دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر58
ہم نے جہنم کی کھائی کو بہت اطمینان اور آرام سے عبور کیا تھا۔ اسے عبور کرکے میں نے پیچھے دیکھا تو دور دور تک روشنیوں کا ایک قافلہ تھا جو بلند آواز سے یہی دعا پڑھتے ہوئے ہمارے پیچھے چلا آرہا تھا۔ جس کی روشنی جتنی زیادہ تیز تھی وہ اتنی ہی آسانی کے ساتھ اس کھائی کو عبور کررہا تھا۔ سامنے افق پر گویا درواز ے سے بنے ہوئے تھے جن سے جنت کا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ جنت کے نگران اہل جنت پر سلامتی بھیج کر خوش آمدید کہتے اور جواب میں اہل جنت اللہ کی حمد بجالاتے۔
ہمارے عین سامنے عرش الہی تھا۔ہم چلتے ہوئے اس کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔ عرش کیا تھا۔۔۔ایک بقعۂ نور تھا۔ یہ روشنی اور نور کا ایک سیلاب تھا جس کی حقیقت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہ تھا۔ یہاں پہنچ کر ہماری اپنی روشنی عرش کی روشنی کے سامنے بے نور ہوگئی۔ عرش کے گرد صف در صف فرشتوں کی قطاریں تھیں جو مؤدبانہ انداز میں ہاتھ باندھے ’الحمد للہ رب العالمین‘کا نغمہ جانفزا بلند کررہے تھے۔ ہم بالکل قریب پہنچے تو میں نے دیکھا کہ فرشتوں نے اپنے بیچ سے جگہ چھوڑ رکھی ہے جس سے گزر کر لوگ قطار در قطار عرش کے نیچے داخل ہورہے ہیں۔ ہم قریب پہنچے تو آواز آئی:
’’میرے بندوں! تمھیں خوش آمدید۔ تم آج ختم نہ ہونے والی بادشاہی میں داخل ہورہے ہو۔ اپنے رب کی سلامتی میں تم ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ۔‘‘
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر57 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم فرشتوں سے گزر کر آگے بڑھے تو میں نے صالح کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا۔ اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’جنت کا راستہ عرش کے نیچے سے ہوکر داہنے طرف مڑکر آئے گا۔‘‘
’’مگر ہم عرش کے نیچے کیوں جارہے ہیں۔ براہ راست سیدھی طرف مڑجائیں؟‘‘
صالح ہنس کر بولا:
’’تم ہر بات وقت سے پہلے سمجھنا چاہتے ہو۔ خیر میں بتاتا ہوں۔ عرش کے نیچے جاکر ہر انسان کا آخری تزکیہ ہوجائے گا۔‘‘
’’مگر تزکیہ تو ہم دنیا میں کرتے تھے۔‘‘
’’تزکیہ یعنی پاکی حاصل کرنا دین کے ہر عمل کا مقصود تھا۔ دین کی پوری جدوجہد اس لیے تھی کہ انسان کا نفس پاک ہوجائے۔ مؤمن دنیا میں اپنے جسم کو صاف ستھرا رکھتا تھا۔ وہ اپنی خوراک کو پاکیزہ رکھتا تھا۔ وہ عبادات کے ذریعے اپنی روح اور احکام شریعت پر عمل کرکے اپنی معاشرت، معیشت اور اخلاق کو پاک رکھتا تھا۔ شیطانی ترغیبات، نفسانی خواہشات، حیوانی جذبات، یہ سب نجاستیں تھیں جن سے بچ کر بندۂ مؤمن خود کو پاک رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ دنیا میں اہل ایمان کی کوشش تھی۔ جس کا بدلہ آج رب کی پاکیزہ جنت میں داخلے کی صورت میں دیا جارہا ہے، لیکن اس پاک جنت میں داخلے سے قبل اللہ تعالیٰ خود اہل ایمان کو پاک کریں گے۔ جس کے بعد ان کی روح، جسم اور اخلاق ہر ناپاکی سے دھل جائے گا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ تمھارا جسم جو دنیا میں خون، نجاست، بدبو اور دیگر ناپسندیدہ چیزوں سے بھرا ہوا تھا اب نور سے بھر جائے گا۔ جس کے بعد تمھارے جسم سے فضلات نکلیں گے، نہ بدبو آئے گی اور نہ بدبودار پسینہ بہے گا۔ تمھاری سانس کے ساتھ خوشبو آئے گی۔ پیشاب پاخانے کی جگہ خوشبودار پسینہ آئے گا۔ تمھارے کان، ناک، آنکھ، منہ اور جسم سے کوئی گندگی نہیں نکلے گی۔
