پاک، بھارت تعلقات: تاریخ پر ایک نظر (1)

پاک، بھارت تعلقات: تاریخ پر ایک نظر (1)
 پاک، بھارت تعلقات: تاریخ پر ایک نظر (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

1947ء میں برطانیہ نے برصغیرکو چھوڑنے سے پہلے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ہندو بھارت اور مسلم پاکستان (جو مسلمانوں کا مطالبہ تھا)۔ بھارت کا یوم آزادی 15اگست اور پاکستان کا یوم آزادی 14اگست ہے۔ تقسیم کے موقع پر آبادی کے تبادلے کو آگ اور خون کا دریا بھی کہا جا سکتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر آبادی کا تبادلہ نہیں ہوا اور شاید ہی کبھی اتنا تشدد دیکھنے میں آیا ہوگا۔1947-48ء میں کشمیر کے مسئلے پر پہلی پاک بھارت جنگ ہوئی۔ اکتوبر 1948ء میں پختون قبائل نے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لئے کشمیر پر حملہ کر دیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے اس حملے اور اندرونی طور پر مسلمان اکثریت کی بغاوت سے بچنے کے لئے بھارت سے مدد کی اپیل کر دی، اس کے بدلے میں اس نے اپنے دفاع، مواصلات اور خارجہ معاملات بھارت کے سپرد کر دیئے۔ یہ بھی طے پایا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے جو معاہدہ کیا ہے، ریاست میں اس پر ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ بھارت سے مداخلت کی درخواست مہاراجہ نے نہیں کی تھی، بلکہ بھارتی افواج کی مداخلت بھارت کا اپنا فیصلہ تھا۔ بہرحال جنگ جاری رہی، جبکہ پاکستانی فوج نے اپنے آپ کو صرف اپنی سرحدیں محفوظ رکھنے تک محدود رکھا۔ یہ جنگ یکم جنوری 1949ء تک جاری رہی، جب اقوام متحدہ نے امن قائم کرنے کے لئے ایک دستہ تشکیل دیا اور کشمیر کے الحاق پر ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا گیا، جواب تک نہیں ہو سکا اور شاید کبھی نہ ہو سکے۔ یو این او میں پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر میں رائے شماری کا وعدہ کیا کہ کشمیریوں سے پوچھا جائے گا کہ وہ بھارت کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پاکستان کا؟ آزادکشمیر ،جو کشمیر کا ایک تہائی حصہ ہے ۔ہنزہ اور نگر بھی پاکستان کے پاس ہیں، یہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے یا ہم اسے آزادکشمیر کہتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف کا جو حصہ ہے، ہم اسے مقبوضہ جموں و کشمیر کہتے ہیں۔ اس پر بھارت کا کنٹرول ہے۔


1954ء میں مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی نے ریاست کا بھارت سے الحاق منظور کر لیا۔1957ء میں مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی نے 1954ء سے بھارت کے آئین کے تحت انتظام و انصرام چلانے کا فیصلہ کرلیا اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ڈیکلیٹر کر دیا۔
1963ء۔1962ء کی بھارت چین جنگ کے دوران (جو پاکستان کے لئے ایک سنہری اور آخری موقع تھا پورے کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کا)برطانیہ اور امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سورن سنگھ کے درمیان مذاکرات منعقد کرائے،لیکن یہ مذاکرات اس منافقت کا حصہ تھا، جب صدر کینیڈی نے ایوب خان کو یقین دلایا کہ بھارت چین جنگ کے دوران پاکستان کشمیر پر فوج کشی نہ کرے۔ یہ مذاکرات جو بے مقصد اور بے فائدہ رہے ، لیکن ان کی تفصیل نہ تو پاکستان اور نہ ہی بھارت نے جاری کی ہے، لیکن امریکہ کے Declassified پیپرز (کاغذات) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان رائے شماری کے علاوہ بھی آپشنز پر راضی ہو گیا تھا اور بھارت کی طرف سے بھی کشمیر کو ایک مسئلہ یعنی Disputeتسلیم کر لیا گیا تھا ۔ حدود میں ایسا ردو بدل ضروری ہے ،جس سے یہ تنازعہ ختم ہو جائے (27 جنوری 1964ء امریکہ) جو فارمولے اب تک سن رہے ہیں، غالباً اس وقت تجویز کئے گئے تھے، مثلاً چناب فارمولا۔
1964ء: ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد کشمیر کا مسئلہ پاکستان نے یو این او میں پیش کر دیا۔


