نرم لہجے میں سخت بات
اگر آپ کرکٹ ٹیسٹ میں انگلینڈ کے ہاتھوں پاکستان کی منفرد شکست سے جانبر ہو چکے ہیں تو ایک نیا سوال اٹھانے کی جسارت کروں گا۔ یہی کہ ہم میں سے کتنے لوگوں نے کبڈی کے میدان میں اپنی پسند کی ٹیم کو بیڈمنٹن یا چڑی چھکا کھیلتے دیکھا ہے اور وہ بھی ٖآئس ہاکی کے قواعد کے مطابق؟ جواب نفی میں ہو تو کیبل ٹیلی ویژن پر کسی مقبول ٹاک شو کی جھلک دیکھ لیجیے، میری مثالوں کے درمیان مشابہت واضح ہو جائے گی۔ پھر بھی سچ پوچھیں تو مذکورہ خیالی میچ کی اوٹ پٹانگیت ٹی وی سکرین پر پڑنے والے گھمسان (ہندی میں گھما سان) کے رن کا مقابلہ نہیں کرتی۔وجہ یہ ہے کہ کرکٹ، ہاکی اور فٹبال کے برعکس الیکٹرانک میڈیا کا میچ آمنے سامنے کھڑی دو ٹیموں میں نہیں ہوتا بلکہ یہ کثیر فریقی ٹونٹی ٹونٹی ہے، جس میں چار چار، پانچ پانچ ٹیمیں بیک وقت میچ کھیلتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ امپائر بھی اس میں بھر پور حصہ لے تاکہ خود ہی بال کرا کر اپنی ہی گیند پہ تابڑ توڑ چوکے لگا سکے اور مین آف دی میچ کا اعزاز حاصل کر لے۔
بیس سال پہلے نجی شعبہ کی نشریات کا آغاز ہوا تو پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان سے ہٹ کر خبروں اور حالات حاضرہ کا کوئی آزاد ماڈل ہماری رہنمائی کے لئے موجود نہیں تھا۔ چنانچہ جس طرح رسد اپنی طلب خود پیدا کرتی ہے، ویسے ہی گفتگو کے متن، مجموعی ڈھانچے اور لب و لہجہ کے ابتدائی ناپختہ رجحانات کم و بیش ہر چینل کے نزدیک ایک مقبول روایت بن گئے۔ رہتی سہتی کمی یوٹیوب اور ٹِک ٹاک پوری کر رہے ہیں کہ بات کا سِرا جہاں سے چاہا پکڑ لیا اور جہاں چاہا چھوڑ دیا، زیرِ نظر مسئلے کا سیاق و سباق اور اس کے امکانی حل کی تدبیر گئی بھاڑ میں۔ اِس تکنیک کا فائدہ ہوسٹ کو مونی ٹائزیشن کے رُوپ میں ملتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے بڑے بڑے راسخ العقیدہ معترضین کے منہ بند کر رکھے ہیں۔ تو کیا کالم نگار نے بھی بات کا دھاگہ مرضی سے اُچکا اور اب اسے توڑ رہا ہے؟
جی نہیں، کالم نگار کو تو بارہا یہ خیال بھی آتا ہے کہ مار دھاڑ کا ابلاغی رویہ کہیِں ہمارے بنیادی سماجی رویوں ہی کی پیداوار نہ ہو۔ ذرا سوچئے، ہم میں کتنے لوگ ہیں جو روزمرہ زندگی میں کسی کی (اور بسا اوقات اپنی) عزت پہ ہاتھ ڈالے بغیر تسلسل سے گفتگو کر نے اور سننے کے عادی ہوں؟ اقبال نے کہا تھا ’یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تُو نے‘۔ کیا پتا سکرین پر نظر آنے والا (یا آنے والی) اینکر پرسن محض ’ک‘ اور ’گ‘ کے فرق سے خود ہمارے اندر کا اینگر پرسن ہو جسے مَیں اور آپ وضعداری کی چادر میں چھپائے پھرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ کسی اور ملک میں ٹی وی چینل سِرے سے بحث مباحثہ کا پروگرام نہیں کرتے۔ بالکل کرتے ہیں، جس میں کسی اہم واقعے کی خبر، پس منظر اور الگ الگ موقف بیان کیے جاتے ہیں اور ان پہ ماہرانہ تبصرے بھی ہوتے ہیں۔ اختلاف رائے بھی کیا جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ مستحکم جمہوری معاشروں میں شرکائے بحث کے درمیان کہنے، سننے کا حوصلہ بھی ہوتا اور سلیقہ بھی۔
اِس کے برعکس ہمارے ہاں شرکا کے چناؤ میں اُن کی موزونیت کو دخل کم ہے اور شکل صورت کی ورائٹی کو زیادہ۔ جیسے بعض ڈاکٹر زکام کے شربت کے ساتھ صبح، دو پہر، شام کے لئے مختلف رنگوں اور سائز کی ایک ایک اضافی گولی اور کیپسول اس لئے لکھ دیتے ہیں کہ نسخہ مالی اور جمالیاتی پہلوؤں سے بھی بارعب لگے۔ اسی اصول کے تحت ٹاک شو میں اگر دو صاحبان سُوٹ اور ٹائی اوڑھے بیٹھے ہیں تو منطقی طور پر تیسری شخصیت کو ایک طرح دار خاتون ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہو سکے تو سُوٹ کے مقابل کسی باریش بزرگ کو کالی واسکٹ پہنا دی جاتی ہے۔ اسی طرح عینک، رنگین لینز، پھر کالے، بھورے، سفید بالوں کے لحاظ سے بھی انسانوں کے زُمرے متوازن کیے جاتے ہیں۔
