کر دی ..... کہ میرے بارے میں قصیدہ بھی پڑھا ..... میری ایک تصویر ..... بڑی بنا کر ہال میں لگائی .....
ڈاکٹر نرمل سنگھ مان نے بھی میرے لیے ایک نظم پڑھی اور ایک گلدستہ نذر کیا .....
عسکری عامر صاحب نے ..... جواس تقریب کے منتظم بھی تھے ..... نہایت بیش قیمت گلدستہ مجھے عطا فرمایا ..... جوان کی بیگم صاحبہ نے پیش کیا .....
عرفان علی صاحب ، شوکت قادری صاحب ..... الیاس صاحب ..... سب ہی نے مج پر کرم فرمایا ..... سب ہی اس تقریب کے انعقاد میں سرگرم عمل رہے اور انہیں سب کی کوشش سے یہ تقریب منعقد ہوئی .....
بہرحال ..... میں کتابوں کی بات کرتے کرتے ”جشن قمر نقوی “ کا تذکرہ کرنے لگا ..... بات سے بات نکلتی چلی آتی ہے ..... میں نے کہنا شروع کیا تھا کہ جنگل میں وارد ہونے کے بعد ہر طرف سے بے نیاز اور بے توجہ ہوجانا درست نہیں ..... اور میری اس توجہ نے ایک شخص کی جان بچائی ..... وہ اس طرح کہ میں نے دیکھا ایک چپل ..... اپنے پنجوں مین زندہ سانپ لیے اڑی جارہی تھی ..... اور اس کی پرواز کی لائن کے عین نیچے ایک شکاری اپنے اطراف و جوانب سے بے خبر بیٹھا تھا ..... چیل سانپ کو ہلاک نہیں کر پائی ..... دونوں میں جدوجہد جاری تھی ..... مجھے ڈر ہوا کہ اگر سانپ چھوٹ کر گرا تو عین اس شکاری کے اوپر گرے گا اور نجانے کی ہو.....
میں نے اس شکاری کو متوجہ کرنے کے لیے فائر کیا ..... اس نے میری طرف دیکھا تو میں نے چیل کی طرف اشارا کیا ..... اس نے فوراً اوپر دیکھا ..... اور وہاں سے ہٹ گیا .....
سانپ چیل کے پنجوں سے چھوٹ کر گرا ..... اور عین اسی جگہ گرا جہاں پرشکاری بیٹھا تھا ..... اگر وہ نہ ہٹا ہوتا تو سانپ ضرور اس کے لپٹ جاتا اور گھبرایا ہوا جان بلا ہوا سانپ کس بری طرح اس کو کاٹتا اور کہاں کہاں کتنی دفعہ کاٹتا ..... !
اس کی تفصیل اگلے واقعے کے ضمن میں پڑھی جا سکتی ہے ..... !اچھی طرح دیکھ لینے اور اطمینان کر لینے کے بعد میں گھماں کو ساتھ لئے اسکے پاس آگیا ..... ذرا دیر وہاں توقف کر نے کے بعد میں نے رائفل پتھر سے لٹکا کر رکھی .....
”گھماں ..... میں اوپر چڑھ جاﺅں تو رائفل مجھے دے دینا ..... “
”بہت اچھا ..... “
میں گھماں کے کاندھوں پر کھڑا ہوا ..... تب گھماں اٹھا اور کھڑا ہوگیا ..... ذرا کوشش سے میں اس ٹول پر چڑھ گیا ..... اور .....
سامنے ہی ..... کوئی بیس گزر پر ..... شریفے اور جرونجی کے دو گھنے دختوں کی ؟؟؟؟ ہوئی شاخوں کے درمیان ..... ایک بڑے غار کا دہانہ ..... صاحب نظر آرہا تھا ..... ؟؟؟
ایک جھلک سی جیسے چیتا ..... ! گھماں نے مجھے رائفل تھمادی ..... ”جاﺅ ..... تم درخت پر چڑھ جاﺅ ..... چیتا سامنے ہے ..... “
گھماں لپک کر ایک درخت کے قریب گیا اور بندوق اور جھولا زمین پر رکھ کر بندرانہ طریقے سے درخت پر چڑھ گیا.....
رائفل لے کر میں نے غار کی طرف دیکھا ..... گویا جھانکا ..... چیتاہی تھا ..... اور اپنا زخم چاٹ رہا تھا .....
میں پھر جھک گیا ..... اس ٹول کے سامنے جو چٹان تھی ..... وہ میری آڑ کئے، میں جس جگہ تھا وہاں اسے اگر میں اس کا نشانہ لینا چاہتا تو مجھے کھڑے ہونا پڑتا اور موذی یقینا مجھے دیکھ لیتا البتہ وہ جہاں بیٹھا تھا ..... وہاں صاف نظر نہیں آتا تھا .....
میں نے ٹول سے نیچے کی طرف جھانکا ..... یہی کوئی چھ فٹ بلندی تھی ..... اس طرف زمین بلند ہوگئی تھی ..... دونوں ٹولوں کے درمیان گنجائش بھی تھی ..... اور زمین نرم .....
یہی ایک صورت تھی کہ میں ادھر کوجاﺅں ..... اور کسی مناسب جگہ سے اس کو دیکھنے اور فائر کرنے کی کوشش کروں ..... رائفل لے کر چھ فٹ کی بلندی سے کودنا ..... آسان بات نہیں ..... جو لوگ چار سو پچاس اپکسپریس رائفل کے وزن سے واقف ہیں ان کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ کودنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے جسم کے وزن اور کشش ثقل میں مزید پانچ سیر وزن کا اضافہ ٹانگوں پر کتنا اثر کر سکتا ہے ..... یہ سب میں نے اس وقت تو نہیں سوچا ..... رائفل لے کر نہایت احتیاط سے دوسری طرف کود گیا .....
زمین پر ٹانگیں پڑیں تو شدید ضرب آئی ..... اور میں سامنے گھٹنوں کے بل گرا..... اتفاق کہ سامنے چٹان تھی ۔ منھ اس پر پڑا ..... اور ہونٹ کٹ کر خون بہنے لگا ..... کمر اور کولہوں پر بھی کودنے کی شدت نے بہت فشار ڈالا تھا ..... جیسے عضلات پر ضرورت سے بہت زیادہ زور پڑا ہو ..... دانتوں پر بھی چوٹ آئی .....
چند لمحوں کے لیے میں تقریباً ناکارہ ہوگیا .....
میری یہ جست بے آواز بھی نہیں تھی ..... شرٹ کی لمبی جیبوں کے سامان نے کارتوسوں کی سازش میں سے خاصی آواز کی .....
میں نے اپنے کٹے ہوئے ہونٹ کی فکر کیے بغیر رائفل سنبھالی اور باہر کی طرف جھانکا .....غار نظر آرہا تھا لیکن ..... وہ جگہ نشیب میں تھی ..... غار بلندی پر ..... اس لیے غار کے اندر تو وہاں سے نظر آتا ہی نہیں تھا ..... میں جہاں تھا وہاں سے غار کا فاصلہ یہی کوئی بیس گز .....
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)