شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...آخری قسط
غار کے بائیں جانب زمین نسبتاً بلند ہو کر پہاڑی میں تبدیل ہوگئی تھی ..... لیکن اس طرف بھی بڑے بڑے گول مٹول پتھر اس طرح ڈھیر تھے جیسے کسی نے اوپر سے ان کو لڑھکا دیا ہو اور وہ راستے میں رک گئے ہوں ..... ادھر جانا ممکن نہیں تھا ..... دائیں جانب پہاڑ ایسا سیدھا ..... عمودی تھا کہ خود چیتا ادھر نہ جاتا .....
میرے وہاں گرنے کی آواز نے صورتحال میں کوئی نمایاں تبدیلی پیدا نہیں کی ..... یہ تو میں تسلیم نہیں کرسکتا کہ چیتے نے وہ آواز سنی نہیں ہوگی ..... اس لیے کہ چیتے کی قوت سماعت نہایت تیز ہوتی ہے ..... البتہ یہ ممکن ہے کہ اپنے زخم کی تکلیف کی وجہ سے اس نے حرکت کرنے سے احتراز کیا ہو .....
میں نے واپسی کا راستہ دیکھنا شروع کیا ..... وہی تنگ سرنگ تھی ..... یا پھر ٹول پر چڑھتا ..... جو کسی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا ..... میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ چیتے کے غرانے کی آواز آئی ..... مجھے فوراً خیال آیا کہ چیتے نے مجھے دیکھ لیا ..... میرے کٹے ہوئے ہونٹ سے خون بہہ رہا تھا ..... دانتوں میں سخت درد تھا ..... ٹانگیں کانپ رہی تھیں ..... کمر میں بھی سخت جھٹکا آیا تھا .....
اس شکار میں شروع سے ہی جو حادثات ہوئے آئے تھے ویسے کسی اور شکار میں پیش نہیں آئے ..... آئے وقت شیر کے نظر آتے ہیں بیلوں کا گاڑی لے کر بھاگ جانا ..... میرا اچھلتی کودتی گاڑی میں سے کودنا ..... پھر درخت سے الجھ کر گرنا ..... اور اب سخت چوٹ.....
جیب سے رومال نکال کر خون پونچھا ..... ہونٹ کو دبا کر خون روکنے ی کوشش کی ..... چیتے کے غرانے کا مطلب یہی ہو سکتا تھا کہ اس نے مجھے دیکھ لیا ہے .....
اس کے بھاگنے کا رستہ کوئی نہیں تھا ..... اور جو راستہ اس طرف میں حائل تھا ..... میرے لیے بھی یہی دشواری تھی ..... نہ جائے ماندن ..... نہ پائے رفتن .....! میں نے اپنے کوخود ہی اس دشواری میں پھسنایا تھا ..... اور اب میں چیتے کے فراد کی راہ مسدود کئے تھا ..... جو اس قسم کے شکار کا خطرناک ترین مرحلہ ہے .....
شیر اور تیندوا تو بہت بڑا ور نہایت قوی درندے ہیں ..... بلی کے بھاگنے کا راستہ مسدود کیا جائے تو وہ بھی اپنے پنجوں اور دانتوں سے زبردست زخم پہنچانے پر قادر ہوتی ہے ..... اور انسان ..... طاقت کا تو ذکر ہی کیا ..... اپنی دانشمندی کے باوجود اس کے مقابلے پر قدرت نہیں رکھتا .....
میرا فوری رد عمل تو یہ تھا کہ میں وہاں سے ہٹ کر کوئی چار چھ گز مغرب کی طرف گیا ..... جہاں چھدرے درخت تھے تاکہ میں ان درختوں کی آڑ میں آجاؤں اور حملے کی صورت میں وہ موذی براہ راست مجھ تک نہ آسکے ..... یہاں سے پھر چیتے کو دیکھنے کی کوشش کی اب بھی غار کافرش اونچا تھا .....
