فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر119
۱۹۶۰ء۔۱۹۵۰ء کی دہائی میں جو لوگ ابھر کر سامنے آئے اور پھر آناً فاناً نمایاں ہوگئے ۔ان میں خلیل قیصر بھی ایک قابلِ ذکر شخصیت ہیں۔ خلیل قیصر کو موسیقی سے لگاؤ تھا۔ فلموں سے بھی دلچسپی تھی۔ یہی شوق انہیں راولپنڈی سے کھینچ کر لاہور لے آیا اور انہوں نے اس وقت کے مصروف اور معروف ترین فلم ساز و ہدایت کار انور کمال پاشا کی شاگردی اختیار کرلی۔ اس زمانے میں انور کمال پاشا نے فلمی صنعت کو بہت سے مصنف، شاعر، اداکار اور ہدایتکار دیے ہیں۔ ان ہدایت کاروں میں خلیل قیصر، حسن طارق، ایس سلیمان، جعفر ملک، آغا حسینی جیسے لوگ شامل ہیں۔
خلیل قیصر نے اولین تربیت تو انور کمال پاشا کے دبستان ہی میں حاصل کی۔ پھر آس پاس دیکھنے بھالنے کا قصد کیا۔ ایم ایس ڈار صاحب ایک پرانے ہدایتکار تھے۔ ان کی بڑی دلچسپ شخصیت تھی وہ فلم ’’سلطنت‘‘ کے ہدایتکار منتخب ہوئے خلیل قیصر نے ان کی شاگردی اختیار کرلی۔ ان کے ساتھ رہنے میں یہ لالچ تھا کہ انہوں نے خلیل قیصر کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے ہدایتکاری کا سارا بوجھ نوجوان خلیل قیصر پر ہی ڈال دیا تھا اور خود کو نگرانی تک محدود کرلیا تھا۔ وہ فلم کے سیٹ پر آتے تو تھے مگر محض خانہ پری کیلئے۔ تمام تر ذمے داریاں خلیل قیصر ہی سرانجام دیا کرتے تھے۔ اس طرح خلیل قیصر کو ہاتھ صاف کرنے کا بہترین موقع حاصل ہوگیا۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر118 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’سلطنت ‘‘ایک کامیاب فلم تھی جس میں مرکزی کردار سنتوش کمار اور صبیحہ نے ادا کئے تھے۔ فلم والوں کو یہ علم ہوگیا تھا کہ اس فلم میں خلیل قیصر ہی نے نمایاں کارگزاری دکھائی ہے۔ چنانچہ انہیں فلمسازوں نے اپنی آئندہ فلموں کیلئے تلاش کرنا شروع کردیا۔
فلمساز و اسٹوڈیو اونر ملک باری نے پنجابی فلم ’’یار بیلی‘‘ بنائی تو اس کیلئے خلیل قیصر کو ہدایتکار چنا ۔’’یار بیلی‘‘ کی کاسٹ میں مسرت نذیر، سدھیر، نیلو اور ظریف نمایاں تھے اور یہ ایک کامیاب اور معیاری پنجابی فلم تھی۔ یہ فلم ۱۹۵۹ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کی وجہ سے خلیل قیصر کو مزید شہرت حاصل ہوگئی۔ مگر جس فلم نے انہیں راتوں رات نمبر اول کا ڈائریکٹر بنادیا وہ ’’ناگن‘‘ تھی۔ ’’ناگن‘‘ کے مصنف عزیز میرٹھی تھے۔ یہ رتن کمار کے بھائی وزیرِ علی کے ادارے ’’فلمز حیات‘‘ نے بنائی تھی اس لئے ’’ناگن‘‘ میں رتن کمار کو پہلی بار ایک مکمل اور بالغ نوجوان ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے شہرت یافتہ تھے ان کے والد عباس اجمیری اور بڑے بھائی وزیر علی نے پہلے تو کراچی سے فلمسازی کا آغا زکیا اور پھر لاہور منتقل ہوگئے۔ جب رتن کمار کو اس فلم کا ہیرو چنا گیا تو سبھی نے اعتراض کیا۔ ان کی ابھی مسیں بھیگ رہی تھیں۔ باقاعدہ مونچھیں داڑھی بھی نہیں نکلی تھیں اس کے علاوہ ان میں بہت زیادہ نفاست اور نزاکت بھی تھی اور آواز میں بھی مردانہ رعب و دبدبہ نہیں تھا مگر ان کے والد نے سوچا کہ چانس لینے میں کیا حرج ہے۔ اگر کامیابی ہوگئی تو گھر کا ہیرو دستیاب ہوجائے گا۔ اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔ ’’ناگن‘‘ ہیرو کے طور پر رتن کمار کیلئے سنگِ میل ثابت ہوئی۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہیرو بن گئے حالانکہ دوسرے فلمسازوں نے انہیں ہیرو کے طور پر کاسٹ نہیں کیا مگر اپنے ادارے کی متعدد فلموں میں ہیرو کے طور پر نمودار ہوئے۔ ’’ناگن‘‘میں رتن کمار کے مقابلے میں ایک نوعمر ہیروئن درکار تھیں۔ نیلو نے ابھی شہرت کی ابتدائی سیڑھی پر قدم رکھا تھا۔ ڈانسر اور معاون اداکارہ کے طور پر بھی ان کا نام ہر طرف پھیل گیا تھا مگر صفِ اول کی ہیروئنوں کی فہرست میں ان کا نام نہیں تھا۔ ’’ناگن‘‘ کی ریلیز نے انہیں سپراسٹار بنادیا اور پھر انہوں نے پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ اس طرح ’’ناگن‘‘ کی کامیابی نے رتن کمار اور نیلو کی ایک نئی رومانی جوڑی کو جنم دیا۔
’’ناگن‘‘ کی کہانی ایک تصوراتی دیو مالائی قسم کی کہانی تھی۔ اس میں ناگوں کو انسانوں کا روپ اختیار کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ پاکستانی ناظرین کیلئے یہ ایک نئی بات تھی۔ دوسرے یہ کہ خلیل قیصر نے اس کہانی کو بڑی مہارت، حسن اور ہنر مندی سے فلمایا تھا۔ موسیقی بہت عمدہ تھی۔ رتن کمار اور نیلو کے رومانی مناظر اور نیلو کے رقص اس فلم کی جان تھے۔ یوسف خان اس فلم میں ویلن تھے مگر اپنی شخصیت اور اداکاری کی بنا پر ہیرو پر بھاری تھے۔ ان تمام خوبیوں کو خلیل قیصر نے بڑی خوبصورتی سے یکجا کردیا تھا جس کے نتیجے میں ایک کامیاب اور مقبول فلم نے جنم لیا تھا۔ ’’ناگن‘‘ کی ریلیز کے ساتھ ہی نیلو اور رتن کمار تو مقبول جوڑی بن ہی گئے تھے۔ اس فلم نے خلیل قیصر کی صلاحیتوں کو بھی بھرپور انداز میں اجاگر کردیا تھا۔ اس طرح ایک بہت اچھا ہدایتکار فلمی دنیا کو میسر آگیا۔ ’’ناگن‘‘ قلیل سرمائے سے شب و روز کام کرکے بنائی گئی تھی۔ فلم کا یونٹ بعض اوقات چھتیس چھتیس گھنٹے تک شب و روز کام کرتا رہا تھا۔ فلم ساز وزیر علی یہ لطیفہ سناتے تھے کہ جس رات ’’ناگن‘‘ کا آخری شاٹ فلمایا گیا تو صبح کے پانچ بج رہے تھے اور ہر شخص گزشتہ ۷۶ گھنٹوں سے مسلسل جاگ رہا تھا۔ جیسے ہی آخری شاٹ فلم بند ہوا، سب مطمئن ہوگئے اور جو جہاں تھا وہیں سو گیا۔ یہاں تک کہ کیمرا مین بھی کیمرے کی ٹرالی پر سر رکھ کر خوابیدہ ہوگیا۔ ہدایت کار کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اس نے ’’کٹ‘‘ کہنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی یا شاید اس میں ہمت ہی نہیں رہی تھی۔
خلیل قیصر نے ہر طرف اپنے جھنڈے گاڑ دیے۔ ہر فلمساز انہیں سائن کرنے کا خواہشمند تھا مگر وہ ایک وقت میں ایک ہی فلم بنانے کے قائل تھے۔ ایک سچے فنکار کے مانند انہیں دولت سے رغبت نہیں تھی۔ بس کام کی لگن اور نئی سے نئی سوچ اور انداز کو متعارف کرانے کی فکر تھی۔ اس سلسلے میں انہیں مصنف ریاض شاہد کا ساتھ مل گیا جو سونے پر سہاگہ تھا۔ ان دونوں کی ٹیم نے پاکستانی صنعت کو بعض انوکھی اور یادگار فلمیں دی ہیں جن میں کلرک، دوشیزہ، فرنگی اور شہید جیسی فلمیں شامل ہیں۔
