ایسا کر کے تو دیکھئے 

ایسا کر کے تو دیکھئے 
ایسا کر کے تو دیکھئے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کئی سال پہلے دو ایم اے پاس نوجوان نوکری کی تلاش میں جابجا پھرے مگر کہیں دال نہ گلی تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے برطانیہ پہنچ کر ایک عمر رسیدہ انگریز عورت کے ہاں دودھ کے ڈرم ٹرکوں میں منتقل کرنے کی نوکری پر لگ گئے ایک دن کیا ہوا، دودھ کا ڈرم نیچے گر گیا اور کافی سارا دودھ ضائع ہو گیا عادت سے مجبور اپنے پاکستانی بھائی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پانی کا پائپ ڈرم میں لگا دیا تاکہ ضائع شدہ مقدار کو پورا کیا جا سکے۔ اسی اثنا میں وہ بوڑھی انگریز عورت چیختی چلاتی کمرے سے باہر آ گئی جو شاید ان نوجوانوں کی حرکات کو اندر بیٹھ کر نوٹ کر رہی تھی کہ یہ کیا گل کھلا رہے ہیں؟ معمر عورت نے غصے سے کہا، تم یہ کیا گھٹیا حرکت کر رہے ہو؟ جواب میں اس ملاوٹی بھائی نے فٹ کہا کہ کیا ہوا پانی ہی تو ملایا ہے، آپ نے تو ایسے شور کیا ہے، جیسے میں نے آپ کی عزت پر حملہ کر دیا ہو، اس عورت نے خوبصورت جواب دیا کہ تم نے میری عزت سے بڑھ کر میری قوم پر حملہ کیا ہے، تم میری قوم کو پانی ملا دودھ پلاؤ گے، یہ مجھے ہرگز گوارا نہیں۔ اپنے دوست کی زبانی ان کے عزیز نوجوانوں کا یہ قصہ سن کر مجھے اپنے چند پاکستانیوں کے کرتوت یاد آ گئے۔ 


بڑی شرم سے لکھ رہا ہوں، دودھ میں پانی تو درکنار کیمیکل کی بھرپور آمیزش، آئے دن فوڈ اتھارٹی کا ہزاروں من دودھ تلف کرنا تو روزانہ کا معمول بن چکا ہے، صرف یہی نہیں، شہد میں شیرہ، گھی میں انتڑیوں، چربی اور کیمیکل کا تڑکا لگانا، سبزیوں، مصالحوں، جوسز میں مختلف رنگ بھرنے، چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے، سرخ و کالی مرچ میں گھوڑے کا دانہ، پپیتے کے بیج، پھلوں میں میٹھے ٹیکے لگانا، بچوں کے کھانے پینے کی چیزوں میں زہر آلود میٹریل، چھوٹے، بڑے گوشت میں مہارت سے پانی ملا کر گوشت کا وزن بڑھانا، گائے، بھینس کے دودھ کو بڑھانے کے مخصوص ٹیکے لگانا، شوارمے، شادی بیاہ میں مردہ جانوروں کے گوشت حتیٰ کہ گدھوں، کتوں کا گوشت کھلانا، منرل واٹر میں نلکے کا پانی ملا کر بیچنا، جعلی صابن، سرف، شیمپو، روزمرہ زندگی کی اشیا خوردونوش بالخصوص جعلی ادویات اصلی لیبل لگا کر فروخت کرنا، ناپ تول میں کمی کرنا،  ہر پٹرول پمپ پر کم مقدار میں غیر معیاری پٹرول فروخت کرنا، پنکچر کی دکان پر ایک پنکچر کے 5 پنکچر لگا  کر پیسے بٹورنا، موٹر سائیکل و موٹر مکینک، پلمبر، الیکٹریشن، اے سی فٹر، رنگ و روغن کرنے والوں کا بے دردی سے مصیبت زدہ شخص سے ناجائز طور پر رقم ہتھیانا، بجلی و گیس چوری کرنا، نوکری میں ڈنڈی مارنا، دوسروں کے کام میں خوامخواہ روڑے اٹکا کر اپنی طاقت کا برملا اظہار کرنا، حق داروں کو حق سے محروم کرنا، اپنے ماتحتوں سے شودروں جیسا سلوک کرنا،

