تاریخ نویسی پرکوئی قد غن نہیں ہونی چاہئے (2)

تاریخ نویسی پرکوئی قد غن نہیں ہونی چاہئے (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app



تیسرا سیشن داخلی اسلامائزیشن کے حوالے سے ملک میں فرقہ واریت اور مذہبی دہشت گردی کے فروغ کے پس منظر پر لکھی گئی جلدوں کے بارے میں تھا۔ اس کی ماڈریٹر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ تھیں جنہوں نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیکولر ازم کا مطلب لادینیت نہیں ہے۔ قیام پاکستان کو مذہب کے ساتھ اس قدر مربوط کر دیا گیا ہے کہ وہ مرکزی قومی شناخت کی علامت کے طور پر اس علاقے میں تزویراتی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ کلیدی مقالہ نگار ڈاکٹر مہدی حسن نے تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا کہ کس طرح قیام پاکستان کے فوراً بعد سیاسی قائدین اور بیورو کریسی نے اپنے اقدار کی خاطر مذہب کا استعمال کیا اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا۔ وجاہت مسعود نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی اور سماجی صورت حال قائد اعظم کی 11 اگست 1947ءکی تقریر کو اپنی روح کے مطابق جذب کرنے کے لئے تیار نہیں تھی اور نہ ہی بعد میں اس پر عملدرآمد کے لئے وہ ماحول پیدا کیا گیا جہاں اس تقریر کی روح پر عمل کیا جا سکتا، بلکہ صورت حال اس کے برعکس رہی۔
 ڈاکٹر علی عثمان قاسمی نے کہا کہ ہر مکتب فکر کے لوگوں کو زاہد چودھری اور حسن جعفر زیدی کی تحریر کردہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان کے ابتدا کے دو تین عشروں میں اسلامی اصولوں کی بات ہوتی تھی، لیکن ایک مکمل اسلامی نظام کی بات نہیں ہوتی تھی۔ یہ کام جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی نے شروع کیا، لیکن انہیں ابتدا میں پذیرائی حاصل نہ ہوئی، تاہم 1970ءکے انتخابات اور اس کے بعد مسلم لیگ اور حکومت نے اسلامی نظام اور نفاذ اسلام کی اصطلاح کو اپنا نظریہ بنا لیا اور ریاستی سطح پر مذہبی انتہا پسندی کی سرپرستی شروع ہوئی۔ محمد عامر رانا نے کہا کہ زاہد چودھری کی تصانیف میں ملا اور ملائیت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا ہے۔ سمیع اللہ ظفر نے کہا کہ تمام سنجیدہ حلقوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی جس حد تک معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر گئی ہے اس کا ازالہ کیسے کیا جائے۔
چوتھے سیشن کا عنوان ”خارجی اسلامائزیشن“ تھا کہ کس طرح اسلام اور ”اسلامی بلاک“ کے نام پر پاکستان امریکہ کا غلام بنا۔ اس کے ماڈریٹر ڈاکٹر سعید شفقت نے قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں حکومتوں کا برطانیہ کی اور امریکہ پر انحصار کی پالیسی کا پس منظر بیان کیا۔ کلیدی مقالہ نگار پروفیسر سرفراز خاں نے کہا کہ ایک پاکستان 1947ءمیں وجود میں آیا تھا، جبکہ ایک دوسرا پاکستان 1971ءمیں وجود میں آیا۔ پاکستان نے اپنے مغرب اور مشرق دونوں جانب اسلامائزیشن کے ہتھیار کو استعمال کیا۔ ا نہوں نے پاکستان کی اس خطے میں کلیدی حیثیت کے تناظر میں بیرونی طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر کردار کا پس منظر اور اس مقصد کے لئے اسلام کا نام استعمال کرنے کا حوالہ دیا۔ معروف دانشور علی جعفر زیدی نے کہا کہ سامراج نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر اپنے دشمن خود پیدا کئے اور انہیں پروان چڑھایا۔ا نہوں نے افغانستان، عراق، شام اور لیبیا کی مثالیں دیں۔ معروف صحافی اور بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار حسین نقی نے کہا کہ پاکستان کی حکومتیں تو امریکہ کی غلام بنیں، لیکن پاکستان کے عوام کبھی امریکہ کے غلام نہیں بنے۔