فرنگی اور شہید خلیل قیصر کی ذاتی فلمیں تھیں۔ یہ دونوں فلمیں انگریزوں کے خلاف تھیں اس لئے سنسر کرانے میں بھی کافی مشکلات پیش آئیں مگر ان دونوں فلموں کو بے پناہ کامیابی حاصل ہوئی۔ ’’فرنگی‘‘ میں سدھیر کے ساتھ شمیم آرا تھیں اور ’’شہید‘‘ میں اعجاز اور مسرت نذیر کی جوڑی تھی۔ اس فلم کی نمایاں خوبی علاؤالدین اور طالش تھے۔ خلیل قیصر نے فلم ساز شوکت شیخ کیلئے ’’عجب خاں‘‘ بھی بنائی جسے بہت سراہا گیا۔
’’کلرک‘‘ ایک حقیقت پسندانہ موضوع تھا۔ اس میں کلرک کی زندگی کا احاطہ کیا گیا تھا۔ خلیل قیصر نے پہلی اور آخری بار اس فلم میں کام کیا تھا۔ وہ اس کے ہیرو تھے۔ ۱۹۶۴ء میں خلیل قیصر کی فلم ’’حویلی‘‘ نمائش پذیر ہوئی۔ موسیقار خواجہ خورشید انور تھے۔ خلیل قیصر کو بذاتِ خود بھی موسیقی کا شعور تھا۔ ’’فرنگی‘‘ میں انہوں نے پہلی بار فیض احمد فیض کی غزل
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
شامل کی تھی۔ مہدی حسن کی گائی ہوئی یہ غزل آج بھی خود ان کی پہچان ہے۔ خلیل قیصر نے ’’حکومت‘‘ بھی پروڈیوس کی تھی اور فلمساز عطااللہ شاہ ہاشمی کیلئے ’’ماں باپ‘‘ بھی بنائی تھی۔ ان کی بیشتر فلموں کے موسیقار رشید عطرے تھے۔
خلیل قیصر سے پاکستان کی فلمی صنعت کو بہت بلند توقعات وابستہ تھیں لیکن ایک اچانک حادثے فلمی صنعت کو اپنے ممتاز فرزند سے محروم کردیا۔ ایک دن خلیل قیصر کے قتل کی خبر فلمی حلقوں میں پھیلی اور دوسرے دن اخبارات کی سرخیوں میں نمایاں ہوئی تو سب حیران رہ گئے۔ خلیل قیصر جیسے خالص فنکار اور بے ضرر انسان سے بھلا کس کو دشمنی ہوسکتی تھی؟ یہ ۱۹۶۶ء کا واقعہ ہے ان دنوں قتل و ڈاکے کی وارداتیں زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعے نے سارے ملک میں سنسنی پھیلا دی اور فلمی حلقوں میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔ ستم ظریفی یہ کہ خلیل قیصر کے قتل کا معما آج تک حل نہیں ہوسکا ہے۔
خلیل قیصر کے قتل کے بارے میں واقعہ یہ ہے کہ وہ ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں کراچی گئے ہوئے تھے۔ جس شام وہ لاہور پہنچے تو بیوی بچوں کی فرمائش پر ائرپورٹ سے اترتے ہی تکے کباب لینے بازار چلے گئے۔ واپس آئے تو رات ہوچکی تھی۔ وہ گھر میں داخل ہوئے تو سامنے کے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ بیوی نے پریشان ہوکر انہیں اندر جانے سے روکا مگر وہ کمرے میں داخل ہوگئے۔ چند ہی لمحے بعد ایک آہ کی آواز آئی اور ایک شخص بھاگا ہوا باہر نکل کر سامنے والے میدان میں غائب ہوگیا۔ وہ منہ پر ڈھاٹا باندھے ہوئے تھا۔ خلیل قیصر کی بیوی نے اندر جاکر بجلی جلائی تو خلیل قیصر قالین پر پڑے ہوئے تھے۔ قاتل نے چھرے کے ایک ہی وار سے ان کا جگر چاک کردیا تھا۔ وہ اسی وقت دم توڑ گئے۔ عام خیال یہی ہے کہ قاتل چور تھا۔ جب خلیل قیصر اچانک گھر میں داخل ہوئے تو اس نے بھاگنے کی کوشش کی۔ باہر نکلنے کے راستے میں خلیل قیصر حائل تھے۔ انہوں نے غالباً اسے پکڑنے کی کوشش کی ہوگی، اس نے گھبرا کر ان پر وار کردیا جو کہ ہلاکت خیز ثابت ہوا۔ وہ اپنی بیوی سے ایک لفظ کہے بغیر اللہ کو پیارے ہوگئے۔(جاری ہے)
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر120 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)