منہ کھلے کا کھلا رہ گیا
منہ کھلے کا کھلا رہ جائے بعض مناظر اور بیانات ایسے ہی ہوتے ہیں۔رمضان کی آمد آمد تھی ۔ بازار میں گراں فروشوں کے ساتھ ساتھ گھر میں بیگم تیار تھیں کہ جیب پر رمضانی ڈاکا کیسے ڈالا جائے ۔ الماریوں کی جھاڑ پونچھ ہوئی فریج صاف ہوا ۔ نئی بیڈ شیٹس سے لے کر نئے کپڑوں تک سب زیر بحث تھا ۔ ٹیلی ویژن اسکرین پر رمضان میں مذہب کے نام پر کون کیا کچھ بیچے گا بار بار بتایا جارہا تھا۔ ایک چینل پر ایک صاحب پہچان ، ایمان اور احسان وغیرہ کے قافیوں کے ساتھ یہ بتارہے تھے کہ رمضان میں نہ وہ خود سوئیں گے اور نہ ہی کسی کو سونے دیں گے ۔ سحری ان کے ساتھ ، افطاری ان کے ساتھ ، افطاری کے بعد تکے ان کے ساتھ اور درمیان میں دن کا جو بھی حصہ بچے گا وہ گروپ کے باقی چینلز پر ان کے ساتھ ۔ ایک چینل بتارہاتھا کہ وہ مذہبی اور سیاسی اینکر کے حسین امتزاج کے ساتھ اقبال کا خیال رکھیں گے جنہوں نے متنبہ کیا تھا کہ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ۔کچھ چینلز بھانت بھانت کے گلوکاروں اور اداکاروں کے چہرے دکھا کر پہلی دونوں دکانوں سے لڑنے کا اعلان کررہے تھے کہ ایسے میں ایک نئے نویلے چینل نے اعلان کیا پاکستان میں پہلی بار اداکارہ وینا ملک کریں گی استغفار ، منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ پھر اس چینل اس کے اعلان اور اس کے مالکان کے بارے میں سوشل میڈیا پر جو جو ہوئی وہ ناقابل بیان ہے بس یہ کہہ دینا کافی ہے کہ اس میں گفتگو بہت کم تھی ۔ اس کے بعد چینل نے رات آٹھ بجے کے شو میں اعلان کیا کہ وینا کا شو نہیں ہوگا مگر رمضان آیا اور شو بھی آگیا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔پھر وینا نے شادی کرلی منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ شادی کے بعد وینا نے کہا کہ اب وہ اسلامک فلمز میں کام کریں گی اور منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔لاہور یوں اور لاہور کو چلانے والوں کے ساتھ ساتھ پورا پاکستان پریشان تھا ریمنڈ ڈیوس ریمنڈ ڈیوس اور ریمنڈ ڈیوس ہر طرف یہی نام سنائی دے رہا تھا ۔ اس کن ٹٹے سے ملنے امریکی ایسے جا رہے تھے جیسے ہمارے حکمرانوں سے بھی نہیں ملتے ۔ اخبارات کی سرخیوں سے لے کر چینلز کے ٹکرز تک سب اپنی ان دنوں کی روزی روٹی اسی سے کمارہے تھے ۔ ایسے میں راتوں رات عدل ہوا اور ریمنڈ ڈیوس یہ جا وہ جا اور تو اور جن کے پیارے مرے تھے وہ بھی ایسے غائب ہوئے جیسے ریمنڈ کے سر سے سینگ ۔ پیسہ بول رہا تھا اور بہت سوں کی بولتی بند ہو چکی تھی جبکہ بہت سوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔
افغانستان کے چٹیل میدانوں سے سنگلاخ چٹانوں تک ۔ زیر قبضہ کابل سے آزاد افغانستان تک امریکی اسامہ کی بو سونگھ رہے تھے ۔ ساتھ ہی بار بار یہ بھی بتارہے تھے کہ اسامہ پاک افغان سرحدی علاقے میں ہے ۔ ہمیں خوش کرنے کو وہ اس علاقے کو اسامہ کے لیے محفوظ بھی قرار دیتے رہے ۔ کنکر ، پتھر ،ٹیلے ، پہاڑ سب چھان مارنے کے باوجود امریکا اسامہ کی تلاش میں ایسے ہی ناکام تھا جیسے پاکستان بھارت سے ورلڈ کپ کا میچ جیتنے میں ناکام رہا ہے۔ امریکا کی تلاش ایک عشرے پر محیط رہی ۔ اسامہ کی تلاش ایک صدر کے دو ٹرم کھا گئی اور ایک کے چار سال ۔ لیکن اسامہ وہ سوال بنا ہوا تھا جس نے امریکا کو نالائق ترین ثابت کیا ہوا تھا ۔ کبھی کبھار یہ بھی کہا گیا کہ طرح طرح کی بیماریوں سے دو چار اسامہ اپنی موت آپ مرگیا ۔ لیکن پھر پرفضا مقام پر ، شہری ہنگاموں سے زیادہ دور نہیں ، کسی غار یا پہاڑ کے بجائے اسامہ وہاں ملا کہ کہنا پڑا بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں ۔ کس نے سوچا تھا کہ اسامہ پی ایم کاکول کا پڑوسی نکلے گا ۔ لیکن ایسا ہوا اور منہ کھلے کا۔ٹیرس کو ٹیررسٹ کہتے ، ٹیون کو ٹوئن کہتے غلط انگلش کے ساتھ غلط اردو بولتے میرا پتی کا ڈرامہ کرتے ، عتیق کی منگیتر منکوحہ اور مالک مکان ثابت ہوتے ہم نے میرا کو دیکھا تھا ۔ ہم نے دیکھا تھا کہ وہ عجیب ترین حرکتیں کرنے میں راجہ ریاص سے بھی آگے تھی ۔اس نے چینلز کو کھمبوں پر چڑھنے والے رکشہ ڈائیورز سے زیادہ پیچھے لگائے رکھا ۔ بوتل کے ڈھکن کو بھری پریس کانفرنس میں دانتوں سے کھولنے کی کوشش کرتے ، علامہ اقبال کو اس کے منہ سے قومی ترانے کا خالق بنتے ہم نے دیکھا ۔ کبھی منہ کھلے کا کھلا نہیں رہا کیونکہ میرا کے لیے یہ بے وقوفیاں چھوٹی تھیں لیکن پھر اک روز میرا کے باعث منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ اور اس کے چند گھنٹوں بعد پھر منہ کھلے کا کھلا رہ گیا جب میرا نے کہا کہ یہ میری ماسکنگ کی گئی ہے بالکل اسی طرح جس طرح فلموں میں کی جاتی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان نے یہ ثابت کیا کہ بہتا ڈیزل اپنا رستہ خود بناتا ہے ۔ لیکن جب قومی اسمبلی کے باہر کھڑے ہو کر مولانا نے یہ فرمایا کہ اگر امریکی حملے میں کتا بھی مرے گا تو میں اسے شہید کہو ں گا منہ کھلے کا ۔انہتر برس کی عمر ، دو ماسٹر ڈگریاں، اپنی نگرانی میں ستر فکر انگیز کتب کی تکمیل کا کارنامہ انجام دینے والے ، کراچی کے اک نامور سیاست دان نے این ایس ایف سے جماعت کی امارت تک کا سفر طے کیا ۔ جماعت کے اندر ہی کئی ذیلی اداروں کی سربراہی کی ۔ دنیا دیکھی تو انہیں جہاندیدہ کہنا ہی پڑے گا مگر جب سید منور حسن نے شہید کی وہ تعریف کی کہ جس کی تعریف ممکن نہیں اور اس اس کو شہید قرار دیا جس جس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تھی تو منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔پچاس ہزار سے زائد افراد کی جان لینے کے بعد ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو چلتا پھرتا بم بنا دینے کے بعد مسجدوں، مدرسوں کو کہیں بارود کے کارخانے اور کہیں باردو سے اڑادینے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں عمر بھر کے جسمانی معذور پیدا کرنے کے بعد سروں سے فٹبال کھیلنے والی ٹیم کے حالیہ نائب کپتان اور بقول نذیر ناجی پاکستان کے متوقع نائب وزیر داخلہ شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ عوامی مقامات پر دھماکے کرنا اور بے گناہ لوگوں کی جان لینا ناجائز اور حرام ہے بہت سوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا مگر میرا نہیں میں تو انتظار میں ہوں کہ کسی روز وہ کہیں یہ میری ماسکنگ کی گئی ہے ۔ کیونکہ وینا سے شاہد اللہ شاہد تک پکچر مکمل نہیں ہوئی ابھی باقی ہے میرے دوست ۔