جب رسول اللہ ﷺ نے منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھائی

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر نماز جنازہ کے لیے کہا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس ارادے سے کھڑے ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھاتے ہیں حالانکہ اس نے فلاں دن فلاں بات کہی تھی اور فلاں دن فلاں بات۔ میں اس کی کفر کی باتیں گننے لگا۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرا دئیے اور فرمایا عمر! اس وقت پیچھے ہٹ جاؤ۔ لیکن جب میں بار بار اپنی بات دہراتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے اختیار دے دیا گیا ہے ‘ میں نے نماز پڑھانی پسند کی اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ اس کے لیے مغفرت مانگنے پر اسے مغفرت مل جائے گی تو اس کے لیے اتنی ہی زیادہ مغفرت مانگوں گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور واپس ہونے کے تھوڑی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ براۃ کی دو آیتیں نازل ہوئیں۔ ”اور ان میں سے جو مرجائے کسی پر کبھی نماز نہ پڑھ اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہو، بے شک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مر گئے۔۔“ آیت «وهم فاسقون»۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اپنی اس دن کی دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ (ہر مصلحت کو) زیادہ جانتے ہیں۔
صحیح البخاری : 1366