ساہیوال میں وکیل کے اپرنٹس کی حیثیت سے وکالت کرتا رہا، گھر والوں کو شادی کی جلدی تھی، بھائی اور بھابی نے تفصیلی انٹرویو کر کے لڑکی کو پسند کر لیا
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:22
اسی طرح جب میری شادی کی بات چیت شروع ہوئی تو سب نے باہم مشورہ سے تلاش شروع کر دی۔ میں ساہیوال کے چوٹی کے وکیل شیخ حفیظ احمد کے اپرنٹس کی حیثیت سے وکالت کرتا رہا۔ میرے ایک سینئر وکیل ساتھی محترم افضل نور صاحب نے بھی گھر والوں سے سن کر میری شادی میں مدد کرنے کا کہا۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی صادق جو اپنی بیگم صاحبہ سلمیٰ کے ہمراہ انگلینڈ میں مقیم ہیں ان کی بیگم کی چھوٹی بہن کے بارے میں بات کی جن کا نام نجمہ تھا۔ وہ ایم اے اُردو کا امتحان پاس کر چکی تھیں اور اب ایم اے اکنامکس کی تیاری کر رہی تھیں اور ساہیوال ضلع میں ہی ہڑپہ کے مقام پر اپنے والد کے فارم ہاؤس میں مقیم تھیں۔ میرے بڑے بھائی چودھری سردار شاہد صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ مجھے ہمراہ لے کر ہڑپہ فارم ہاؤس پر آ گئے۔ نجمہ بیگم مجھے بھی بہت اچھی لگیں۔ بھائی اور بھابی صاحبہ نے بھی تفصیلی انٹرویو کر کے اور بات چیت کر کے انہیں پسند کر لیا۔ گھر والوں کو لڑکی پسند کرنے کے بعد شادی کی جلدی تھی۔ 26 نومبر 1972ء کو ہم دونوں یعنی بشیر احمد مجاہد بار ایٹ لاء اور نجمہ بیگم رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ شادی کے بعد نجمہ بیگم نے ایم اے اکنامکس کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے دیا اور اعزاز کے ساتھ کامیاب ہو گئیں۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ کسی بینک میں نوکری کریں۔ اس پر میں نے اُن کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور نہ ہی اس پر توجہ دی اور اُنہیں خودبخود یہ احساس ہو گیا کہ میں اپنی بیوی کی ملازمت کا شوق پورا نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے اُنہیں کہا کہ آپ نوکری کس لئے کرنا چاہتی ہیں؟ علم حاصل کرنا چاہئے تھا وہ آپ نے کر لیا۔ نوکری پر کسی ضرورت مند کا حق ہے۔ آپ تو ضرورت مند نہیں ہیں۔ جس کو اس نوکری کی ضروت ہے وہ خود اسے ڈھونڈ لے گا۔ اس طرح میں نے ہنسی ہنسی میں انہیں ملازمت کے ارادہ سے باز رکھا۔
میں اپنے آپ کو دُنیا کا خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے نجمہ بیگم جیسی نیک دل، صاف دل، محبت کرنے والی اور خدا ترس خاتون سے میری شادی مقرر کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حسن صورت اور حسن سیرت سے خوب نوازا تھا۔ وہ اخلاق اور مروت کی دیوی تھیں۔ نومبر 1972ء میں ہماری شادی ہوئی اور 5 جولائی 2013ء تک 42 سال ہمارا ساتھ رہا۔ وہ جون میں معمولی بیمار ہوئیں اور 5 جولائی کو ہم سے رُخصت ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے اور اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ دے کیونکہ مرحومہ نے اپنی زندگی میں جنت جیسا گھر اور سُکھ دیا۔ 42 سال کے ساتھ میں کوئی ایسا لمحہ مجھے یاد نہیں کہ مرحومہ نے مجھے دُکھ، غم یا شکایت کا موقع دیا ہو۔ اقبال کا شعر اُن کی نذر ہے:
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
میرے والد صاحب اور اُن کے بڑے بھائی حاجی جان محمد جو کہ گاؤں سے آ کر کچھ عرصہ ہمارے ساتھ گزارتے تھے اس کے لئے ہم اُن سے باقاعدہ درخواست کرتے کہ وہ ہمارے پاس تشریف لائیں۔ نجمہ بیگم دونوں بزرگوں کی خدمت اس طرح کرتیں گویا یہ ان کے اپنے والد ہوں۔ میرے بڑے بھائیوں کی عزت اور خدمت میں بھی وہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتیں۔ خاندان کے تمام لوگوں سے محبت اور اچھے تعلقات انہوں نے ہی قائم رکھے۔ 1985ء میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں چاند جیسی ایک بیٹی گود دی جس کا نام حمیرا ہے۔ نجمہ بیگم نے اس پیاری بیٹی کی دل و جان سے اعلیٰ تربیت کی۔ بیٹی حمیرا کی شادی بھی نجمہ بیگم کا ہی انتخاب تھا۔ اس کا میاں عزیزی خالد بنک میں جاب کرتا ہے۔ حمیرا اور اُس کی دونوں بچیاں مشعل اور زویا نیوکاسل انگلینڈ میں پیدا ہوئی تھیں۔ آج کل وہ 5 جولائی 2013ء کے بعد میری دیکھ بھال پوری ذمہ داری سے کر رہی ہیں۔ میرے بھائی نیو کاسل انگلینڈ میں مستقل قیام پذیر تھے اُن کے بچے بھی وہاں اچھی طرح سیٹ ہو چکے ہیں۔ اب میری بیٹی حمیرا اور اُس کا میاں اپنے بچوں سمیت انگلینڈ میں ہی سیٹل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میری بھی یہی خواہش ہے کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ انگلینڈ میں آباد ہو جائیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