مسلم ممالک کا اتحاد
سعودی عرب کے شہر ریاض میں اسلامی عرب سربراہی کانفرنس ہوئی، اس کے اعلامیے میں مسئلہ فلسطین اور لبنان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ جموں اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حقوق کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے شرکاء نے اپیل کی کہ عالمی برادری اِن تنازعات کے منصفانہ حل کے لئے کردار ادا کرے۔ اعلامیے کے مطابق کانفرنس میں مسلم مخالف رجحانات اور اسلاموفوبیا کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ مسلم ممالک کو مشترکہ عالمی حکمت عملی اپنانی چاہئے تاکہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو روکا جا سکے۔ کانفرنس میں شریک ممالک نے آپس میں تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے اور اقتصادی منصوبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا اور اِس کے لئے اِن کے درمیان آزادانہ تجارتی معاہدے اور سرمایہ کاری میں اضافے کے لئے مختلف تجاویز پر غور بھی کیا گیا۔ اعلامیے میں تعلیم،سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ تحقیقی شعبوں میں تعاون بڑھانے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے تعلیمی اداروں اور سائنسی تحقیق میں شراکت داری کے فروغ پر زور دیا گیا۔ کانفرنس نے موسمیاتی تبدیلی سے نبٹنے کے لئے مشترکہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا اور اِس سے نبٹنے کے لئے قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے اور عالمی سطح پر گرین انرجی اقدامات میں شرکت کی حوصلہ افزائی کے بارے میں بات بھی کی گئی۔کانفرنس میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ مسلم دنیا کو درپیش چیلنجوں کے حل کے لئے اتحاد اور یکجہتی بنیادی اصول ہیں اِس لئے باہمی تعاون، اَمن اور ترقی کے لئے مل کر کام کرتے رہیں گے۔
کانفرنس میں پاکستان نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے اور جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فوری طور پر فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو،پاکستان ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کی حمایت جاری رکھے گا جس کی سرحدیں 1967ء سے قبل والی ہوں۔وزیراعظم شہباز شریف نے یہ مطالبہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے سامنے رکھتے ہوئے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ دنیا اسرائیلی جرائم سے صرفِ نظر کر رہی ہے جس کی وجہ سے غزہ میں انسانی بحران تصور سے بڑھ چکا ہے،اسرائیل نے تمام حدیں پار کر کے عالمی انسانی تحفظ کے قانون کے چیتھڑے اُڑا دیے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھوک، افلاس اور قحط نے غزہ میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، غزہ میں فوری جنگ بندی وقت کی ضرورت ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے پر پابندی کے ہولناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، سلامتی کونسل اسرائیل کی رکنیت معطل کرے اور بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کے خلاف یہودی آبادکاروں کی جاری دہشت گردی روکنے میں مدد کرے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب فلسطینی علاقوں سمیت لبنان اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی پر زور مذمت کرتا ہے، بین الاقوامی برادری اسرائیل کو ایران اور لبنان کی سالمیت اور خود مختاری کے احترام کا پابند کرے۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ اسرائیل کی مسجد اقصیٰ کے تقدس کی پامالی اور بے حرمتی کی شدید الفاظ میں مذمت اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطین کا وجود ختم کرنے کے در پے ہے جس کے خلاف تمام مسلم ممالک متحد ہو کر آواز اُٹھائیں اور اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہوجائیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ مسلمان ممالک کو اسرائیل کے خلاف ضروری اقدامات لیتے ہوئے اِس کے ساتھ ہر طرح کی تجارت بند کردینی چاہئے اور اِسے عالمی سطح پر تنہاء کر دینا چاہئے۔
مشترکہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں وزیراعظم پاکستان سمیت 50 سے زائد سربراہانِ مملکت اور خصوصی نمائندے شریک ہوئے اور سب نے ہی اقتصادی تعاون کے علاوہ اَمن اور استحکام کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے اتحاد پر زور دیا۔ سعودی ولی عہد نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ اُنہوں نے دو ریاستی حل پر عملدرآمد کے لئے بین الاقوامی اتحاد کا آغاز کر دیا ہے تاہم ضروری ہو گا کہ یہ اتحاد فلسطین کی رائے کا احترام کرتے ہوئے وہاں کے عوام کی اُمنگوں کے مطابق آگے بڑھے، پاکستان کا 1967ء سے قبل کی سرحدوں کے مطابق دو ریاستی حل کا مطالبہ فلسطینیوں کے لئے زیادہ قابل ِ قبول ہو سکتا ہے۔
یہ تمام معاملات زیر بحث بھی لائے جا سکتے ہیں اور میز پر بیٹھ کر گفت و شنید کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں بشرطیکہ اسرائیلی جارحیت کو رکوا کر اُسے واپسی پر مجبور کیا جائے،ابھی تک تو وہ کسی کی بات ماننے اور سننے کو تیار نہیں ہے چاہے وہ سلامتی کونسل کی قراردادیں ہوں یا امریکہ کی طرف سے حال ہی میں جاری کی جانے والی وارننگ،اِس سے قبل امریکہ اسرائیل کو زبانی کلامی کئی بار خبردار کر چکا ہے لیکن چونکہ ساتھ ہی ساتھ اُس کی مالی اور اسلحے کی امداد جاری ہے اِس لئے اسرائیل کو کسی بات کی فکر نہیں ہے کیونکہ اسرائیل کے اتحادی ابھی تک اس کی پشت پر نہ صرف کھڑے ہیں بلکہ اُس کی جارحیت کو حق ِ دفاع گردانتے ہیں۔ دنیا کے کسی جنگی قانون اور ظابطے میں بھی بچوں اور خواتین پر ظلم اور بربریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کسی قوم کی نسل کشی کا حق کیسے حق ِ دفاع قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کے اتحادی ممالک کے عوام اپنی حکومتوں کے ”حق ِ دفاع“ کی اِس خود ساختہ تعریف کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، اسرائیل کے اندر سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں، امریکہ اور برطانیہ کے حالیہ انتخابات کے نتائج عوام کی اسرائیلی اقدامات اور اُس کا ساتھ دینے والوں کے خلاف واضح چارج شیٹ ہے،اسرائیل کا کھلم کھلا ساتھ دینے والے سیاستدانوں کی بڑی تعداد کو عوام نے مسترد کیا ہے لیکن اسرائیل بدمست ہاتھی کی طرح ہر کسی کو کچلنے پر مْصر ہے کیونکہ اُس کی امداد نہیں روکی جا رہی۔ دنیا کو چاہئے کہ سب سے پہلے اسرائیل کے اتحادیوں پر زور ڈالے کہ وہ اِس کی ہر طرح کی امداد بند کریں، فلسطین میں جنگ بندی کرائیں،اسرائیلی افواج کو واپس بھجوائیں اور پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاملات حل کریں۔اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ وہ لبنان،ایران اور شام کو بھی جنگ میں لپیٹ لے تاکہ معاملہ فلسطین سے نکل کر مزید پھیل جائے اور اِس کے توسیع پسندانہ عزائم کامیاب ہو سکیں جس کا وہ اظہار ”گریٹر اسرائیل“ کے نقشے دِکھا دِکھا کر کر چکا ہے، ایسے وقت میں مسلم ممالک کا متحد ہونا لازم ہے۔یہی وقت ہے کہ تمام مسلم ممالک اپنے اختلافات بھلا کر کم از کم فلسطین کے معاملے پر ایک آواز ہو جائیں، اُس اتحاد کو فوری طور پر عملی شکل دیں جس کا عندیہ سعودی عرب نے دیا ہے، مِل کر ہر ممکن عملی قدم اُٹھائیں تاکہ یہ مسائل حل ہو سکیں۔