دیہی علاقوں کے عوام کیلئے کوالیفائیڈ ڈاکٹر ملتا نہیں, ہم شہروں میں کچھ نہیں کرتے مگر دیہات کے جعلی ڈاکٹروں کے چالان پر چالان کر دیتے ہیں
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:83
اس تحریک کامقصد یہ ہے کہ جیلوں میں موجود قیدیوں پر رحم کیا جائے جن کو معاف کیا جا سکتا ہے انہیں معاف کر دیا جائے۔ ان قیدیوں پر تشدد نہ کیا جائے اور نہ ہی انہیں کوئی اذیت دی جائے۔ اس سلسلہ میں چک کالسن نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اپنی جیل کی سزا کے دوران ایک دفعہ خواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت کی تو انہوں نے سزا یافتہ قیدیوں، ان کی فیملیز اور جرائم پیشہ افراد کے جرائم سے سوسائٹی کو جو نقصان پہنچا ہے کے لئے رحم، معافی اور مظلوموں کے لئے ان کے نقصان کے ازالے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب لوگ گنہگار ہیں۔ یسوع مسیح علیہ السلام اور اللہ ہم سب پر رحم کرتاہے انسان بھی عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور حضرت مسیحؑ کی محبت، رحم اور معافی کو جرائم پیشہ افراد اور ان کے خاندانوں میں تقسیم کریں۔
جیسا کہ اوپر کی سطور میں بتایا گیا ہے کہ چک کالسن اس تحریک کے بانی ہیں اور رونالڈ نکل اس کے صدر رہے ہیں۔امریکہ میں معمولی سے فنڈ کے ساتھ یہ تحریک شروع کی گئی اور اب یہ دُنیا بھر میں جیلوں میں بند جرائم پیشہ افراد کے خاندانوں کی بہبود کے لئے کام کر رہی ہے اور اب یہ 98 ممالک کابہت بڑانیٹ ورک ہے جس کابورڈ آف ڈائریکٹرز بھی ہے اور ہرملک میں تنظیم کے اپنے عہدہ دار ہیں۔
یہ تنظیم اگرچہ مسیحیت کے نام پر قیدیوں، سزا یافتہ افراد اور ان کے بیوی بچوں کی تعلیم و تربیت و بہبود کے لئے قائم کی گئی ہے۔ ایسی مؤثر تنظیم درحقیقت ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ مسیحیت کے نام پر نہ سہی انسانیت کے نام پر جیلوں میں محبوس قیدیوں کی بہتری اور بہبود کے لئے ہمیں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
پھر قیدیوں کے بیوی اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیونکہ اکثر قیدیوں کے بچوں کے پاس وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ معاشرہ میں اپنا مقام حاصل نہیں کر سکتے جن کے وہ حقدار ہیں۔
چیئرمین ڈرگ کورٹ
2004ء کے آخرمیں کنفرم جج لاہور ہائی کورٹ کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد میں لاہور ہی میں مقیم تھا۔ قانونی مشاورت اور سپریم کورٹ میں وکالت کا پروگرام بنا رہا تھا۔ کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج کی حیثیت سے لاہور ہائی کورٹ میں تو میں وکالت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جن عدالتوں میں آپ جج رہے ہوں وہاں وکیل کی حیثیت سے پیش ہونا مناسب نہیں ہے اور یہ قانون بھی ہے۔ سپریم کورٹ میں وکالت توہو سکتی ہے مگر وہاں ایک تو مقدمات تھوڑے جاتے ہیں دوسرے جلد فیصلہ کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ سپریم کورٹ میں وکالت کے لئے تو اسلام آباد مقیم ہوناپڑے گا کیونکہ لاہور شہر میں مقیم ہوں تو اسلام آباد جانے کا خرچہ سائلین کے لیے برداشت کرنامشکل ہو جاتاہے۔ ابھی میں اسی غوروفکر میں تھا کہ حکومت کی طرف سے مجھے پیش کش کی گئی کہ ڈرگ کورٹ گوجرانوالہ جولاہور میں ہے کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کریں۔ میں اس بات پر خوش ہوا کہ عوام کی خدمت کرنے کا ایک اورموقع مجھے مل گیا ہے اورکچھ ہفتوں کے بعد ڈرگ کورٹ لاہور ریجن کا عہدہ بھی خالی ہو گیا اور حکومت نے لاہور ڈرگ کورٹ کے چیئرمین کا چارج بھی مجھے ہی دے دیا۔ اس دوران مختلف نوعیت کے مقدمات پیش ہوتے رہے۔ ان عدالتوں میں دور دراز کے علاقوں اور دیہات میں جعلی ڈاکٹروں اور عطائیوں کے خلاف مقدمات پیش ہوتے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹر دیہات میں جاتے ہیں وہاں اکثر و بیشتر کمپاؤنڈر قسم کے لوگ ڈاکٹری کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز ان دور دراز دیہات میں آتے نہیں۔ دیہات کے غریب عوام کا علاج معالجہ لے دے کر ایسے جعلی اور عطائی ڈاکٹر ہی کرتے ہیں۔ ایسے ڈاکٹروں کا ڈرگ انسپکٹر چالان کرتے ہیں اور بعض دواسازوں پر جعلی ادویات بنانے کے الزامات بھی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بھی ڈرگ کورٹس میں ہی پیش ہوتے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹروں کو ہم نے دیکھا ہے کہ شہروں کے جعلی ڈاکٹروں اور عطائیوں کے خلاف کچھ نہیں کرتے مگر دیہات کے جعلی ڈاکٹروں کے چالان پر چالان کر دیتے ہیں۔ مجھے افسوس بھی ہوتا ہے کہ غریب دیہی علاقوں کے عوام کے لئے کوالیفائیڈ ڈاکٹر تو ملتا ہی نہیں ہم اُن کے جعلی ڈاکٹروں کو بھی چھین رہے ہیں۔ میں نے کئی دفعہ حکومت کے پاس تجاویز بھجوائی ہیں کہ کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کو دیہی علاقوں میں ضرور بھجوایا جائے۔ اس کے لئے خواہ شرائط ملازمت میں کچھ دفعات رکھ لی جائیں۔ زیادہ تنخواہ اور الاؤنس دیئے جائیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