اِس ظاہری تنوع کے باوجود یہ عزم سب کرداروں میں مشترک ہے کہ خبردار، دوسرے کی بات پہ غور نہیں کرنا۔ غور کرنے میں ایک بہت بڑا رِسک ہے۔ یہ کہ بات سمجھ میں آ جائے گی، اور اگر سمجھ میں آ گئی تو اسے قبول بھی کرنا پڑے گا۔ اب قبول کر لینے میں کوئی قباحت تو نہیں، مگر وہی معروف ادیب اور براڈکاسٹر شوکت تھانوی کا مقولہ کہ ”دفتر وقت پہ آ تو سکتا ہوں، بس یہ ایک طرح کی کم ظرفی سی لگتی ہے“۔ لہٰذا ہمارا زور غور کرنے اور سمجھنے پر نہیں، بولنے پر ہے۔ آلڈس ہکسلے نے کہا تھا کہ موسیقی صدا اور سکوت کا باہمی رشتہ ہے، لیکن ہم نے جہاں اخبار کی تزئین و تدوین میں سفید کو کالا کر دیا، وہاں پچھلے ہفتے پی ٹی وی نیوز پر میرے غیر سیاسی انٹرویو کے اندر ایک بریکنگ نیوز یوں آ گھسی کہ بعض ناظرین اب تک سوچ رہے ہیں کہ اِس میں نیوز کونسی تھی اور بریک کیا ہوا تھا؟
برطانوی انگریز جس کی سب سے بڑی کمزوری (اور طاقت) کچھ عرصہ پہلے تک بی بی سی تھی، کسی کو گالی دینے پر مائل ہو تو صیغہ واحد غائب میں لہجہ دھیما کر کے بس اتنا کہہ دے گا ”میں نے کبھی نہیں چاہا کہ وہ شخص میرا پڑوسی ہو“۔ اُسی طرح جیسے مر حوم کامیڈین عمر شریف نے ہمارے میمن بھایؤں کے مصالحت آمیز غصے کو دیکھ کر اُن سے یہ مفروضاتی جملہ منسوب کر دیا تھا ”جا، مَیں نے تیرے کو گولی ماری“۔ برطانوی گورے کوئی زندہ دلانِ پنجاب نہیں کہ کیمرے کے سامنے آنے کا مقصد ہی دوسرے کا مائیکروفون چھیننا ٹھہرے اور اگر چھین لیا ہے تو پھر اگلی کمرشل بریک تک ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ شاید ہم بھی کیبل ٹی وی کے ہر ٹاک شو میں ہر بارہ منٹ بعد یہ بریکیں لگاتے ہی اِس بہانے ہیں کہ مائیک واگزار کرا نے کی مہلت مل سکے۔
گورا دانشور، ادیب، کھلاڑی یا تجزیہ کاریوں بھی مختلف ہے کہ وہ معقول معاوضے کے بغیر ٹی وی ا سٹوڈیو کا رُخ نہیں کرتا۔ اِس کا صحیح اندازہ کوئی 32 سال پہلے ہوا جب مایہ ناز پاکستانی آل راؤنڈر ماجد خان کے والد اور شاندار کرکٹر ڈاکٹر جہانگیر خان پہ پی ٹی وی کی دستاویزی فلم کے لئے مجھے 1930ء اور 40ء کی دہائی کے ممتاز کھلاڑیوں سے رابطہ قائم کرنا پڑا تھا۔ و لفریڈ وولر، گراہم پارکر اور سر جارج ایلن میں سے آخر الذکر دوستوں میں ’گبی ایلن‘کہلائے اور ایم سی سی کے کپتان رہے۔ مَیں عینی شاہد ہوں کہ یہ صاحب لندن میں اُس واحد کوٹھی کے مالک تھے جس کا عقبی دروازہ سیدھا لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کے اندر جا کھلتا۔ اپنے سمیت تینوں صاحبان کو مفت انٹرویو پہ اِس لئے راضی کرنا پڑا کہ ہمارے قومی ٹیلی ویژن نے بیس پاؤنڈ فی کس کا ’خطیر‘ معاوضہ تجویز کیا تھا جس کا اُن کے سامنے اشارہ دینے کی مجھے جرائت نہ ہوئی۔
یہ کھلاڑی، جن میں سے دو کا ذریعہ معاش ہی ریڈیو ٹی وی پہ کرکٹ کی خبروں کا تجزیہ کرنا تھا، اپنے مطالباتِ زر سے کیسے دستبردار ہوئے، پھر کون کون سی نادر تصویریں ہمیں فراہم کیں، ڈاکٹر جہانگیر کو کس کس پہلو سے سراہا، اور لارڈز میں ہمارے مرحوم کرکٹر کے ہاتھوں ’جاں بحق‘ ہونے والی چڑیا کی اصلیت کیا نکلی؟ یہ مزیدار کہانی کسی اور دن کے لئے، ابھی تو اتنا ہی کہ مَیں نے دس سال پہلے (خیالی) متحدہ فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے بابوں کو ابلاغیات کے میچ میں نئی ٹیموں کے لئے رول ماڈل بن جانے کی ترغیب دی تھی۔آج سوچتا ہوں اگر حکومت یوٹیوبرز اور ٹِک ٹاکرز میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے میں سنجیدہ ہے تو پی ٹی وی پر جھوٹ موٹ کی بریکنگ نیوز کی جگہ اُس کے حقیقی پبلک سروس رول، زبان اور پیش کاری کو اُس مقام پر لے جائے کہ نجی شعبہ اِس ماڈل کو اپنانے پہ مجبور ہو۔
٭٭٭٭٭