1965ء: پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسری جنگ ہوئی۔ جب رن آف کچھ میں سرحدی دستوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ 5اگست کو پاکستان نے اس یقین کے ساتھ کہ معاملہ کشمیر تک محدود رہے گا۔ 25سے30ہزار مجاہد کشمیر میں بھیج دیئے، لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر دباؤ کم کرنے کے لئے 6ستمبر کو لاہور پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں سیالکوٹ کے محاذ پر ٹینکوں کی عسکری تاریخ کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی، جس میں 500/600 ٹینک شامل تھے۔ 22ستمبر کو اقوام متحدہ کی مداخلت پر جنگ بندی ہوئی۔ اس دوران بھارت کا کچھ حصہ اور پاکستان کا حصہ ایک دوسرے کے قبضے میں چلا گیا۔
1966ء: 10جنوری کو ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان تاشقند (ازبکستان) میں جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا،مذاکرات ہوئے۔ طے پایا کہ دونوں اطراف کی فوجیں اگست سے پہلے والی پوزیشن پر چلی جائیں گی اور سفارتی، تجارتی تعلقات بحال ہو جائیں گے( اس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ کہہ کر اپنے عہدے سے استعفادے دیا کہ ایوب خان نے تاشقند میں بھارت کو کچھ ایسی یقین دہانیاں بھی کرائی ہیں جو پاکستان کے مفادات اور موقف کے خلاف ہیں اور وقت آنے پر وہ قوم کو اعتماد میں لیں گے ، لیکن وہ وقت کبھی نہیں آیا۔ ملکی سطح پر احتجاج کے بعد مارچ69ء میں ایوب خان نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔)


70ء کے انتخابات شیخ مجیب نے اپنے چھ نکات کی بنیاد پر لڑے جو انہوں نے قبل ازیں لاہور کی حزب اختلاف کی جماعتوں کی کانفرنس میں پیش کئے تھے انتخابات کے بعد اسمبلی کے اجلاس کے التواء پر مشرقی پاکستان میں وسیع پیمانے پر فسادات شروع ہو گئے۔ بھارت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پاکستانی فوج نے اسے سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ دسمبر میں بھارت بھی اس میں کود پڑا اور بری، فضائی دستے اس جنگ میں جھونک دیئے۔ یہ جنگ 13دن جاری رہی جو دنیا کی مختصر ترین جنگ تھی۔ اس میں مشرقی پاکستان 16دسمبر 1971ء کو بنگلہ دیش بن گیا۔


1972ء: پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے شملہ میں ایک معاہدہ کیا، جس میں تنازعات کے پُرامن حل، معمول کے مطابق تعلقات ،تاکہ برصغیر میں سیاسی استحکام اور پُرامن ماحول قائم ہو جائے، کا معاہدہ کیا گیا۔
1974ء: مقبوضہ کشمیر اسمبلی نے بھارتی آئین کے ریاست میں نفاذ کو دوبارہ منظور کیا، لیکن پاکستان نے اسے مسترد کر دیا۔18مئی کو بھارت ایٹمی دھماکے کرکے ایٹمی طاقتوں میں شامل ہو گیا، لیکن اسے خفیہ رکھ کر اس کا کوڈ نام ’’Smiling Budha‘‘ رکھا گیا اور اسے پُرامن استعمال کے لئے ایٹمی توانائی حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا۔


1986ء کے وسط میں جب پاکستان اندرونی مسائل میں الجھا ہوا تھا، سرحد پار سے خبریں آنی شروع ہوئیں کہ بھارت راجستھان میں ایک بہت بڑی فوجی مشق کرنے جا رہا ہے۔ کیا پاکستان خطرے میں ہے؟ یہ سوال ذمہ دار حلقوں میں سنجیدگی سے پوچھا جانے لگا۔ فوج کے علاوہ فضائیہ اور نیوی بھی اس مشق کا حصہ تھے، جس کا نام’’آپریشن براس ٹیک‘‘ تھا۔ منصوبے کے مطابق یہ مشق 1986ء سے شروع ہو کر 1987ء تک جاری رہی تھی۔ چھ لاکھ فوجی ہر قسم کے اسلحہ سے لیس پاکستان کی سرحد تک لائے گئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ سب سے بڑا ’’مشق‘‘ کا منصوبہ تھا؟ ان کے ایک جنرل کے مطابق یہ ’’مشق‘‘ نہیں تھی۔ پاکستان کے ساتھ چوتھی اور فیصلہ کن جنگ کا منصوبہ تھا، لیکن ایک بھارتی صحافی کی ڈاکٹر قدیر سے ملاقات کرائی گئی جس میں ڈاکٹر قدیر نے انہیں بتایا کہ ہم نے سب کچھ تیار کر لیا ہے اگر ہماری سلامتی کو خطرہ ہوا تو پٹاخے چلانے میں دیر نہیں لگے گی اور پورا برصغیر راکھ ہو جائے گا، اس کے بعد بھارتی فوج کی ’’مشق‘‘ ختم کر دی گئی۔(جاری ہے)

مزید :

کالم -