اس وقت چیتا ..... دہانے کی مشرقی سمت نظر آیا ..... پورا کھڑا ہو کر باہر کی طرف جھانکنے یاد دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا ..... میں نے رائفل اٹھائی نشانہ لیا ..... اور فائر ہونے ہی کو تھا کہ چیتا اسی جگہ بیٹھ گیا ..... اس کے سرکا اوپری حصہ اور کانوں کے سرے نظر آرہے تھے .....
اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس نے مجھے نہیں دیکھا ..... ممکن ہے زخم کی تکلیف سے غرایا ہو ..... اس وقت غرانے کی آواز دوبارہ آئی ..... اور میرے خیال کی تائید ہوگئی .....
اب زاویہ ایسا تھا کہ اگر میں ذرا سی بلندی پر آسکتا تو چیتا نظر آجاتا ..... اس کے کانوں کے سرے تو نظر آرہے تھے .....
قریب ہی ایک درخت نسبتاً گھنا اور ایسا تھا کہ میں اس کے تنے کے اس حصے پر چڑھ سکوں جو دوشاخے کی طرح بن گیا تھا .....
میں بہت ہی احتیاط اور انتہائی آہستگی کے ساتھ درخت کے دو شاخے پر چڑھ ہی گیا ..... زمین سے کوئی تین فٹ بلند ..... لیکن چیتے کا جسم ایسا نظرنہیں آرہا تھا کہ فائر کیا جا سکے ..... البتہ وہ جس رخ سے بیٹھا تھا اس کی وجہ سے مجھے اس کا زخم نظر آگیا ..... کولھار سارا ہی لہولہان تھا ..... میرے خیال میں اس کی کولھے کی ہڈی ریزہ ریزہ ہوگئی ہو گی ..... بیٹھے ہونے کی وجہ سے یہ نہ دیکھا جا سکا کہ ٹانگ کی ہڈی کسی جگہ سے ٹوٹی ہے .....
اس درخت پر مزید اوپر جانے کی گنجائش نہیں تھی بہت باریک تنا تھا اور کمزور شاخیں ..... ! میں اس درخت سے بھی بہ آہستگی اتر آیا .....بہت عرصہ گزر اسی طرح میں ایک شکار میں درخت پر کھڑا تھا ..... لیکن رائفل ایسے زاویے سے تھی کہ اس کو حرکت دیکر کسی دوسرے زاویے پر لانے میں بہت وقت صرف ہوتا تھا ..... اسی درخت کے نیچے شیر اس طرح آگیا کہ مجھے خبر نہ ہوئی باوجود یکہ میری چھٹی حس برابر خطرے کا اعلان کرتی رہی ..... اور شیر نے درخت کے تنے کے ساتھ بلند ہو کر اپنا ایک ہاتھ بڑھا کر میری ٹانگ نوچنے کی کوشش کی ..... میں گھٹنوں تک آنے والے نہایت قیمتی اور مضبوط جوتے پہنے تھا ..... ناخن کے ایک کھرونچے سے پہلے تو یہ جوتا صاف پھٹ گیا ..... پھر اس کے نیچے موٹا اونی استر ..... اور موزہ ..... لیکن پنڈلی پر ہلکی خراش پھر بھی آئی .....
جب تک میں رائفل اس طرف لاؤں اس وقت تک وہ بھاگ لیا .....
اب میں ٹلسا ، اوکلا میں اکتوبر 1995ء میں شینے کے دن اپنی لائبریری کی شیشے کی میز کے عقب نہایت عمدہ اور آرام کرسی پر بیٹھا..... اس واقعہ کے ذہن کے پردوں پر منعکس کر رہا ہوں جو پچیس تین سال پہلے وقوع پذیر ہو چکے ہیں ..... تو مجھے عجیب سا محسوس ہوتا ..... عنفوان شباب اس وقت میری عمر کم و بیش پینتیس سال رہی ہو گی ..... بے باکی اور بے خوفی ..... جب جان کی پرواہ نہیں تھی .....