اسی طرح تمھارے دل سے ہر منفی جذبہ جیسے حسد، تکبر، کینہ، پرائی عورت کے لیے شہوت، نفرت، تعصب وغیرہ ختم ہوجائیں گے۔ تمھاری سوچ، نظر، جسم اور روح سب پاکیزہ ہوجائیں گے۔‘‘
میں نے خوش ہوکر کہا:
’’سبحان اللہ! پھر تو جینے کا لطف آجائے گا۔‘‘
’’یہی نہیں بلکہ تمھاری صلاحیتیں اور طاقتیں غیر معمولی طور پر بڑھ جائیں گی۔ تمھیں نیند کی ضرورت ہوگی نہ آرام کی۔ تم تھکو گے نہ نڈھال ہوگے۔ بور ہوگے نہ بیزار ہوگے۔ ڈپریس ہوگے نہ ٹینشن کا شکار ہوگے۔ تم جتنا چاہو گے کھاؤ گے، جتنا چاہو گے پیو گے، تمھیں بدہضمی ہوگی نہ بیت الخلا جانے کی حاجت۔ تمھارے اندر طاقت کا خزانہ بھر جائے گا۔ تم ہمیشہ صحت مند رہوگے، ہمیشہ جوان رہوگے اور سب سے بڑھ کر اتنے حسین اور خوبصورت ہوجاؤ گے کہ کچھ حد نہیں۔ یہ تمھاری چنداندرونی کیفیت کا بیان ہے ،خارج کی نعمتیں اور درجات تو ابھی سامنے آنے ہیں۔‘‘
’’کیا سب کے ساتھ یہی ہوگا؟‘‘
’’ہاں سب کے ساتھ یہی ہوگا البتہ جس کے اعمال جتنے زیادہ اچھے ہوں گے، اس کی طاقت، حسن اور کمال اتنا ہی زیادہ ہوگا۔‘‘
میرے منہ سے بے اختیار نکلا:
’’الحمد للہ رب العالمین‘‘
ہم یہ گفتگو کرتے ہوئے عرش کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔ صالح نے یہاں پہنچ کر مجھ سے کہا:
’’عبد اللہ! اب میں تم سے جدا ہورہا ہوں۔ تم یہاں داخل ہوگے تو جنت کے دروازے پر نکلو گے۔ میں وہیں داروغۂ جنت کے ساتھ تمھیں مل جاؤں گا۔ تم اطمینان سے آگے بڑھو۔‘‘
یہ کہہ کر وہ رخصت ہوگیا۔
میں ایک لمحے کے لیے کھڑا سوچتا رہا۔ اچانک میرے سامنے ایک دروازہ کھل گیا۔ آواز آئی:
’’اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔ اس طرح کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے۔ پھر داخل ہوجا میرے بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔‘‘
میں ان الفاظ سے حوصلہ پاکر آگے بڑھا اور دروازے کے اندر داخل ہوگیا۔ میری زبان پر بے اختیار یہ کلمات جاری تھے:
’’اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد‘‘
اندر داخل ہوتے ہی مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں ایک راہداری میں آگے بڑھ رہا ہوں۔ یہاں فرش، چھت اور دیواریں سب بالکل سفید دودھیا رنگ کی تھیں۔ اندر داخل ہوتے ہی مجھے ایک بہت خوشگوار احساس ہورہا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ یہ راستہ غیر محسوس طریقے پر دائیں سمت میں مڑ رہا ہے۔ میں کچھ ہی دور گیا تھا کہ اچانک رنگ و نور کے مرغولوں نے میرا احاطہ کرلیا۔ قوس و قزح کے رنگ میرے اطراف میں جگمگانے لگے۔ میں پورے سکون و اعتماد کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ یکایک نور کی ایک چادر میرے آرپار ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی میرے وجود کا ریشہ ریشہ لطف و سرور کے احساس میں ڈوب گیا۔ مجھے لگا کہ میں ہواؤں میں اڑرہا ہوں۔ میرا جسم بالکل بے وزن اور ہلکا ہوگیا۔ مجھے لگا کہ میرا جسم تحلیل ہوگیا ہے اور میں صرف روح کی شکل میں باقی ہوں۔ میں بے خود ہوکر آگے بڑھتا رہا۔ کچھ ہی دیر بعد پھر وہی دودھیا راہداری میرے سامنے تھی اور میں اس میں چلا جارہا تھا۔ مگر اب میرے احساسات میں زمین آسمان کا فرق آچکا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں بدل کر کچھ سے کچھ ہوچکا ہوں۔ قوت، طاقت، سکون و اطمینان اور اعتماد کی ایک ناقابل بیان کیفیت تھی جس میں میں چلا جارہا تھا کہ اچانک مجھے ٹھہرنا پڑا۔ میرے سامنے ایک ایسا مقام تھا جہاں سے آٹھ راستے نکل رہے تھے۔ ہر راستے پر یہ درج تھا کہ یہ راستہ جنت کے کس دروازے پر نکلے گا۔ میں یہ پڑھنے کی کوشش کررہا تھا کہ کیا لکھا ہے کہ ایک آواز آئی:
’’شہدا کے دروازے سے اندر چلے جاؤ۔‘‘
میں نے غور کیا تو دائیں طرف پہلا دروازہ انبیا کا تھا اور ا س کے برابر میں دوسرا دروازہ صدیقین اور پھر شہدا کادروازہ تھا۔ میں اسی میں داخل ہوگیا۔ یہ بھی ایک راہداری تھی جو ایک دروازے پر ختم ہورہی تھی۔ میں اس دروازے سے باہر آگیا۔ اس سے پہلے کہ میں باہر نکل کر کسی چیز کا جائزہ لیتا، میں نے اپنے سامنے صالح کو موجود پایا۔ اس کے ساتھ ایک فرشتہ کھڑا ہوا تھا۔ صالح کے بجائے اس نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور کہا:
’’السلام علیکم۔ہمیشہ باقی رہنے والی جنت کی اس بستی میں آپ کو خوش آمدید۔ صالح نے مجھے آپ کا نامۂ اعمال دیا جس میں آپ کا نام عبد اللہ بیان ہوا ہے۔ مگر اس کے ساتھ اعزازات اتنے لکھے ہوئے تھے کہ سمجھ میں نہیں آتا آپ کو کیا کہہ کر مخاطب کروں۔‘‘
صالح نے مداخلت کرتے ہوئے کہا:
’’سر دست سردار عبداللہ سے کام چلائیے۔ کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کی موت کے بعد یہ کہہ کر ان کے استقبال کے لیے بھیجا تھا کہ میرا بندہ عبد اللہ سردار ہے۔ اسے لے کر میرے پاس آؤ۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ سردار عبداللہ! ختم نہ ہونے والی بادشاہی میں آنا مبارک ہو۔‘‘، یہ کہتے ہوئے اس نے مجھ سے معانقہ کیا۔
’’ہمارے میزبان کا نام کیا ہے؟‘‘، معانقہ کرتے ہوئے میں نے صالح سے پوچھا۔
’’یہ میزبان نہیں دربان ہیں اور ان کا نام رضوان ہے۔‘‘
رضوان ہنستے ہوئے بولے:
’’یہاں میزبان آپ ہیں سردار عبد اللہ۔ یہ آپ کی بادشاہی ہے۔ ذرا دیکھیے تو آپ کہاں ہیں۔‘‘
اس کے کہنے پر میں نے نظر دوڑائی تو دیکھا کہ میں ایک بالکل نئی دنیا میں داخل ہوچکا ہوں۔ یہاں آسمان و زمین بدل کر کچھ سے کچھ ہوچکے تھے۔ نئے آسمان اور نئی زمین پر مشتمل یہ ایک ایسی دنیا تھی جہاں یقیناًسب کچھ تھا۔ مگر اس کے حسن اور کاملیت کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ میں زندگی بھر ایک قادر الکلام شخص رہا۔ مجھے زبان و بیان پر غیر معمولی عبور حاصل تھا، الفاظ میری دہلیز پر سجدہ کرتے اور اسالیب مجھ پر القا ہوتے۔ خدا نے مشکل سے مشکل حقائق کے بیان کو ہمیشہ میرے لیے بے حد آسان کیے رکھا تھا۔ مگر اس لمحے مجھے اندازہ ہوا کہ دنیا کی ہر زبان ان حقیقتوں کو بیان کرنے سے عاجز ہے جو میرے سامنے موجود تھیں۔ میں بالکل اسی کیفیت میں تھا جو پتھر کے زمانے کے کسی انسان پر صنعتی دور کے کسی جدید شہر میں اچانک آکر طاری ہوسکتی تھی۔ جو شخص اپنے غار کو لکڑیاں جلاکر روشن کرتا رہا ہو وہ اچانک لیزر لائٹ کی قوس و قزح اور ٹیوب لائٹ کی دودھیا روشنی کے جلوے دیکھ لیتا تو کبھی اس کی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں پاسکتا تھا۔ یہی کیفیت اس وقت میری تھی۔(جاری ہے)
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)