معروف تاریخ دان حسن جعفر زیدی نے 12 جلدوں پر مشتمل پاکستان کی سیاسی تاریخ کے مو¿لف کی حیثیت سے ہر سیشن میں خطاب کیا اور حاضرین کے سوالات کے جواب دیئے۔ اس سیمینار کی خصوصیت یہ تھی کہ دن بھر کے طویل سیمینار کے باوجود اول سے آخر تک ایوان اقبال کا بڑا ہال حاضرین سے کھچا کھچ بھرا رہا اور حاضرین نے تحریراً سینکڑوں سوالات پوچھ کر اپنی بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا.... سیمینار کے اختتام پر ایوان نے تین قراردادیں متفقہ طور پر منظور کیں جو درج ذیل ہیں۔
قرارداد نمبر :1ملک بھر کے دانشوروں اور پاکستانی شہریوں کا یہ عظم اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے اور معاشرے میں رواداری، برداشت، اعتدال اور میانہ روی کے فروغ کے لئے نصاب تعلیم، بالخصوص سماجی علوم کے نصاب کو از سر نو ترترتیب دیا جائے۔ درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
-1 تاریخ، جغرافیہ، عمرانیات، سیاسیات، معاشیات، سوشیالوجی، سائیکالوجی اور دیگر سماجی علوم کو عقیدے اور مذہبی نظریئے کے بجائے سائنسی بنیاد پر پڑھایا جائے۔
-2 میٹرک تک مطالعہ پاکستان کے بجائے معاشرتی علوم یا واقفیت عامہ کے مضمون کو بحال کیا جائے، جس میں تاریخ، جغرافیہ اور شہریت پڑھائی جائے، جیسا کہ ضیاءالحق دور سے پہلے ہوا کرتا تھا۔
-3میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ اور گریجویٹ سطح پر موجودہ لازمی مضمون مطالعہ پاکستان کے بجائے تاریخ پاکستان اور دیگر تواریخ اور جغرافیہ اختیاری مضامین کے طور پر پڑھائے جائیں۔
-4نصاب تعلیم مرتب کرنے والوں کا صرف ایک مخصوص مکتب فکر سے تعلق نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اس میں مختلف مکاتب فکر کے افراد اور اہل الرائے شامل ہونے چاہئیں۔ ان حضرات کی معروف علمی حیثیت اور تصانیف موجود ہونی چاہئیں۔
-5اقلیتوں کے طلباءکے لئے اسلامیات کی جگہ ان کے مذاہب کا لٹریچر پڑھایا جانا چاہئے۔ یا تمام طلباءکے لئے عمومی اخلاقیات کا مشترکہ کورس ہونا چاہئے۔
قرارداد نمبر :2ملک بھر کے دانشوروں اور پاکستانی شہریوں کا یہ عظیم اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ تاریخ کے مطالعہ کو ریاستی کنٹرول سے آزاد کیا جائے۔ تاریخ نویسی کے مختلف مکاتب فکر کو پھیلنے پھولنے کا مساوی موقع ملنا چاہئے۔ آئین پاکستان میں دیا گیا آزادی رائے کا بنیادی حق تاریخ نویسی کو بھی حاصل ہونا چاہئے۔ ریاست کی طرف سے ٹھونسی گئی مخصوص تاریخ کے علاوہ متوازی یا مختلف تاریخ لکھنے اور پڑھنے پر کوئی پابندی یا قدغن نہیں ہونی چاہئے۔ علم تاریخ کی بنیاد عقیدے اور تقلید کے بجائے تحقیق پر ہونی چاہئے۔ اختلاف رائے تحقیق کی بنیاد پر ہونا چاہئے، عقیدے کی بنیاد پر نہیں۔ تاریخ کو حکمرانوں کے مفاد کی خاطر ان کے نقطہ نظر سے لکھا، پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔ عوام کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر عوامی نقطہ نظر سے تاریخ لکھیں، پڑھیں اور پڑھائیں۔
قرارداد نمبر :3ملک بھر کے دانشوروں اور پاکستانی شہریوں کا یہ عظیم اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ ملک میں سماجی علوم خصوصاً مستند تاریخ رقم کرنے کے لئے تحقیقی مواد اور ماخذ محفوظ کئے جائیں جو مختلف لائبریریوں یا ریفرنس کے ذخیروں میں ضائع ہو رہا ہے۔ مستند سرکاری دستاویزات تک رسائی کا عوامی اور جمہوری حق ملنا چاہئے۔ اطلاعات کے حصول کا حق (Right of Information) ہر شخص کے بنیادی حق کی حیثیت سے تسلیم کیا جانا چاہئے۔ آج کل بعض رجعت پسند، مفاد پرست عناصر ایسی مسلمہ اور مستند سرکاری دستاویزات کے وجود کا انکار کر رہے ہیں جو ان کے مخصوص نظریات کی تائید نہیں کرتیں، بلکہ تردید کرتی ہیں۔ بعض مخصوص عناصر ان دستاویزات کے وجود ہی سے انکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس قسم کی دستاویزات کو سرکاری (Archives) کی حیثیت سے سرکاری بینک میں محفوظ کیا جانا چاہئے تاکہ مفاد پرست رجعتی دانشور اس ریکارڈ کو تلف نہ کر سکیں۔(ختم شد)

مزید :

اداریہ -