اور اب ..... اشتیاق کا وہ دور ..... احتیاط کے یہ دن
صبح آرزو میری شام زندگی میری
اب وہ طاقت نہیں جو کبھی تھی ..... لیکن عزم اب بھی حیران ہے ..... حسرتیں اب بھی وہیں ہیں ..... اب بھی اگر موقعہ ملے تو رائفل لے کر شیریا تیندوے سے دو دو ہاتھ کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہوں ..... زندگی کے قلعے کے چونسٹھ برج میں تسخیر کر چکا ہوں ..... الحمداللہ ..... اور بھی میرے سامنے بے شمار برج ہیں جو میں سرآنے پر آمادہ ہوں انشاء اللہ تعالیٰ .....
میں درخت سے اترا .....اور ابھی کوئی اور جگہ تلاش کر ہی رہا تھا کہ تیندوا بھی اپنی جگہ سے اٹھا ..... او رلنگڑا کر دو قدم چلا ..... میں نے رائفل سیدھی کی ..... اس کا سینہ سامنے تھا ..... سینے کے وسط کے نشانہ لے کر ایک لمحہ توقف کیا ..... گہری سانس اندر کھینچ کر روکی ..... اور ..... زبردست دھماکا ..... شانے پر چار سو پچاس ایکسپریس کاریکوائیل ..... ساتھ ہی چیتا زمین پر گر گیا .....
میں نے کارتوس نکال کر پھینکا اور دوسرا لگا دیا .....
اب چیتا نظر نہیں آرہا تھا .....
’’صاحب بہادر ..... ‘‘گھماں نے مجھے پکارا.....
’’ہاں بھئی گھماں ..... کیا بات ہے .....!
’’صاحب بہادر ..... تیندوا مار دیا ..... ؟!‘‘
’’ہاں ..... غالباً ابھی پکا نہیں معلوم ..... تم درخت سے مت اترنا ..... ‘‘
’’اچھا جی ..... ‘‘
میں جس درخت کے تنے پر پہلے چڑھا تھا اسی پر دوبارہ چڑھا ..... چیتا زمین پر بے حس و حرکت پڑا تھا .....
میں اسی طرح درخت پر کھڑا اس کو دیکھتا رہا ..... یہاں تک کہ بیس منٹ گزرنے پر بھی اس کے جسم میں کسی حرکت کے آثار نظر نہیں آئے ..... مجھ سے اس جگہ کا فاصلہ بیس گز یا اس کے لگ بھگ ہوگا میں درخت سے اترآیا ..... ایک پتھراٹھا کر غار کی طرف پھینکا ..... پتھر تیندوے کو تو نہیں لگا لیکن غار کے قریب جا کر گرا ..... میں نے پھر درخت پر چڑھ کر دیکھا ..... چیتااسی طرح بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا.....
میں نے چند منٹ کے وقفے سے ایک پتھر اور پھینکا ..... وہ بھی غار کے قریب گرا لیکن چیتا ختم ہوچکا تھا ..... اب میں پھونک پھونک کر قدم رکھتا غار کی طرف چلا ..... ادھر زمین بلند ہوتی گئی تھی ..... تاآنیکہ پانچ گز پر پہنچ کر چیتا صاف نظر آگیا ..... میں وہاں دو لمحے ٹھہرا ..... ایک پتھراٹھا کر چیتے کو مارا وہ اس کے لگا بھی ..... لیکن اس کی زندگی کا چراغ بجھ چکا تھا ..... اب میں قریب آگیا ..... رائفل کی نال اس کے سر پر رکھی ..... ہلائی جلائی ..... اس میں کوئی حرکت نہیں تھی .....
’’گھماں.....‘‘
’’جی صاحب بہادر .....‘‘
’’آجاؤ ط چیتا مرچکا ہے ..... اب کوئی ڈر نہیں ہے .....‘‘
گھماں کے آنے سے پہلے میں اپنے ہونٹ کازخم صاف کر دیا ..... لیکن میں جانتا تھا کہ وہ جگہ متورم ہوگئی ہے .....!
(ختم شد)