ان کو وقت پر تنخواہ نہ دینا، بات بات پر جھوٹ بولنا، دھوکہ دے کر اپنی قبر تیار کرنا، ماشا اللہ ماتھے پر محراب اور باریش چہروں کے ساتھ فرعونیت کے ریکارڈ توڑنا، 24 گھنٹے سوشل میڈیا کا استعمال کر کے اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا، والدین کو پتھر کے زمانے اور اپنے آپ کو جدید دور کا باسی خیال کر کے عقل مندی کے بھاشن دینا، ہر طرف بے حیائی، بے پردگی، شراب نوشی، نکاح کو عام کرنے کے ساتھ  زنا کو عام کرنا، الیکٹرونک میڈیا پر ایسی ایسی خرافات کا آنا جو کسی طرح بھی ہمارے کلچر کی عکاس نہ ہیں، ان کا بلا روک ٹوک ہماری نوجوان نسل میں سرایت کرنا، رات گئے، جاگنا، صبح دیر سے اٹھنا، نماز، روزہ سے کوئی لینا دینا نہیں رہا، ہر گھر میں بے برکتی کے ڈیرے لگ چکے، چھوٹی چھوٹی بات پر گالم گلوچ وتیرہ بن چکا۔ بہن، بھائیوں، میاں، بیوی میں نا اتفاقی کا پروان چڑھنا، اساتذہ کی تعظیم کا ناپید ہونا، رشتہ داروں سے صلہ رحمی نہ کرنا، اپنے پڑوسیوں سے برا سلوک کرنا ہمارے ڈی این اے میں شامل ہو چکا ہے۔  حالت یہ ہے کہ سات عشروں سے ہماری سمت درست نہ ہو سکی…… ایک بے سمت ہجوم…… جس کو چوبیس گھنٹے پوری دنیا کا غم لاحق ہے…… اپنے گریبان میں ہم جھانکنے کو تیار نہیں بس کافر کی ماں بہن ایک کرنے کے درپے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست کے ہم سرخیل ہیں، ہر شہری مفکر، سیاستدان، سائنسدان اور استاد ہے۔ 


قانون کے احترام پر ہنوز ریسرچ جاری ہے جلد ہی اس کی ویکسین مارکیٹ میں آ جائے گی، خیر سے موٹرسائیکل پر ہیلمٹ پہننے سے پوری قوم کو الرجی ہے، 100 کلومیٹر فی گھنٹہ بمعہ بیوی بچے عین سڑک کے وسط میں موٹرسائیکل چلانا، سرخ بتی کراس کرنا، غلط سمت سے آنا، غلط پارکنگ، اوورسپیڈ اپنے محبوب ترین مشغلے ہیں۔ 
اور پھر ہر دوسرے دن دوسرے کے گھر کے باہر موٹرسائیکل، کار،گاڑی کا دھو کر پانی کا ضیاع کرنا، گلی محلے میں کوڑا کرکٹ پھینکنے کی تربیت تو کوئی ہم سے سیکھے۔ حالانکہ سرور کونین نبی آخر الزماں پیارے کریم مدنی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پڑوسیوں بارے فرمان عالیشان ہے۔ 
" واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں ”عرض کیا گیا کون: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟ فرمایا ”جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو“۔ (بخاری شریف)
ایک اور جگہ فرمایا ”جبریل امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کی رعایت و امداد کی اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسیوں کو بھی رشتہ داروں کی طرح وراثت میں شریک کر دیا جائے گا“۔ 


خاکسار جب بھی ان احادیث مبارکہ کو پڑھتا ہے تو اپنے ہمسائے یاد آ جاتے ہیں جو منع کرنے کے باوجود تیسری منزل سے میری پہلی منزل کی چھت پر کوڑا کرکٹ پھینکنا اپنا پیدائشی حق خیال کرتے ہیں ایک بار خیال آیا کہ ان احادیث کے چارٹ لکھوا کر پڑوسیوں کے گھر بھیجوں یا پھر بتوسط واسا گرین و کلین لاہور کے روح رواں، واحد ڈینگی ایکسپرٹ اعلیٰ آفیسر دبنگ کمشنر لاہور جناب کیپٹن (ر) عثمان یا پھر اپنے آل ٹائم فیورٹ گوھر نایاب، فخر لاہور پولیس ڈی آئی جی آپریشن لاہور کیپٹن (ر) جناب سہیل چوہدری کے علم میں لاؤں یا پھر عاجزی و ایمان داری کی عمدہ مثال جناب کامران علی افضل چیف سیکرٹری پنجاب اور باکمال، لاجواب، کہنہ مشق، ٹیلنٹڈ نبیل جاوید سیکرٹری سکولز پنجاب کو لکھوں کہ وہ شہباز شریف، حمزہ شہباز اور وفاقی و صوبائی وزراتعلیم کے مشورہ سے ایسی پالیسی بنائیں کہ پرائمری سکولوں میں بچوں کو ان کے وزن سے زیادہ بھاری بھرکم رٹا لگانے والی کتابیں پڑھانے کے بجائے باقاعدگی سے پنجگانہ نماز پڑھنے اور قرآن و حدیث کے ذریعے اخلاقیات، معاشرہ میں رہنے کے آداب سکھائے جائیں اور بالخصوص ایمان سے خارج کرنے والے جھوٹ اور دھوکہ نہ دینے کے اسباق سکھائے جائیں، ارباب اختیار ایسا کر کے تو دیکھیں، روز بروز زوال پذیر ہوتا یہ معاشرہ جنت نظیر بن جائے گا۔ اللہ سوہنا ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

مزید :

رائے -کالم -